پاکستان میں اقلیتوں کی بہتری کے دعوے سرکاری ایوانوں سے وقتاً فوقتاً سنائی دیتے رہتے ہیں۔ ہر سال 11 اگست کو قائد اعظم کی اقلیتوں کے حقوق کی حمایت میں کی جانے والی ایک تقریر کی یاد میں اقلیتوں کا قومی دن بھی منایا جاتا ہے،اقلیتی نمائندوں کی ایک مناسب تعداد منتخب ایوانوں میں بھی موجود ہے تقریباً ہر بڑی سیاسی پارٹی نے اپنا اقلیتی ونگ بھی بنا رکھا ہے،۔
کرسمس، دیوالی یا اقلیتوں کے دیگر تہواروں پر سرکاری اور سیاسی لیڈرز اقلیتی شہریوں سے اظہار یک جہتی بھی کرتے نظرآ تے ہیں لیکن اس سب کے باوجود پاکستان میں اقلیتوں کی حالت بہت خراب ہے۔ اور صورتحال ٹھیک ہونے کی بجائے دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق سال 2015ء کے دوران ایک ہزار سے زائد اقلیتی خواتین کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کی کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ سندھ میں ہندووں کی لڑکیوں کو اغوا کرکے زبردستی مسلمان کر لیا جاتا ہے اور پاکستان کی عدالتیں بھی ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔پاکستانی ریاست کے بلندو بانگ دعووں کے باوجود ہندو میرج لا نہیں بنایا جا سکا جس کے تحت ہندووں کی شادی کی رجسٹریشن ہو سکے۔
پاکستان میں پچھلے کئی برسوں سے مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے اقلیتی آبادی کے بارے میں حتمی اعداد وشمار تو دستیاب نہیں ہیں اور اقلیتوں کے حامی اور مخالف حلقے اپنے اپنے اعداد وشمار لیے ہوئے ہیں، لیکن عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان کی کم از کم پانچ فیصد آبادی اقلیتوں پر مشتمل ہے جس میں مسیحی، ہندو، پارسی، احمدی، بہائی اور سکھ وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان کی مسیحی برادری ملک کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہے۔
کیا گزرے سال یعنی 2015ء میں پاکستان میں اقلیتوں کے مسائل کے حل کی طرف کوئی مؤثر پیش رفت ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں کئی تجزیہ نگار مثبت رائے کا اظہار کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کے جوائنٹ ڈائریکٹرحسین نقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گزرا ہوا سال بھی اقلیتوں کے مسائل کے حل کے حوالے سے پچھلے سالوں سے مختلف نہیں تھا۔
ان کے بقول اعداد وشمار سے ہٹ کر بھی اگر بات کی جائے تو کئی اقلیتوں کے مقدس مقامات دہشت گردی کا نشانہ بنے، اشتعال انگیز لٹریچر کی تیاری اور نفرت پر مبنی تقریریں بھی مکمل طور پر ختم نہ کی جا سکیں۔ اقلیتوں کو امتیازی سلوک اور امتیازی قوانین کا سامنا کرنا پڑا: ’’اس صورت حال کی بہتری کے لیے سول سوسائٹی اور پاکستان کی حزب اختلاف کے طرف سے آواز اٹھائی گئی اور حکومت نے چند ایک اقدامات بھی کیے لیکن وہ ناکافی تھے۔
اس کے علاوہ نصابی کتب میں دوسرے مذاہب کو کمتر ثابت کیا جاتا ہے۔دینی مدارس میں جو تعلیم دی جارہی ہے وہ دوسروں سے نفرت پر مبنی ہے۔ذاتی جھگڑوں کو توہین مذہب قرار دے دیا جاتا ہے۔ریاست صرف زبانی جمع خرچ کرتی ہے۔ آسیہ بی بی بدستور جیل کی سلاخوں کے پیچھےہےاور مستقبل قریب میں اس کی رہائی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔مسیحوں کی آبادیوں کو نذرآتش کردیا جاتا ہے اور مجرموں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی۔
پاکستان کرسچین نیشل پارٹی کے چیئرمین جوزف فرانسس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کی مسیحی آبادی 2015ء میں بھی شدید مشکلات کا شکار رہی۔ اس سال سیاسی پناہ کے حصول کے لیے پاکستان چھوڑ کر بنکاک پہنچنے والے مسیحیوں کی بڑی تعداد اب بھی وہاں شدید پریشانیوں کا شکار ہے، کچھ لوگ جیلوں میں ہیں، کچھ کو فاقوں اور بیماری کا سامنا ہے، اب انہیں دیار غیر میں کوئی اپنانے کو تیار ہے اور نہ ہی پاکستانی حکومت ان لوگوں کی پاسپورٹ کی تصدیق کرنے پر آمادہ ہے۔
ان میں سے متعدد افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں: ’’میں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نام ایک خط لکھ کر انسانی ہمدردی کے نام پر ان سے اپیل کی ہے کہ ان بے سہارا مسیحی لوگوں کی مدد کی جائے۔‘‘
ان کے بقول پاکستان میں مسیحی برادری کو صحت، تعلیم اور روزگار کے حوالے سے بھی مسائل درپیش ہیں۔ سرکار کی طرف سے اقلیتوں کو ملازمت دینے کے لیے مقرر کیے جانے والے پانچ فیصد کوٹے پر بھی عمل نہیں ہو رہا۔ اسی سال 1000 سے زائد اقلیتی خواتین کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کی کوششیں بھی دیکھنے میں آئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اقلیتی خواتین کی بڑی تعداد کو کام کی جگہ پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کیا ان مسائل کے حل کے لیے اقلیتی ارکان اسمبلی اپنا کردار ادا نہیں کرتے؟ اس سوال کے جواب میں جوزف فرانسس کہتے ہیں، ’’یہ ارکان اقلیتوں کی نہیں بلکہ اپنی سیاسی پارٹیوں کی پالیسیوں کی بات کرتے ہیں۔ عام طور پر پارلیمنٹ میں اقلیتی ارکان کی بھرپور شرکت کی حوصلہ افزائی دیکھنے میں نہیں آتی۔ ان کے بقول 2015ء میں سانحہ یوحنا آباد کے حوالے سے گرفتار کیے جانے والے مسیحی لوگوں کو بھی بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
امن اور رواداری کے لیے کام کرنے والے ایک نوجوان مسیحی رہنما سامسن سلامت کو دکھ ہے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دوران پنجاب اور سندھ میں اقلیتوں کو اپنے نمائندے براہ راست منتخب کرنے کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ پاکستان میں اقلیتیں اپنے نمائندے منتخب نہیں کرتیں بلکہ سیاسی جماعتیں اپنے من پسند افراد کو اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر نامزد کر دیتی ہیں اور اس طرح یہ افراد اقلیتوں کی بجائے سیاسی پارٹیوں کی خوشنودی میں ہی لگے رہتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے ایک رکن اور پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلٰی ڈاکٹر رمیش کمار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہندو کمیونٹی کو مذہب کی جبری تبدیلی، اغوا برائے تاوان اور تشدد جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ ان کے بقول اب تک چار ہزار سے زائد ہندو پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔
’پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی‘ کے سابق سربراہ اور سکھ رہنما سردار بشن سنگھ نے بتایا کہ پچھلے سال سکھوں کو پاکستان میں کوئی بڑے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا: ’’ہمیں انہی مسائل کا سامنا رہا جو مسائل عام پاکستانیوں کو درپیش تھے۔ بلکہ دہشت گردی کے حوالے سے تو پچھلے سال کچھ بہتری ہی دیکھنے میں آئی۔‘‘
◊