لالہ یہ دنیا کس طرف جا رہی ہے

javedجاوید اختر بھٹی

میرا ایک دوست ہر روز، ہر شخص سے ایک ہی سوال کرتا ہے۔ ’’لالہ یہ دنیا کس طرف جا رہی ہے؟‘‘ کوئی بات خواہ کتنی ہی سنجیدہ ہو۔ اسے مسلسل کہا جائے تو وہ مزاح کا تاثر دیتی ہے۔

ملک کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مجھے ہنسی آتی ہے۔ لوڈشیڈنگ تھی اور وہ اب تک ہے۔ اس کے کم ہونے کا کوئی امکان بھی نہیں ۔ سردیوں میں گیس نہیں آتی۔ کوئی بات نہیں، رشوت کا بازار گرم ہے۔ ہر سرکاری ملازم رشوت لیتا ہے اور اب کوئی سرکاری ملازم رشوت کے الزام میں گرفتار نہیں ہوتا۔

زکریا یونیورسٹی کا وائس چانسلر کرپشن کے جرم میں گرفتار کیا گیا ۔یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے۔ ڈاکٹر عاصم کو جس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے ۔ اس سے بڑے جرم کا اعتراف عمران خان نے کیا ہے اور اس کا اظہار انہوں نے میڈیا پر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک طالبان کا علاج شوکت خانم میں کیا گیا۔ لیکن انہیں معلوم نہیں تھا۔ جب طالبان کی طرف سے شکریے کا خط آیا تو معلوم ہوا۔ یہ نہیں بتایا گیا وہ بڑا طالبان لیڈر کون تھا۔ حکومت نے ان سے کوئی سوال نہیں کیا اور نہ ہی اس کی تحقیق کی گئی ۔

اگر میں اپنے بچے کی شادی کرتا ہوں تو دس بجے کے بعد پولیس آجاتی ہے۔ مجھے صرف ایک ڈش کی اجازت دی جاتی ہے، لیکن اگر وزیر اعظم کی نواسی کی شادی ہو تو وہاں ڈشیں ان گنت ہوتی ہیں۔ کروڑوں روپے کے تحائف دئیے جاتے ہیں۔ یعنی بادشاہ اور رعایا اپنے اپنے طورپر زندہ رہتے ہیں۔

میں سیاست پر پڑھنا ، لکھنا اور گفتگو کرنا نہیں چاہتا ۔ ٹی وی چینلزمیں سیاست پر بولنے والے چابی کے گڈے ہیں۔ جب تک ان کی چابی ختم نہیں ہوتی وہ ڈھول پیٹتے رہتے ہیں اور پھر یک دم خاموش ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں پھانسیاں زیادہ دی جاتی ہیں یا سعودیہ میں گردنیں زیادہ کاٹی جاتی ہیں۔ مجھے اس کا اندازہ نہیں۔ بس مجرم کیفر کردار تک پہنچ رہے ہیں۔ مرنے والوں کے ورثا انہیں بے گناہ کہتے ہیں تو دراصل وہ توہین عدالت کے مرتکب ہوتے ہیں۔

آج غربت اور بے روزگاری سے تنگ آ کر لوگ پہلے اپنے بچوں کو قتل کرتے ہیں ۔ اس کے بعد خودکشی کر لیتے ہیں۔ اغوا، قتل ، ڈکیتی ، عورتوں پر تشدد اور بچوں کے ساتھ جنسی تشدد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دولت اور جائیداد کی خاطر ماں باپ کو قتل کیا جاتا ہے۔ القاعدہ اور طالبان کے بعد داعش پھل پھول رہی ہے۔ مردوزن اس کی طرف بھاگ رہے ہیں۔

کوئی امید بر نہیں آتی +کوئی صورت نظر آتی

یہ سچ ہے کہ یہ شعر اتنا زیادہ پڑھا گیا کہ اب بکواس معلوم ہوتا ہے۔ غالب کے اشعار بھی تذلیل کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہر شخص مایوس اور بے بس ہے۔ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہ صورت کب تک رہے گی۔ آخر سب کچھ اپنے انجام کو پہنچے گا۔ لیکن اس انجام میں ایک بار پھر عام لوگ مارے جائیں گے۔ تاکہ عبرت حاصل ہو۔

نہ ملک ایسے ہوتے ہیں اور نہ ہی حکومتیں ایسی ہوتی ہیں۔ کہاں سے رونا شروع کیا جائے اور کہاں ختم کیا جائے؟ یا پھر یہ سوال پوچھا کریں کہ ’’لالہ یہ دنیا کس طرف جارہی ہے؟‘‘اور دیر تک اس مزاحیہ سوال پر ہنستے ہیں ۔ کیا لطیفہ ہے کہ جس پر بار بار ہنسا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ آنکھوں میں پانی آجاتا ہے۔ یہ پانی شرم اور ندامت کا نہیں، ہنسی کا ہے۔

اب تک اس ملک میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ انہیں شمار نہیں کیا جا سکتا اور یہ سب حکمرانوں کی برکت سے پیدا ہوئی ہیں۔ لوگوں نے کہا عقل مندوں نے اس ملک کو برباد کر دیا ۔ اب کسی پاگل کو لے آؤ۔ پاگل نے جب دیکھا کہ اسے پکارا جا رہا ہے ۔ وہ خود ہی آگیا ہے کہ مجھے اقتدار دو۔ میں آگیا ہوں۔ میں تمہاری قسمت بدل دوں گا اور وہ تبدیلی کا نعرہ لگانے لگا۔

نئی نسل سیاست سے دور ہو گئی۔ یہ نسل اخبار نہیں پڑھتی، خبر نامہ نہیں دیکھتی، سنتی، ٹاک شو کے مرغے لڑتے ہوئے نہیں دیکھتی۔ اس نسل سے امید کی جا سکتی ہے کہ یہ کوئی تبدیلی لے کر آئے گی۔ یہ طنزنہیں ہے، حقیقت ہے۔ یہی لوگ تبدیلی لائیں گے۔ ہم تو اس لیے مارے گئے کہ ہم نے ہر مضمون ، ہر خبر اور ہر تقریر پر اعتماد کیا اور تبدیلی کی امید رکھی۔

دراصل ہم آج بھی کرشن چندر ، سعادت حسن منٹواور راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کے کردار کے طور پر زندہ ہیں۔

اور اب آخر میں ’’نام دیودھاسل‘‘ کی نظم ’’ریپبلک اور کتے کا گیت‘‘ کا پہلا اور آخری حصہ پیش کرتا ہوں۔
کتا! بندھا ہو کتا
چلاتا رہتا بھونکتا رہتا ہے
یہ اس کا قانونی حق ہے
وہ باسی ٹکڑوں پر جیتا ہے
اس کا دماغ نا انصافیاں سہ سہ کر ماؤف ہو گیا ہے
اگر ایک باغیانہ لمحہ میں صبر کا دامن چھوٹ جاتا ہے
اور وہ رسی کو جھٹکتا ہے اور زنجیر توڑنے کی کوشش کرتا ہے
تو اسے گولی مار دی جاتی ہے
گلیوں کی بھیڑ میں
جھوٹی آزادی کے ڈھول پیٹے جاتے ہیں
________________
سونے کی چڑیا___سونے کی چڑیا
سنہری دانہ___سنہری پنجرہ
ہم بکاؤ ہیں
کتنے سفید ہیں یہ مسافر
کتنے سفید ہیں یہ فقیر
کتنے سفید ہیں یہ شکاری
ان کے ہاتھوں میں سفید خرگوش ہیں
انہوں نے میزوں پر نفیس دستر خوان پھیلا کر اپنے شکار سجا دئیے ہیں
وہ چھریاں نکالتے ہیں۔ کچ کچ
وہ خرگوش کی انتڑیاں چیرتے ہیں
گرم خون کا فوارہ اُبل پڑتا ہے
میرا دماغ خون آلودہ فاختہ بنتا جا رہا ہے
امن کے پیغامبر آسمان سے سر ٹکرا رہے ہیں
وحشت سے نغمہ ابھرتا ہے۔ ریپبلک کا نغمہ
خیرات دو ___گرہن ختم ہو گیا ہے
خیرات دو ___گرہن ختم ہو گیا ہے
________

Comments are closed.