محمد شعیب عادل
بھارتی وزیراعظم مودی کے اچانک دورہ لاہور کا ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں، پیپلز پارٹی، نواز لیگ، اے این پی اور پاکستان تحریک انصاف نے خیر مقدم کیا ہے جبکہ ایسٹیبشلمنٹ اور اس کے پروردہ گروہ، دانشور اور کالم نگار سخت سیخ پا ہیں۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے تو ہنگامی طور پر اسی روز حزب المجاہدین کے بینر تلے فوری طور پر احتجاج کراکے اپنا فرض ادا کر دیا جبکہ مزید احتجاج مختلف کالم نگار وں کی آراء کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ جیو و جنگ کے صحافی حامد میر اور سلیم صافی، جنہیں ’’اعتدال پسند ‘‘ کہا جاتا ہے، نے اپنے کالموں میں اس دورے کو’’ پراسرار‘‘ قراردیا ہے۔
ماضی میں جب بھی کسی بھارتی سربراہ نے پاکستان کا دورہ کیا ہے،ایسٹیبلشمنٹ کے پروردہ گروہ نے ، ہمیشہ نفرت کا اظہار اور لعن طعن ہی کی ہے۔ 1988 میں جب راجیو گاندھی اسلام آباد آئے تو پی ٹی وی اور اخبارات نے دہائی مچا دی کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت نے کشمیر کا سودا کر لیا ہے ۔ جھوٹے پراپیگنڈہ کا ایک طوفان تھا جس کے آگے بے نظیر حکومت ٹھہر نہ سکی۔ یہی حال نوازشریف کے ساتھ کیا گیا جب بی جے پی حکومت کے سربراہ اٹل بہاری واجپائی بس ڈپلومیسی کے تحت لاہور آئے تھے۔ یہ ایک انتہائی تاریخی نوعیت کا دورہ تھا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہو نے کی امید ہو چلی تھی مگر کارگل پر حملے نے تمام کیے کرائے پر پانی ڈال دیا۔
ستمبر 2008 میں آصف علی زرداری نے صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی بھارت کی طرف خیر سگالی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور ایوان صدر سے ٹیلی کانفرنس کے ذریعے بھارت کے دانشوروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر پاکستانی کے دل میں ایک چھوٹا سا ہندوستان بستا ہے اور پاکستان کبھی بھی فرسٹ سٹرائیک ( حملہ ) نہیں کرے گا۔لیکن ابھی ا ن الفاظ کی بازگشت ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ کی طرف سے 26 نومبر2008 کوممبئی پر دھاوا بول دیا گیا۔ایک بار پھر تمام مصالحتی کوششیں ناکام ہو گئیں۔
اب وزیر اعظم نریندر مودی کے اچانک دورہ لاہور کو اعتدال پسند کالم نگاروں نے’’ پراسرار‘‘کہہ کر اسے متنازعہ بنانے کی پوری کوشش کی ہے۔پاکستانی قوم کا المیہ ہے کہ جب بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کسی بہتری کی طرف رواں ہوتے ہیں تو ایسٹیبشلمنٹ اپنے پروردہ کالم نگاروں اور صحافیوں کے ذریعے متنازعہ بنانا شروع کر دیتی ہے۔ کچھ ماہ پہلے جب نواز اور مودی کے درمیان روس کے شہر اوفا میں ملاقات ہوئی تھی تو پاکستانی میڈیا میں انہی لوگوں نے طوفان بدتمیزی برپا کر دیا تھااور اسے پاکستان کی سا لمیت یا کشمیر کا سودا قرار دے دیا تھا۔
پاکستان کی سالمیت یا کشمیر کا سودا ایسی اصطلاحات ہیں جس کے پردے میں پچھلے اڑسٹھ سالوں سے عوام کا استحصال جاری ہے اور اس کی آڑ میں ریاست نے تمام وسائل آتشیں ہتھیاروں کے حصول پر ضائع کردیے ہیں۔تعلیم و صحت ریاست کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ ریاست ایک طرف شدید توانائی کے بحران سے دوچار ہے تو دوسری طرف دہشت گردوں کو پال پوس رہی ہے جو اس خطے میں مسلسل بدامنی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
ان کالم نگاروں کو کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم تو یاد ہیں مگر بنگالیوں کا قتل عام کسی کو یاد نہیں۔ افغانستان میں جہاد کے نام پر پختونوں کی ایک نسل کو ختم کردیا اور اب بلوچستان میں فوج جو ظلم ڈھا رہی وہ ان کو یاد نہیں۔ آپریشن ضرب عضب پر 190 بلین روپے خرچ ہور ہے ہیں جبکہ لشکر طیبہ،لشکر جھنگوی کی قیادت اور ملُا عزیز جیسے دہشت گرد ملک میں دندناتے پھر رہے۔ ریاست نے دنیا کودکھانے کے لیے ان پر پابندی لگا رکھی ہے مگر کوئی ان کی سرگرمیوں پر بات کرنے کو تیار نہیں۔
پاک فوج مُلک کے متعلق کوئی فیصلہ ( حالانکہ پاک فوج کو یہ اختیار نہیں ) کر لے تو یہ حب الوطنی کہلاتی ہے اور سیاسی رہنماکچھ کریں تو اسے ملکی سالمیت کا سودا قرار دے دیتے ہیں۔اگر کوئی سیاست دان یا لکھاری فوج کے اختیار کو چیلنج کرے تو اس کی حب الوطنی مشکوک ہو جاتی ہے۔اور اسے سیکیورٹی رسک قرار دے دیا جاتا ہے۔سیاست دانوں کی کرپشن یا ان کی کمزوریوں کی کہانیاں تو سنائی جاتی ہیں مگر پاک فوج کے لیے سات خون بھی معاف ہیں۔
ریاست اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے ہمسایوں پر الزامات لگاتی ہے لیکن جب اس کی تفصیل پوچھی جاتی ہے تو وہ جھوٹ نکلتا ہے۔ 20 نومبر کو پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے جب مشیر خارجہ (جزوقتی وزیر خارجہ) سے بھارتی مداخلت کی وضاحت طلب کی تو انہوں نے بتایا کہ بھارت کی مداخلت کے جو ثبوت اقوام متحدہ کو دیئے گئے ہیں وہ ٹھوس شواہد نہیں تھے۔ اعتدال پسند کالم نگار خاموش رہے۔یہ کالم نگار نواز شریف کو خفیہ مذاکرات کے نام پر مورودد الزام ٹھہرا رہے ہیں مگر کوئی کالم نگار یہ سوال کی جرات نہیں کرتا کہ آرمی چیف امریکہ اور افغانستان میں کیا مذاکرات کرکے آئے ہیں۔
بدھ(29 دسمبر)کے روز سینٹ میں جب مشیر خارجہ سے پوچھا گیا کہ آرمی چیف کے کابل کے دورے کا کیا مقصد تھا توانہوں نے کہا مجھے اس کا علم نہیں لہذا اس دورے کے متعلق وزیر دفاع بتائیں گے اور جب وزیر دفاع سے پوچھا گیا تو انہوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاک فوج کا ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی پر مکمل کنٹرول ہے۔ لیکن ان پالیسیوں کی ناکامی کا ذمہ دار سیاسی رہنماؤں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔
پاکستان کے مقابلے میں بھارت ترقی یافتہ ملک ہے ۔ اس کی معیشت پچھلے کئی سالوں سے سالانہ 7 سے 7.5 فیصد کے حساب سے ترقی کر رہی ہے جس کی بنیادی وجہ ملک کا مستحکم جمہوری نظام ہے۔ جبکہ پاکستان کا سیاسی نظام 68 سال گذرنے کے باوجود ابتدائی سطح پر ہے جس کی وجہ ملٹری ایسٹیبلشمنٹ کی مذہب کے نام پر مہم جوئیاں ہیں۔ جمہوری عمل نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ادارہ تشکیل نہیں پاسکا اور نہ ہی مستقل نوعیت کی کوئی پالیسیاں ترتیب دی جا سکی ہیں جس سے ملک کی معاشی بنیادیں مستحکم ہو سکیں۔
بھارت اس وقت افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک سے تجارت کرنا چاہا رہا ہے اور افغانستان بھی بھارت کے ساتھ تجارت میں دلچسبی رکھتا ہے مگر پاکستان اس میں رکاوٹ ہے یعنی نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے، والا معاملہ ہے۔ پاکستان نہ صرف اپنا نقصان کر رہا ہے بلکہ وہ دوسروں کو بھی ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتا۔عسکریت پسند اس وقت جنوبی ایشیائی خطے کی ترقی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس کی ذمہ دار ملک کی سیاسی قیادت نہیں بلکہ عسکری قیادت ہے۔ سیاسی قیادت ،پاکستان ، افغانستان اور بھارت کے درمیان باہمی تجارت کے معاہدے کرتی ہے مگر ہر دفعہ سیکیورٹی کلئیرنس کے نا م پر ان پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا جاتا۔