خالد تھتھال
ناروے میں پچھلی چند دہائیوں میں صومالیہ کی مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ناروے آئی۔ گو ہر کوئی سیاسی پناہ لیتے وقت جان کے خطرے کے علاوہ سیاسی وجوہات کو ذکر بھی کیا جاتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ان میں کوئی بھی سیاسی وجوہات کی وجہ سے مغربی ممالک نہیں آتا ۔ یہ سیاسی پناہ گزین نہیں بلکہ معاشی پناہ گزین ہوتے ہیں جو ایک بہتر معاشی مستقبل کی خاطر مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔
ناروے میں جب کسی کو پناہ ملتی ہے تو حکومت اسے رہنے کیلئے مکان، فرنیچر، کپڑے دھونے کی مشین، برتن دھونے کے مشین، دیگر تمام ضروریات کی اشیا کے علاوہ ایک معقول رقم ماہانہ فراہم کرتی ہے۔ پناہ حاصل کرنے والے کے بیوی بچوں کو بھی ملک لانے میں حکومت معاشی مدد فراہم کرتی ہے۔ اس کے بعد نارویج سکھانے کیلئے مفت کلاسیں ہوتی ہیں۔ تاکہ یہ لوگ بعد میں کام حاصل کرنے کے قابل ہو سکیں۔
ناروے میں طلاق ایک دم سے نہیں ہوتی۔ شادی ایک اہم ادارہ ہے۔ اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ لہذا فریقین میں سے اگر کوئی ایک طلاق چاہتا ہے تو وہ ایک فارم پُر کر کے متعلقہ محکمے کو بھیج دیتا ہے۔ اور گھر چھوڑ دیتا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد ایک کاؤنسلر میاں بیوی کو بلاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی آپس میں صلح کی کوئی بن پائے۔ ناکامی کی صورت میں دو سال کا انتظار ہوتا ہے۔
دو سال کے بعد طلاق کو جاری کرنے سے پہلے ایک بار پھر کوشش ہوتی ہے کہ آپس میں معاملات طے ہو جائیں اور شادی نہ ٹوٹے۔ لیکن اگر طلاق کا خواہشمند کہتا ہے کہ وہ ابھی بھی طلاق چاہتا ہے تو طلاق ہو جاتی ہے۔ ایک اہم بات، فریقین اس دوران ایک دوسرے سے جنسی تعلق قائم نہیں کر سکتے۔
اگر دونوں فریقین طلاق چاہتے ہوں تو دونوں ایک فارم پر دستخط کر کے بھیج دیتے ہیں اور کونسلنگ وغیرہ ہوتی ہے لیکن اس بار طلاق ایک سال میں ہو جاتی ہے۔ کیونکہ دونوں فریقین اس کے خواہشمند ہیں۔
ایکدم سے بھی طلاق ہو سکتی ہے، بشرطیکہ فریقین میں کوئی ایک بے وفائی کا مرتکب پایا جائے، یا تشدد کا واقعہ ہو اور بعد میں بھی اسے دوہرائے جانے کا خدشہ ہو۔
میرے ایک صومالین دوست کے مطابق ان کی کمیونٹی میں جعلی طلاقیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ جعلی طلاق سے مراد ریاست کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ آپ باقاعدہ میاں بیوی ہوتے ہیں لیکن ریاستی محکمے میں ایک ایک فریق طلاق کی درخواست بھیج دیتا ہے۔ دن کو مرد گھر سے غائب رہتا ہے کہ مبادا سرکاری عمال کہیں چیک کرنے نہ آ پہنچیں۔ لیکن رات کو اپنی بیوی کے بستر میں موجود ہوتا ہے۔
اتفاق سے ایسی طلاق والی چند خواتین حاملہ ہو گئیں۔ اور یہ ثابت ہو گیا کہ ان کی طلاق ایک ڈرامہ تھا۔ لہذا اب صومالین کمیونٹی کیلئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
میرا ایک افغانی دوست ٹیکسی چلاتا ہے، کافی صومالین بھی اسی شعبے میں ہیں، میرے افغانی دوست کے بقول وہ ایک سٹینڈ پر کھڑا تھا۔ پیچھے ایک ٹیکسی رکی۔ مسافر نے پیسے دیئے اور اپنے راہ چلا گیا۔ ٹیکسی ڈرائیور صومالین تھا، باہر نکلا اور مسکراتے ہوئے اس مسافر کے متعلق کہتا ہے۔ jævla kafir۔
کافر کا مطلب تو آپ سمجھتے ہوں گے، دوسرے لفظ کا مطلب شیطان ہوتا ہے۔ میرے افغانی دوست کا میٹر گھوم گیا۔ ایک دم کہتا ہے کہ ان شیطان کافروں نے تمہیں اپنے ملک میں پناہ دی۔ تمہیں مکان اور سہولتیں دیں۔ تمہیں اپنی زبان سکھائی، ڈرائیونگ لائسنس سے لے کر ٹیکسی چلانے کا اجازت نامہ دیا۔ تمہاری ٹیکسی کے مسافر نارویجن ہوتے ہیں جو کرائے کے علاوہ تمہیں ٹپ بھی دیتے ہیں، ۔
تصور کرو کہ جسے تم نے شیطان کافر کہا ہے ، اگر وہ تمہاری ٹیکسی میں بیٹھنا بند کر دیں تو کیا ہو گا، تمہارے صومالین بھائیوں کو تو ٹیکسی لینے کی کبھی توفیق نہیں ہوتی۔ یہ کہنے کے بعد میرے دوست نے بقول خود زمین پر اخ تھو کہتے ہوئے تھوکا اور منہ دوسری طرف کر لیا۔
ناروے میں مساجد کو سرکاری گرانٹ ملتی ہے، جس سے امام صاحب کی تنخواہ اور دیگر اخراجات چلتے ہیں، گو کچھ لوگ چندہ بھی دیتے ہیں لیکن مسجد اور اس کے تمام اخراجات سرکاری گرانٹ پر ہی چلتے ہیں۔
عبدی قادر محمد یوسف صاحب کا تعلق صومالیہ سے ہے۔ اور کچھ عشرے پہلے یہ ناروے میں ایک پناہ گزین کے طور پر آئے۔ کافی عرصہ سویڈن کی سرحد سے ملحقہ شہر ہالدن میں صومالی مسلمانوں کی مسجد کے امام تھے۔ آج کل ایک اور شہر کرسچانسن میں امام مسجد کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کی عمر اس وقت 49 سال ہے۔
آج ان کا ایک بیان ناروے کی ہر اخبار میں چھپا ہے۔ ان کے بقول ہمارا اپنا مذہب ہے اور ہمارے مذہبی کتابوں مثلاًقرآن اور حدیث میں سالگرہ کا ذکر نہیں ہے۔ لہذا ہمیں بلا تفریق عمر نہ تو کسی کی سالگرہ میں جانا چاہیئے اور نہ ہی کسی کو سالگرہ کی مبارکباد دیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ایسا نہ کرو اور ایسا کرنا منع ہے لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔
امام صاحب کے بقول کسی کو کرسمس کی مبارکباد دینا بھی مذہب کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ دوسرے ان کے متعلق کیا سوچتے ہیں ۔ ان کا مزید یہ کہنا ہے کہ وہ کسی خاتون سے ہاتھ نہیں ملاتے لیکن اگر کوئی دوسرا ایسا کرے تو وہ اس کا مسئلہ ہے وہ اسے دائرہ اسلام سے خارج نہیں سمجھیں گے۔
♣