پریوں کے دیس میں

خالد تھتھال

12552932_1671511923119526_710438369188481726_n

یہ میرے بچپن اور جوانی کا گاؤں ہے۔ گاؤں کی گلیوں میں کوئی لڑکی گزر رہی ہے، پاس سے گزرتے لڑکے نے کوئی فلرٹی فقرہ کہا لیکن لڑکی نے جواب نہ دیا، نہ مسکرائی، نہ ہنسی، بس سر جھکائے یا تیوری چڑھائے گزر گئی تو پھر سمجھ لیں کہ دنیا اندھیر ہے، لیکن اگر اس نے جواب دے دیا، مسکرائی تو پھرمت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے۔ ہنس گئی تو پھنس گئی۔ یہ ایک ایسی کہاوت ہے جو اپنے اندر صدیوں کے تجربات کا نچوڑ لئے ہوئے ہے۔

لیکن صدیوں کے تجربات کے نچوڑ والی یہ کہاوت یورپ پہنچتے ہی میرا ساتھ چھوڑ گئی۔ کہ وہاں تو بات کرتے وقت لڑکیاں ہنستی بھی ہیں، کسی بات پر گلے بھی لگا لیتی ہیں۔ ملتے وقت گالوں سے گال بھی مس کرتی ہیں، گالوں پر بوسہ لیتی بھی ہیں اور دیتی بھی ہیں۔ لیکن گاڑی ہے کہ ایک جگہ ہی کھڑی رہتی ہے۔

مجھے یورپ کے قیام کے ابتدائی دنوں میں بالکل سمجھ نہ آ سکی کہ اگر لڑکی ہنس رہی ہے تو کیا اس کا ارادہ پھنسنے کا ہے یا وہ ایک دوستانہ ہنسی ہے۔ اسی شش و پنج کے نتیجہ میں میں کچھ عرصہ میرا انتہائی پارسائی میں گزارا۔ اور جب اس کھیل کے اصول سمجھ میں آنے لگے تو شادی سر پر کھڑی تھی۔ میں زندگی میں اس قدر گناہ نہیں کر پایا جس پر میرا حق تھا یا جس قدر مواقع مجھے حاصل ہوئے۔ مجھے آج تک اپنی اس دیہاتی سادہ لوحی پر غصہ اور پچھتاوا ہے۔

اوسلو یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ایک لڑکی میرے پاس رات کے ایک بجے تک بیٹھی رہی، باتیں کرتے رہے اور مجھے یہ نہیں سوجھ سکا کہ ان فارمل باتوں کو کیسے دوسری سمت موڑنا ہے۔ میں سوچتا رہا اور وہ تنگ آ کر اٹھ کے چلی گئی۔ میں آج جب اس واقعے کے متعلق سوچتا ہوں تو اپنے گدھے ہونے پر مجھے بہت غصہ آتا ہے۔

دنیا کے ہر ملک میں مرد کا رول ایک فاتح کا ہی ہے، اسے ہی پہل کرنا ہوتی ہے۔ عورت کے چہرے پر صرف یہ تاثرات ہوتے ہیں کہ اگر بڑھو گے تو میں روکوں گی نہیں، لیکن بڑھنامرد نے ہی ہے۔ اس کھیل میں عورت ایک مفتوح کے طور پر نظر آتی ہے۔ مرد کے پہل کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ یہ ”نقصاں“ ہو سکتا ہے کہ لڑکی انکار کر دے گی کہ اسے آپ میں دلچسپی نہیں ہے، یا وہ آپ کو صرف ایک دوست سمجھتی ہے۔ ایک بار ایک نارویجن گلہ کر رہا تھا کہ تعلق کی گاڑی سٹارٹ کرنے میں صرف ہمارا زور لگتا ہے۔ لڑکیوں کا کام صرف یہ ہیں کہ وہ ایسے بنیں سنوریں کہ لڑکے ان کی طرف دیکھ کر رالیں بہائیں۔

لیکن یہ سب پرانے وقتوں کی باتیں ہیں، اب زندگی بہت تیز ہو گئی ہے۔ اور آج کل جو لوگ یورپ میں داخل ہو رہے ہیں، وہ یورپ میں پلنے بڑھنے والوں سے بھی زیادہ تیز ہیں۔ جس کا جرمنی کے کولون نامی شہر اور دیگر یورپی ممالک میں سال نو کی شام کو اظہار ہوا ہے۔

اب مشرق وسطیٰ میں تحرش جمعیت یعنی اجتمائی طور پر لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی وبا یورپ میں بھی پھیل رہی ہے، جس کے مطابق کسی بھی بھیڑ والی جگہ پر کسی لڑکی کے مرد گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں، چند مرد باری باری زنابالجبر کرتے ہیں، جب کہ ان کے گرد گھیرا ڈالنے والے اس کوشش میں مصروف ہوتے ہیں کہ گھیرے سے باہر والوں کی اس کی خبر نہ ہو سکے۔

ویسے یورپ میں مسلمان پناہ گزینوں کے ہاتھوں زنا بالجبر ہونے کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ 2009 سے 2011 کے درمیان صومالیہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان پناہ گزینوں کی آمد کے نتیجے میں یہ واقعات اس قدر بڑھ گئے کہ ناروے کے ہیرو نامی ادارے نے ان پناہ گزینوں کیلئے مختلف کورسز کا اجرا کیا جس سے انہیں ناروے اور صومالیہ کی ثقافت کا فرق بتانے کے علاوہ یہ سمجھانا بھی مقصود تھا کہ اگر نارویجن لڑکیاں صومالی عورتوں کی طرح کی ستر پوشی اور حجاب وغیرہ استعمال نہیں کرتیں تو نہ تو وہ آپ سیکس کرنے کی دعوت دے رہی ہیں اور نہ ہی وہ کنجریاں ہیں۔

جرمنی کے شہر کولون میں سال نو کی شام کو ہونے والے واقعے کا عالمی طور اس قدر ذکر ہوا کہ اس کے نتیجے میں اسی شام کو یورپ میں زنا بالجبر کے واقعات سامنے نہیں آ سکے۔ جب کہ اسی شام کو فرانس، بلجیئم، سویڈن، فن لینڈ اور ناروے میں ایسے واقعات کی اطلاعات ہیں، جس سے پورے یورپ میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ اور اسے ایک ملک میں ہونے والا انوکھا واقعہ نہیں سمجھا جا رہا۔

ناروے کا ادارہ ہیرو جو ملک میں آنے والے پناہ گزینوں کیلئے قائم کیئے 40 فیصد مراکز چلا رہا ہے، انہوں نے دوبارہ پناہ گزین مردوں کیلئے کورسز کا آغاز کرنا ضروری سمجھا ہے۔ جن سے عرب ممالک اور شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے کو یہ سمجھانا مقصود ہے ہے کہ کم کپڑے پہننے کو زنا بالجبر یا جنسی ہراساں کرنے کا جواز نہیں بنایا جا سکتاہے۔ پناہ گزیوں کو سکرٹ پہنے ہوئی لڑکیوں کی تصاویر دکھا کر یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کا ایسا لباس پہننے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ آپ سے ہم بستری کرنا چاہ رہی ہیں، یا آپ کو اس کی دعوت دے رہی ہیں۔

ان کورسز کی انچارج لنڈا ہاگن کا کہنا ہے کہ انہیں مغربی ممالک اور اسلامی ملکوں کے ثقافتی فرق کو سمجھانے میں کافی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے کہ جب انہیں کورس کے دوران مرد یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی لڑکی نے مجھے چوما ہے تو وہ یقیناًمجھ سے سیکس کرنا چاہ رہی ہے یا اگر کوئی لڑکی میرے گھر آئے تو وہ مجھ سے سیکس کرنے آ رہی ہے یا وہ سیکس کرنے پر راضی ہے۔ 

لنڈا کے بقول ناروے میں یہ عام بات ہے کہ لڑکی لڑکا آپس میں گلے ملیں، جپھا ماریں، پارٹی میں رقص کرتے وقت ان کے جسم ایک دوسرے کے بہت قریب آ جائیں، لیکن اس کاقطعاًیہ مطلب نہیں لینا چاہیئے کہ اس کا نتیجہ ہر صورت میں اکٹھے بستر میں جانا ہی ہو گا۔

کورس کے دوران پناہ گزینوں کو ہائی سکول کے لڑکے لڑکیوں کیلئے تیار کی گئی ایک فلم بھی دکھائی جاتی ہے جس میں لڑکا اور لڑکی پارٹی میں ایک دوسرے کو چوم رہے ہیں۔ لڑکا لڑکی کو کھینچ کر اوپر کمرے میں لے جا کر دروازہ بند کرنے کے بعد کنڈی لگا دیتا ہے۔ لڑکی کے منع کرنے کے بعد بھی وہ لڑکا دست درازی سے باز نہیں آتا۔ فلم کا اختتامیہ پیغام یہ ہوتا ہے کہ ”نہیں“ کا مطلب ”نہیں“ ہے، یعنی اگر لڑکی آپ سے سیکس نہیں کرنا چاہ رہی تو اپنی جسمانی قوت کے بل پر اسے مجبور نہیں کر سکتے۔

اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ یورپ کے باقی ملکوں میں بھی اس قسم کے کورسز شروع کیے جانے والے ہیں تاکہ کولون میں شامی اور شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ہ واقعات نہ دہرائے جائیں۔

اگلے ہفتے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے، جہاں یورپ کے دوسرے ممالک کو بھی ان کورسز سے آگاہ کرنے کے علاوہ یہ بتایا جائے گا کہ وہ اپنے ممالک میں انہیں کیسے شروع کر سکتے ہیں۔


Comments are closed.