زرک میر
لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان آئے مہاجروں نے کچھ اچھا کام نہ کیا ۔ہندوستانی مہاجر آئے انہوں نے سندھ دھرتی پر قبضہ کرلیا ۔بلوچستان میں افغان مہاجرین نے منشیات اوراسلحہ کلچر کو متعارف کرایا۔اورمنٹو نے فحش نگاری کاکلچر متعارف کرایا۔منٹو شہری بننے سے پہلے مرگیا ۔وہ مرنے کیلئے ہی لاہور آگیا تھا ۔ ہندوستان سے آنے والے مہاجرین لاہور آئے تو انہیں ٹرینوں کے دروازے بند کرکے اوراسٹیشنوں پر ڈنڈے لئے کھڑے پنجابی نوجوانوں نے پاکستان کا راستہ دکھایاا ورکہا کہ پاکستان آگے ہے کیونکہ یہ مہاجرین کام کے نہیں تھے ‘ان مہاجروں میں جون ایلیاء اوربھائی الطاف حسین کی پہچان کرنا مشکل تھا ۔اس وقت یہ ہندوستانی مہاجر کراچی آگئے بلکہ لائے گئے بسائے گئے خود جی ایم سید نے ان کیلئے اسٹیشنوں پر چاول کی پکی پکائی دیگیں بناکر لائے اوران کو کھانا کھلایا ۔اب یہ کراچی حیدرباد سکھر اورمیر پورخاص جیسے علاقوں پراکثریتی کا دعویٰ رکھتے ہیں ۔حقیقی پاکستان بنانے والے لوگ کہلاتے ہیں ۔ان علاقوں کو الگ بظاہر الگ جبکہ الگ وطن بنانا چاہتے ہیں ۔
بلوچستان میں سوویت یونین کے جہادکے بدلے افغانیوں کو لاکھوں کی تعداد میں سرحدیں کھول کر حقیقی پاکستان میں داخل کیاگیا ۔کھانا کھلایاگیا اوربسایاگیا ۔بلوچستان میں روایتی اسلحہ تو ہر گھرمیں پہلے سے موجودتھا ‘چلم اورنسوار کا رواج بھی عام تھا لیکن افغانی ان دونوں صنعتوں کو ترقی دینے کا سبب بنے ۔گویا نیم جاگیردارنہ اورسردارانہ سماج میں صنعتی دورکاآغاز ہوگیا ۔مشین گنیں روایتی ڈھاڈری بندوق کا منہ چڑھانے لگیں ‘نسواراورچلم چرس ہیروئن تریاق کے سامنے پانی پانی ہوگئے ۔اب کاروبار وسعت پاگیا ‘مہاجرین نے افغانستان سے سمگلنگ کے ذریعے بلوچستان کے مفلوک الحال عوام اس کامیں ایسا ہنر مند بنایا کہ کیا سردار کیا شوہان ‘سب روایتی رشتے ‘پیداواری رشتے اورذرائع پیداوار سب کے سب بدل گئے ۔یہ افغانیوں کا کلچر تھا جو اپنے ساتھ لایا۔
پورا نام سعادت حسن منٹو تھا نسلی کشمیری تھے ۔امرتسر میں رہتے تھے بعدمیں ممبئی چلے گئے ۔کہانیاں لکھیں ‘افسانے لگے ۔دوقومی نظریہ کے متاثرین میں وہ بھی شامل تھے کہ وہ لاہور آگئے ۔یہاں کچھ ہی سال بیت گئے کہ مرگیا ۔صفیہ منٹو(اہلیہ منٹو) نے کہا کہ پاکستان آنے کے بعدمنٹو بدل گیا ‘معاشی حالت خراب ہوگئی ‘شراب کانشہ بڑھ گیا ‘ممبئی میں بھی نشئی لوگ دوست تھے پران میں کام کے لوگ بھی تھے ۔پاکستان میں کہانی الگ ہے ہر وقت بے کارلوگوں کیساتھ نشہ اورصرف نشہ ۔ممبئی جانے کیلئے پاسپورٹ بنانے کیلئے دیا ۔ٹیکنیکل غلطی ہوگئی تو پاسپورٹ نہ بن سکا ۔کہا یا رسب کتابیں ممبئی میں ہیں جس دوست کے پاس ہیں وہ باربار خط بھیج رہاہے کہ مجھے مکان بدلنے پڑتے ہیں تمہاری کتابیں کہاں کہاں لئے پھروں گااورپھر کچھ پیسے بھی کہانیوں اورافسانوں کے رہتے ہیں وہ بھی لیتے آؤنگا ۔کبھی کبھی واپسی کا سوچتے تو صفیہ منع کرتی کہ پاکستان مسلمانوں کیلئے بنا ہے تو بس اب یہی رہنا ہے ۔واپس نہ جاسکے منٹو ۔۔۔لیکن ان کے قریبی دوست اسد نے لکھا ہے کہ منٹو کی امرتسر سے ممبئی جانے کا سفر اوروہاں کی زندگی اورلاہور آنے کی زندگیوں میں منٹو میں بڑا فرق پایاجاتاہے ۔یہاں روز افسانے لکھنے بیٹھ جاتے کیونکہ روز پیسے ملنا ضروری تھا ورنہ شراب کہاں سے آتی ۔۔۔کسی نے فرمائش کی کہ ناول لکھو تو منٹو کہنے لگے ۔۔۔ناول کیلئے زیادہ وقت درکارہے جبکہ مجھے روز کے روز پیسے چاہیں جو افسانوں سے ملنا ہی ممکن ہے ۔
منٹو نے کھوٹے پر لکھا ۔رنڈیوں کی حالت زار پر لکھا ۔لوگ اس گند کو گند رہنے دینے پر اکتفاء کئے ہوئے تھے ۔منٹو ذہنی عارضے کاشکارتھا کہ یہ گند ہے تو کیوں گند ہے اورگند میں وہ مہک ڈھونڈتا رہا ۔اس نے اس تلاش میں فحش نگاری کو جنم دیا ۔وہ مہک ڈھونڈنے کیلئے لکھتا ۔لیکن معاشرے کے پارسا بلکہ مہا پارسا طبقوں کو یہ گند ۔۔۔گند ہی لگا وہ منٹو کو فحش نگار کہنے لگے ۔جتنی صفائی کروگے ،اتنا ہی کچرہ نکلے گا ۔ منٹو یہ دیکھتا رہا کہ یہ معاشرہ کچرے کا ٹوکرہ ہے ہے جس کی جنتی صفائی کرو اتنا کچرہ نکلے گا ۔وہ اس کا کھوج کررہے تھے لیکن پارسا لوگ اسے فحش سمجھتے رہے ۔گویا مرد اورعورت لفظ استعمال کیاجائے تو اس میں اگر کوئی فحاشی ڈھونڈنا چاہئے تو ڈھونڈ سکتاہے کیونکہ عورت اورمرد دونوں فحش ہی تو ہیں ۔
ان فحش افسانوں میں منٹو نے وہ کردار ڈھونڈا جس کی اسے تلاش تھی اوراسے فحش نگاری کا لقب دینے والے معاشرے کے اس بدبودار فعل میں برابر کے شریک تھے ۔تب ہی تو انہیں اس سے گھن آتی تھی کہ منٹو رنڈیوں پر کیوں لکھتا ہے ؟ایسا کیوں لکھتا ہے ؟ یہ بھی کوئی بلا موضوع ہوا لکھنے کیلئے ۔لیکن اس انتخاب نے منٹوکوفحش نگار کا خطاب دیدیا ۔گرو رجنیش نے کہا کہ میں نے سینکڑوں موضوعات پر لیکچر دیئے لیکن میرے سیکس سے متعلق لیکچر کی کتابیں سب سے زیادہ متنازعہ رہیں ۔اس سے اندازہ لگالیجئے کہ سیکس اس قدر اس معاشرے کا اہم مسئلہ ہے ۔منٹو نے اس نظر اندازطبقے کی حالت زار کو اس خوبصورتی سے پیش کیا کہ مخالف فحش اوربس فحش کا ہی الزام لگاسکے ۔
منٹوپر آخری مقدمہ ’’اوپر نیچے درمیان ‘‘پر چلا تھا۔یہ دلچسپ بات قابل ذکر ہے کہ ’’اوپر نیچے دمیان ‘‘پہلے لاہور میں ’’احسان ‘‘اخبار میں شائع ہوا تھا۔ اسے ’’پیام مشرق کراچی ‘‘ نے نقل کیا تھا اورمقدمہ کراچی ہی کی کچہری میں چلا۔کچہری سے منٹو کوبڑی نفرت تھی ۔ہزار بارکہتے تھے کہ کچہری سے زیادہ گھٹیا اورمہمل جگہ کوئی اورنہیں لیکن اس نفرت کے باوجود کچہری سے انہیں اکثر سابقہ پڑتارہتاتھا ۔کراچی سے ان کے نام وارنٹ آیا۔انہوں نے ضمانت کروادی اورمحمد طفیل صاحب کے اصرار پر کراچی جانے کیلئے راضی ہوگئے۔
منٹو نے کہا کہ میں جب کچہری میں پیش ہوا تو میں نے کافی پی ہوئی تھی۔ میں نے مجسٹریٹ سے درخواست کی کہ میرے مقدمہ کا جلد فیصلہ کردیاجائے کیونکہ میں لاہور سے آیاہوں اوربیمارہوں‘‘
جب مجھے مجسٹریٹ نے اس قدر بے تاب دیکھا اورکہا ’’آپ سعادت حسن منٹو ہیں نا؟آپ بیٹھئے ‘‘مجھے مجسٹریٹ کے حسن سلوک نے بڑاحیران کردیا میں مجرم تھا اورعدالت میں اپنے جرم کے باعث پہنچا تھا مگرمجسٹریٹ مجھے نہایت نرمی سے بیٹھنے کیلئے کہہ رہاتھا۔بہرحال میں بیٹھ گیا اورمیں کہا جناب میں ’’اوپر سے نیچے درمیان ‘‘فیچر کامصنف ہوں مجھے یہاں ’’فحش نگاری ‘‘ کے جرم میں حاضر ہوناپڑا ہے میں اقبال جرم کرتاہوں‘ابھی میرا فیصلہ کردیاجائے ‘‘۔
مجسٹریٹ نے کہا ’’میں ابھی تو فیصلہ نہیں کرسکتاچونکہ میں آج اس فیچر کا مطالعہ کرونگا اورکل فیصلہ سناؤں گا‘‘۔
۔۔۔خیر میں مان گیا۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن مجسٹریٹ نے پوچھا ’’آپ کی مالی حالت کیسی ہے ؟ میں کہا ’’بہت خراب ‘‘
مجسٹریٹ نے پوچھا ’’آج تاریخ کیا ہے؟
کسی نے کہا ’’25 تاریخ ہے آج ‘‘
مجسٹریٹ نے فیصلہ سنا دیا ’’25 روپے جرمانہ ‘‘
سزا سنانے کے بعد مجسٹریٹ نے منٹو سے ملنے کی خواہش کا اظہارکیا دوسرے دن زیلن کافی ہاؤس میں ملاقات ہوگئی‘‘
مجسٹریٹ بڑا پڑھا لکھا آدمی تھا۔۔۔۔۔۔کہا منٹو میں نے روسی فرانسیسی اورانگریزی ادب کا بڑا مطالعہ کیا ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔فن افسانہ کے ’’امام ‘‘ تم ہو۔۔۔تم دوسری زبانوں کے عظیم ادیبوں سے بھی زیادہ عظیم ہو‘‘
میں نے ان سے کہا ’’آپ نے مجھے سزاکیوں دی ؟
مجسٹریٹ نے کہا کہ ’’چونکہ وہ تحریر میری نظر میں ’’فحش‘‘ ہے ۔
میں کہا ’’فحش کسے کہتے ہیں ‘فحش کی تعریف کیا ہے ؟
مجسٹریٹ نے کہا ’’میں آ پ کو دوسال بعد بتلاؤں گا ابھی نہیں ‘‘
میں نے ان سے وعدہ لے لیا ہے اوروہ شاہد دوسال بعد’’ ریٹائر ہونے کے بعد وجوہات بتلائے۔۔۔۔۔۔
چنانچہ فحش نگاری کی تعریف کئے بغیر لوگ منٹو کو فحش نگارکہتے رہے ۔نہ تو وہ خود سمجھ سکے اورنہ ہی وہ جو انہیں فحش نگارکہتے تھے ۔ ایک بارعدالت میں فحش نگارثابت کرنے کیلئے منٹو کے خلاف ایک ہندو کو پیش کیاگیا۔جس نے کہا منٹو فحش نگار ہے ۔جواباً پوچھاگیا کیسے ؟ وہ کہنے لگے فحش کا لفظ فحش ہے ‘جذبات ابھارتا ہے ۔مجھے تو یہ قومی مفاد ’’ رنڈی ‘‘ سے زیادہ فحش لگتا ہے ۔رنڈی سے زیادہ ایمان دار بیوپار نہیں دیکھاگیا جو خالص عزت بیچتا ہے جس میں بے ایمانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔نہ تو اللہ کی قسم کھاتی ہے نہ واللہ خیر رازقین کا بورڈ لگاتی ہے ۔نہ کوٹے پر ماشاء اللہ لکھواتی ہے نہ ہی مرد کے سامنے لیٹنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتی ہے ۔ نہ تو ثواب کمانے کا ڈھونگ رچاتی ہے نہ بچوں اوربھوک کا واسطہ دے کر خیرات لیتی ہے اورنہ ہی ثواب دارین حاصل کرنے کا نعرہ لگا کر چندہ اکٹھاکرتی ہے ۔
ْمولوی کی منطق کے تناظر میں اگر دیکھاجائے تو عین حلال رز ق کماتی ہے رنڈی اور بقول مُلا جس پر اللہ مہربان ہوتا ہے وہی حلال رزق کماسکتا ہے۔منٹو پر فحش نگاری کا ٹھپہ ایسا تھاجس کی آج تک کوئی تعریف ممکن نہیں ہوئی جیسا کہ پاکستان میں قومی مفاد نامی اصطلاح جس کی آج تک کوئی تعریف ممکن نہیں ہوسکی ۔ جیسا کہ ہمیں آج تک یہ نہیں بتایاگیا کہ ریاست اورآئین کی موجودگی کے باوجود مفتیوں اورمولویوں کے فتوؤں کی حیثیت کیا ہے ؟یہاں مخلوط طرز تعلیم پراعتراض کی وجوہات کیا ہیں ؟یہاں عورتوں کے باہر نکلنے اوربغیر برقہ کے نکلنے کے نقصانات کیا ہیں ؟ غیرت کے نام پر قتل کیا ہے؟بچوں اوربچیوں کو سیکس کی تعلیم سے دوررکھنے کی وجوہات کیا ہیں؟
ریاست کے اداروں کی موجودگی میں خارجہ پالیسی پر لمبی لمبی داڑھیوں والے غیر منتخب اورغیر معقول باتیں کرنے والے مولویوں کا اثر ورسوخ کی وجوہات کیا ہیں؟ آبادی پر کنٹرول اورپولیو کے قطرے پلانے پر پابندی کا راز کیا ہے ؟ معاشرے کی بے راہ روی اوربے حسی سماجی ناہموریوں کے سبب ‘کوٹوں پر بیٹھنے والی رنڈیوں کا اصل پس منظر کیا ہے ؟اگریہ معاشرہ کوٹوں پر جانے والے بے غیرت اورشہوانیت سے بھرے لوگ پیدا کرسکتاہے تو اس معاشرے سے رنڈی پیدا کرنے پرحیرانگی کیوں ہوتی ہے؟
جب تک خریدار موجود ہونگے بازار میں مال آتا رہے گا چاہے جس قدر اس پر پابندی ہو۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ منشیات اوراسلحہ کے کاروبار پر بھی پابندی ہے لیکن افغان مہاجرین اورریاست کی پالیسیوں سے اس پروان چڑھتے کاروبار پر تو فحش نگاری پر معترض داڑھی بردار لوگوں کوکوئی اعتراض نہیں بلکہ ان کے مدارس ان اسلحہ کے ذخیروں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن انہیں منٹو جیسا کمزورجسم کا شخص فحش نگار نظر آتاہے منٹو نے دھکتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا۔اس افسانوں سے معاشرے کا گند ایسا باہر آرہاتھا جیسا کہ بند گٹر شہر بھر کی گندیوں کو سڑکوں پر آشکار کرتا ہے بلکہ یہ گند تو گٹر کے گند سے بھی زیادہ بدبودار ہے جس کو منٹو نے اپنے الفاظ سے سامنے لایا ۔وہ ان رنڈیوں کے احساسات سے معاشرے کو آگاہ کرنا چاہا کہ یہ انسانوں کو وہ طبقہ ہے جو پیار کرنا جانتا ہے ،وفا کرنا جانتا ہے ،احساس کرنا جانتاہے ،دلیر ہے اور مضبوط ہے۔
درحقیقت اس بات سے جنت کے رکھوالوں کو چڑھ تھی کہ یہ طبقہ جو مہا برائیوں میں غرق ہے وہ کیسے پیارکرنے والا وفادار ،حساس اوردلیر ہوسکتاہے ۔اگر منٹو ان معنوں میں فحش نگار تھے تو آج مجھے مولانا طارق جمیل میں سب سے بڑا فحش نگار نظر آتاہے ۔فرق یہ ہے کہ منٹو رنڈیوں کی رانوں گالوں ‘ٹمکو اور رقص کا ذکر کرکے ان کی حالت زار بیان کرنا چاہتاتھا ۔ان کو معاشرے کا دھتکارے لوگ ظاہر کرتا تھا جس سے جنسی جذبات ابھارنے کی بجائے احساس اجاگر ہوتا لیکن طارق جمیل تو مکاری اورعیاری سے حوروں کی بات کرکے فحاشی پھیلا رہاہے ،حوروں کی رانوں اورپستانوں کے درمیانی فاصلوں کو انچ اورگزوں سے ناپنے کا ذکر کرتا ہے ۔لوگ سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ کر مزے لیتے ہیں ۔
یقین جانیے طارق جمیل کے سامعین کی وضوبھی بار بار ضعیف ہوتی ہوگی ۔طارق جمیل کے بیان سے تو بس حور ہی حور جڑ تے ہیں ۔وہ ان حوروں کی بے بسی کا ذکر نہیں کررہاہوتا بلکہ ان کو مومن کے انعام کے طورپر پیش کرتا ہے ۔اب انعام کے طورپر حوروں کی حوالگی کو کیا نام دیاجائے ۔یہ میں پڑھنے والوں پر چھوڑتاہوں ۔
آج جی بھرکے منٹو یاد آیا ۔