ذوالفقار علی زلفی
سنہ 2011 کا قصہ ہے بالی وڈ نے ایک فلم پیش کی “No one killed jessica” ،مذکورہ فلم میں ودیابالن کی بہن جیسیکا بڑے باپ کے لاڈلے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوجاتی ہے ، مقدمہ سالوں تک عدالت کے روبرو پیش ہوتا رہتا ہے بالآخر ایک دن عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ جیسیکا کو کسی نے قتل نہیں کیا….
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بھی گزشتہ دنوں کچھ ایسا ہی فیصلہ اتنے ہی سالوں بعد سنایا….اکتوبر 2009 کا مقدمہ جنوری 2016 میں اس نتیجے کے ساتھ داخل دفتر ہوا کہ نواب اکبر بگٹی دراصل قتل ہی نہیں ہوئے….
کوئٹہ کی عدالت کے جج جناب جان محمد گوہر نے اپنے مختصر فیصلے میں پاکسانی فوج کے مُکّہ دکھانے والے سابق سربراہ جنرل پرویز مشرف ،ان کی “جمہوری” حکومت کے وفاقی و صوبائی وزرائے داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور شعیب نوشیروانی کو باعزت بری کردیا…..
نواب اکبر بگٹی کی زندگی میں پرویز مشرف ان کو قتل کی دھمکیاں دیتے رہے….معروف صحافی حامد میر کے مقبول پروگرام کیپیٹل ٹاک میں جنرل مشرف نے ببانگ دہل فرمایا “ان کو ایسی جگہ سے ہٹ کیا جائیگا کہ ان کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کس چیز نے ہٹ کیا ہے“….اس کے بعد کے تمام واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔
چھبیس اگست 2006 کی شام کو جب اکبر بگٹی کی شہادت کی خبر کو مخدوم امین فہیم اور “باخبر” صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود مختلف ٹی وی چینلوں پر کنفرم کررہے تھے تو اسی دوران یہ خبر بھی گرم تھی کہ پرویز مشرف نے وردی پوش ٹارگٹ کلرز کو کامیاب آپریشن پر مبارکباد کے پیغامات ارسال کیے البتہ شدید عوامی و سیاسی ردعمل کے بعد یہ خبریں “آزاد” میڈیا نے غائب کردیں۔
نواب اکبر بگٹی کی سیاست اور موقف سے ہزار اختلاف کیے جاسکتے ہیں مگر یہ ایک بین حقیقت ہے وہ زندگی کے آخری ایام تک مذاکرات پر آمادہ تھے….وہ اسلام آباد اور بلوچ کے درمیان موجود مخاصمانہ تضادات کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کے خواہشمند تھے گوکہ ان کے گھر پر حملہ کیا جاچکا تھا جس کے نتیجے میں سترہ افراد شہید ہوئے اور خود وہ اس حملے میں بال بال بچے تھے مگر پھر بھی انہوں نے چوہدری شجاعت کی سربراہی میں قائم کمیٹی کے اراکین سے مذاکرات سے انکار نہ کیا۔دوسری جانب پاکستان بھر کے اخبارات اور ٹی وی چینلز مسلسل ان کی کردار کشی کرتے رہے اور ان کو ایک وحشی درندہ ثابت کرنے کی کوششوں میں سمندر ناپتے رہے۔
نواب بگٹی کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا کہ وہ بلوچ اساطیری کردار بالاچ گورگیج کی سنت پر عمل پیرا ہوکر پاکستانی فوج کے غرور اور جارحیت کا مقابلہ کریں۔
پاکستانی فوج ایک عرصے سے ان کے قتل کی کوششیں کررہی تھی ، ان کے گھر پر حملہ کیا گیا جب وہ پہاڑوں پر تشریف لے گئے تو ایک بار پھر ان پر ٹارگٹڈ حملہ کیا گیا مگر وہ بچ گئے تیسرے حملے میں وہ خوش قسمت ثابت نہ ہوسکے۔
قتل کے بعد ان کی جسد خاکی بھی غائب کردیا گیا اور توہین آمیز انداز اختیار کرکے ایک تابوت کو تالا لگا کر دفنادیا گیا۔
بلوچ چلاتے رہے , لواحقین درخواستیں کرتے رہے مگر نتیجہ مقتول پروفیسر صبا دشتیاری کی پیشن گوئی کے عین مطابق برآمد ہوا کہ “پاکستان میں جمہوری راستہ وہ اختیار کرے جس کی ہتھیلی پر بال اگتے ہوں ، جمیل اکبر بگٹی کی ہتھیلی پر بال نہیں ہیں جلد ان کے ہاتھ جل جائیں گے“۔
گوکہ جمیل اکبر بگٹی بضد ہیں کہ وہ اس فیصلے کو پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے مگر وہ شاید اس بلوچی ضرب المثل کو بھول رہے ہیں “اے دراھیں یکے پات ءِ ناہ انت” یعنی سب ایک ہی تھیلے کے کھجور ہیں یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک ٹکڑا گلا سڑا ہو اور دوسرا بہترین…..وہ اپنا شوق پورا کریں اور رہی سہی زندگی عدالتوں کے راستے ناپنے میں گزارتے رہیں لیکن بلوچ قوم جان چکی ہے کہ :
No one Killed Akbar Bugti