سانول رضا
ایک دن ڈاکٹر خلیل صاحب کہنے لگے کہ فیصل ہسپتال کے باہر دھونی رمائے نذیر فیض کے قدموں میں ضلعی سربراہوں سے لیکر جرنیلوں تک کو بیٹھے دیکھا ہے، راز کیا ہے؟
میں نے عرض کیا دوست! اجلے من والے اپنے میلے من کو یہاں پوتر کرنے آتے ہیں۔ ورنہ کیا پڑی تھی کہ امام بشک مزاری سے لیکر جمال خان لغاری تک جیسے گوروں کے خطاب و مراعات یافتہ ، مست توکلی کی زیارت کو یوں ترستے۔..
ترجمہ “بدی کے ہاتھوں اجاڑے جہاں کے لئے ہم ایک جنگ شروع کر رہے ہیں۔ پھر یارو! زباں کھولو! کوئی عہد، کوئی، کوئی حکم، کوئی دعا جو اس جہاں کو بچا لے، بس ایسی بات کہو“. کہنے والا رسول حمزہ ہوں
یا
ترجمہ “امن شاعر کی تکمیل میں ایسے ہی معاون ثابت ہوتا ہے جیسے روٹی بننے میں آٹا“
جیسی سچائیاں بیان کرنے والا نرودا ہوں
یا پھر
ترجمہ” اس کی مرضی ہے وہ اذانیں سنا کے لوٹے یا خطبے سنا کے لوٹے“۔
لٹیروں کی نشاندہی کرنے والا نذیر فیض…….
یہ سارے آپ کی “تہذیب یافتہ” دنیا سے دور کے ہیں.
خوشی محمد ناظر کہتا ہے
ہے شہر میں غل اور شور بہت بستے ہیں نگر میں چور بہت
سچے لوگ چوروں سے دور رہتے ہیں۔ ان کا کام ان کی سچائی خود کو منواتی ہے اور یہی سچائی انہیں منواتی ہے. فاصلے نہیں کام اہم ہے ۔
خواجہ فرید ہوں یا سرور کربلائی. مولوی لطف علی ہوں یا عزیز شاہد سب نے “مرکز” سے دور رہ کر اپنی فکر کا لوہا منوایا ہے۔.
بھارت سے پاکستان اور کوٹلہ شیر محمد سے نذیر فیض کا ظہور ایک ہی سال میں ہوا۔ فیض کہتا ہے ہم دونوں کا ایک ہی حال ہے۔ بدیسی دواؤں پہ زندہ ہیں۔
اپنے روایت شکن اور سچائیوں کے سفر کی داستان سناتے ہوئے کہتے ہیں ۔ ماں کی جھولی کے بعد میرے اندر شاعری اور انسان دوستی کا جذبہ استاد محترم عطا محمد شاہ صاحب کی صحبت و تربیت سے اجاگر ہوئی۔ اس کے بعد صوفی تاج گوپانگ اور کریم نواز منصف کورائی کی دوستی نے مجھے استقلال بخشا۔
سنہ 1982 میں وقت کے آمر کے بارے میں میرا کہا سچ ہوا۔
“سزا نہ ہووے قضا دی صورت۔ قضا توں کجھ تاں ودیکھ ہووے.۔پدھر تے رلے میت ہیندی. نہ کفن ٹاکی شھریک ہووے“۔
ترجمہ. “اس کی سزا موت کی صورت نہ ہو. بلکہ موت سے زیادہ کچھ اور ہو. کھلے میدانوں میں اسکی میت رلتی رہے. بغیر کفن سڑتی رہے.”
انسان کے مستقبل قریب سے مایوس نذیر فیض کہتا ہے کہ سرمائے کی پوجا نے انسانیت کو دوزخ میں دھکیل دیا ہے۔ اس اندھیرے سے روشنی پھوٹے گی بہت خنام کے بعد۔
پاکستان کو کہاں دیکھتے ہیں۔
تین لفظوں میں سارا مطالعہ پاکستان ادھیڑ کے رکھ دیا.
“پاکستان ہووے تاں
میرے نزدیک ملک کی سادہ سی تعریف ہے جو عام آدمی کی سوچ پہ پورا اترے“
فیض احمد فیض اور نذیر فیض میں ایک بات یہ بھی مشترک ہے کہ آپ دونوں کسی کا راستہ نہیں روکتے۔ اچھے کلام کی نہ صرف داد دیتے ہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔
فرمایا
میں تخلیق میں توحید کا قائل نہیں ہوں۔ خالق کی ہر تخلیق خالقیت کا ہر روپ احسن ہوتا ہے۔ ایک خالق جب دوسرے کا راستہ روکتا ہے وہ دراصل اپنی تخلیق پہ شک کررہا ہوتا ہے۔ دوسروں سے ڈرنے والا کسی کا راستہ روکنے والا تخلیق کار کہلانے کا حق نہیں رکھتا۔.
اپنی بات کو ریاستی جبر کی طرف موڑتے ہوئے کہا جب مارشل لا میں ہیلمٹ کی پابندی لگی تو میں للکارا.
“پگ لہے سوں ہیلمٹ پے سوں. سڑکیں ٹرسوں مول نہ مرسوں. انت سرکار توں پچھنڑا کیتم. او وت کینجھیاں ٹوپیاں پاون. او وت کینجھے ویس وٹاون. جھیڑے مردن دارو ہوٹے. جھیڑے مردن بکھ پساویں.”
فراز کے “پیشہ ور قاتلوں” کو میں نے تو “فروخت” کے لئے پیش کر دیا ہے.
کوئی گھندے میڈے پاک فوجی“
ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں:۔
کوئی گِھندے میڈے پاک فوجی، قَسمِ خُدا دی میں سارے وچینداں
میرے نزدیک فیض, فراز بڑے شاعر ہیں. حضرت جوش کا تو ایک ہی بند کافی ہے.
“اے مرد خدا نفس کو اپنے پہچان. انسان یقین ہے اللہ گمان. میری بیعت کے واسطے ہات بڑھا. پڑھ کلمہ لا الا الہ انسان.
منیر نیازی، تنویر سپرا، قربان کلاچی، جہانگیر مخلص، شفقت بزدار ہمارے ہی قبیلے کے محترم نام ہیں.
“سچ کیا ہے“
“جو ہم دیکھ رہے ہیں“
سرائیکی کی عظمت کے لئے صرف دو مثالوں دوں گا۔ اس گہرائی تک شاید کسی دوسری زبان میں نہ ملے۔
سرور کربلائی کا یہ شعر دیکھیے۔
“جانی نزع دے وقت ڈیھا ہے خط حضور دا.
روح اپنٹے کوں بھیج رہیاں میں خط دے جواب ءچ.
خواجہ فرید نے بے قراری جس طرح اس مصرعے میں بیان کیا ہے اسکا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا.
“گل لاون کوں پھتکن بانہیں“
اپنے انسان دوست ہونے پہ فاخر نذیر فیض سرائیکی صوبہ نہ بننے کی وجہ پنجاب کا خوف بتاتا ہے. پنجاب چور ہے چور ڈرتا ہے۔
پنجاب کے ذکر پر تو مچل مچل جاتا ہے میرا قلم۔
لٹیرا نظم سے اقتباس
“نندریاں پائیں کوں بھانویں. نندروں جگا تے لٹے. اوندی تاں مرضی ء . او بانگاں سنڑا کے لٹے. یا خطبے پڑھا کے لٹے. یا مدرسے بنڑا کے لٹے. او تیڈے در تے آ کے لٹے. یا تیکوں سڈا کے لٹے. اوندی تاں مرضیء. او لہور بہہ کے لٹے. یا اتھاں آ تے لٹے. اوندی تاں مرضیء. او اپنڑی میز تے پے ہوئے کہیں کاغز دے اتے اپنڑے قلم دی نب بھنوا تے لٹے…..”
عورت کی عظمت تو مست توکلی سے پوچھیں جب وہ سمو کی فرضی شادی کراتا تو اعلان کرتا کہ کھانا پہلے میری سمو کی رعیت میں تقسیم ہو گا. باقی کھانا مردوں کو ملے گا.
عورت کے حقوق پر موٹی ہوتی مخلوق کیا معلوم.
میری اس نظم کو دیکھیے.
اپنی بیٹی کو قتل کرنے والے باپ بیٹی کا مکالمہ ملاحظہ کریں.
“ابا خوف خدا تو ڈریں. ناں کاوڑ توں میڈی گالھ تے کریں. پر تاں پیڑے پتر وی تیڈے. ایہو جیہاں ھک جرم کیتا ہا. پرلی وستی پکڑیج کھڑا ہا. اونجدے سانگے در در پگوں رولیاں ہانیں. چٹی دے وچ دو سوہنڑیاں دھیریں گھولیاں ہانیں. اوندے توں ساہ چا واریا ہاوی. اونکوں کیوں نہ ماریا ہاوی.”
ترجمہ.
ابا خوف خدا سے ڈر. میری بات پہ غصہ نہ کر. پچھلے سال تیرے پیڑے بیٹے نے بھی یہی جرم کیا. قریبی بستی میں پکڑا گیا. اسکی بخشش کے تو در در اپنی پگڑی لئے منتیں ترلے کرتا رہا. اور دو حسین بیٹیاں جرمانے میں دیں. بیٹے کو بچانے کے لئے سب وار دیا. اسکو کو تو نے کیوں نہ مار دیا.”
Pingback: وہ جزیرہ جو دریافت نہ ہو سکا – Niazamana