خالد تھتھال۔ناروے
کلکتہ میں آج کل بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعے کو فن و ثقافت پر بہت بڑے حملے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ کہ بدھ کے روز چٹاگانگ ڈویژن کے ضلع برہمنباریہ میں مشتعل طلبا نے موسیقی کے افسانوی شہرت کے حامل استاد علاؤالدین کے سنگیت آنگن نامی میوزیم کو جلا کر راکھ کر دیا۔
استاد علاؤالدین خان مرحوم موسیقی کی دنیا کا بہت بڑا نام ہے۔ انہیں بابا علاؤالدین کے علاوہ استادوں کا استاد اور استاد ساز بھی کہا جاتا ہے۔ وہ تریپورہ میں پیدا ہوئے، ان کی تاریخ پیدائش 1862 بتائی جاتی ہے اور ان کا انتقال 1972 میں ایک سو دس سال کی عمر میں ہوا۔
علاؤالدین خان مذہب کے بھید بھاؤ سے بہت اونچے تھے، ان کی موسیقی سے لگن کا یہ حال تھا کہ جہاں انہوں نے اپنے وقت کے بہت سے مسلمان استادوں سے موسیقی سیکھی، وہیں ہندو پنڈتوں کے علم سے بھی استفادہ کیا۔ حتیٰ کہ مشرقی بنگال کے اپنے وقتوں کے لوک موسیقی کے نامور ترین گلوکار گوپال کرشن بھٹاچاریہ سے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھنے کیلئے نہ صرف خود کو ہندو ظاہر کیا بلکہ شاگردی کی خاطر اپنا نام تارا پرسنا سنہا رکھ لیا۔
علاؤالدین خان نے مدن منجری نامی ایک ہندو خاتون شادی سے کی جن سے ان کے ہاں علی اکبر خان نامی بیٹے کے علاوہ تین بیٹیاں شاریجا، جہاں آرا اور ان پورنا پیدا ہوئیں۔ ان پورنا کی شادی پنڈت روی شنکر سے ہوئی۔ ان پورنا کو سربہار بجانے میں اس قدر مہارت تھی، کہ خدشہ تھا کہ ان کی وجہ سے پنڈت روی شنکر گہنا جائیں گے۔ لہذا ان پورنا دیوی نے کبھی پبلک پرفارمنس نہ دی۔ گو آج کل ان کی چند ریکارڈنگز یو ٹیوب پر سنائی دی رہی ہیں۔ پنڈت روی شنکر کی رنگیلی طبیعت کی وجہ سے شادی ٹوٹ گئی۔ جس سے علی اکبر خان اور روی شنکر کے تعلقات بھی ہمیشہ کیلئے خراب ہو گئے۔
علاؤالدین خان نے سرود نوازی کے علاوہ چند ایک فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی۔ بیسیوں راگ بھی تخلیق کیے، جن میں کومل بھیم پلاسی، کومل ماروا، دُرگیشوری، مانج کھماج، نٹ کھماج، میگھ بہار اور جونپوری توڑی قابل ذکر ہیں۔ لیکن علاؤالدین خان نے اپنے پیچھے جو سب سے بڑا ورثہ چھوڑا ہے وہ ان کے شاگرد ہیں جنہوں نے دنیا میں اپنا نام پیدا کرنے کے علاوہ اپنے استاد کا نام بھی روشن کیا۔ ان کے چیدہ چیدہ شاگردوں میں پنڈت روی شنکر، استاد علی اکبر خان، ان پورنا دیوی، پنڈت نخل بینرجی، وسنت رائے، پنا لال گھوش، بہادر خان، شرن رانی اور جوتن بھٹاچاریہ ہیں۔
علاؤالدین خان کو 1958 میں پدم بھوشن اور 1971 میں پدم وبھوشن جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔ سنگیت ناٹک اکیڈیمی 1954 میں پہلے ہی انہیں اپنے سب سے بڑے اعزاز یعنی تا حیات فیلو شپ سے نواز چکی تھی۔
بارہ جنوری بروز منگل برہمنباریہ کے طالبعلم اپنے ہم جماعت مدثر رحمٰن کی پلاکت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، اشتعال بڑھنے کے نتیجے میں 300 طلبا نے سنگیت آنگن میں گھس کر اسے آگ لگا دی۔ سنگیت آنگن کے پرنسپل ہلال الدین کے مطابق مدرسہ سے تعلق رکھنے والے چند لڑکوں نے آگ لگائی جس کے نتیجے میں پہلے چار کمرے مکمل تباہ ہو گئے۔ جن میں دو قالین تھے جو علاؤالدین خان کو جیسور کے راجہ نے تحفے کے طور پر دیئے تھے۔ ایک جانماز تھا جو حج کے دوران انہیں سعودی حکومت نے انہیں دیا تھا۔ علاؤالدین خان کی پنڈت روی شنکر، علی اکبر خان اور ان پورنا دیوی کے ساتھ چند نادر تصاویر تھیں، وہ بھی جل گئیں۔ اس کے بعد ہجوم دوسرے کمروں میں داخل ہوا اور علاؤالدین خان کے زیر استعمال رہنے والے تمام ساز صحن میں لا کر انہیں آگ لگا دی۔
اس خبر کے بھارت پہنچنے پر وہاں کے ثقافتی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ہے، بھارت کے موجودہ وقتوں کے سب سے بڑے کلاسیکی گائیک استاد راشد خان کے بقول بنگال تو ثقافت کا گہوارہ ہے۔ وہاں کے لوگ موسیقی اور فن سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ یقیناََ یہ چند انتہا پسندوں کا کیا دھرا ہے۔ میں پچھلے نومبر میں ڈھاکہ گیا تھا اور مجھے سننے کیلئے میرے کنسرٹ میں ساٹھ ہزار لوگ آئے۔ مجھے بہت دکھ ہوا کہ یہ واقعہ بنگلہ دیش میں پیش آیا۔
راشد خان کے بقول جب بھی کوئی ہنگامہ ہوتا ہے تو فن پاروں کی تباہی ضرور ہوتی ہے۔ گجرات کے فسادات کے دوران بھی استاد فیاض خان کے مقبرے پر حملہ ہوا۔ جب فنکار کسی کے قتل کے ذمہ دار نہیں ہوتے تو ان پر حملہ کیوں کیا جاتا ہے، جب کہ اب وہ زندہ بھی نہیں ہیں۔
علاؤالدین خان کے پوتے استاد آشیش خان نے اس واقعے کو شرمناک اور قابل مذمت کا نام دیا۔ ان کے بقول بنگلہ دیش کی حکومت نے ان کے ”دادُو“ کو وہ عزت نہیں دی جس کے وہ حقدار تھے۔ سنگیت آنگن بھی ایک زمیندار کے تحفے میں دیئے گئے مکان کے اندر بنا تھا۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ بنگلہ دیشی حکومت مجرموں کو سخت سزا دے۔
سرود نواز تیجندر نرائن موضمدار نے اس واقعے کو طالبان کے ہاتھوں بامیان میں مہاتما بدھ کے مجسمے کو تباہ کرنے سے مشابہ قرار دیا۔
برصغیر میں علم و فن کے حوالے سے بنگالیوں کو بہت اہم مقام حاصل ہے، رابندر ناتھ ٹیگور، نذرالسلام جیسے شاعر، بھارتی آرٹ سینما کے باوا آدم عالمی شہرت یافتہ فلمساز ستیہ جیت رے کے علاوہ مرنال سین اور رابن گھوش بنگالی تھے۔ مرحوم استاد ولایت خان جنہیں آفتاب ستار کہا جاتا ہے وہ بھی بنگلہ دیش کے گوری پور نام قصبے میں پیدا ہوئے۔
بنگال میں فن کی اہمیت اس بات سے واضح ہو جاتی ہے کہ بنگالی گھروں میں لڑکیوں کو موسیقی اور رقص کی تعلیم دی جاتی ہے، جب شادی کیلئے کوئی رشتہ آتا ہے تو بات چیت کے دوران یہ پوچھا جاتا ہے کہ بچی کونسا ساز بجاتی ہے، گاتی ہے یا رقص سیکھی ہوئی ہے؟۔ اثبات کی صورت میں اسے اپنے فن کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔
سنہ 1970 میں جب شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات کا بہت چرچا تھا تو ان وقتوں کے اردو ڈائجسٹ کے مدیر الطاف حسین قریشی نے ان نکات کا تجزیہ کرنے کیلئے ایک طویل کتابچہ لکھا تھا، اسے کتاب میں صدر ایوب خان کی ناپسندیدگی کی ایک وجہ رقص پر پابندی بھی بتائی گئی۔ چند ایک نے الطاف حسین سےسوال پوچھا کہ اگر ہماری بیٹیاں رقص نہیں سیکھیں گی تو ان سے شادی کون کرے گا۔
یہ وہی سابقہ مشرقی پاکستان ہے جہاں کبھی لوگ رقص پر پابندی کو اپنی بیٹیوں کی شادی میں رکاوٹ خیال کر رہے تھے، لیکن وہ چند عشرے پہلے کی بات ہے۔ اب انہیں بیٹیوں کی شادی سے زیادہ آخرت کی فکر ستائے جا رہی ہے۔
♣
One Comment