اکیڈیمی آسکرؔ فلم ایوارڈ اور نسل پرستی ؟

منیر سامیؔ
1e5be397-fa7b-45cb-9d56-f3b6e50a76bd

پاکستان کے ایک شاعر کا ایک مصرعہ آج بہت شدت سے یاد آیا، جو ذراسی تحریف کے ساتھ یوں ہے، ’سیاہ فاموں کے سر کے اوپر سفید ہاتھوں کی برتری ہے‘۔ اس کی وجہہ نسل پرستی کا وہ تنازعہ ہے جو اس سال کے اکیڈیمی فلم ایوارڈوں کی نامزدگی کے وقت دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس بار بھی گزشتہ سال کی طرح اکیڈیمی آسکرؔ انعاموں کی بیس اہم شقوں میں ایک بھی سیاہ فام اداکار یا اداکارہ نامزد نہیں کیے گئے ہیں۔

اس سال امریکہ کے عالمی شہرت یافتہ ہدایت کار ’اسپایئک لیؔ‘ (Spike Lee) نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس دفعہ ان انعامات کی تقریبات میں شرکت نہیں کریں گے۔ اسی طرح عالمی شہرت یافتہ دستاویزی فلم ساز اور ہدایت کار ’مایئکل مُور ‘ (Michael Moore) نے بھی ان تقریبات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ اور سوشل میڈیا پر اس ضمنی میں مباحث چل پڑیں ہیں۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اسپائک لی ؔ دنیا کے ان اہم فلمسازوں اور شمار میں کیا جاتا ہے جن کو ’فلم اکیڈیمی‘ نے خصوصی اعزازی ایوارڈ پیش کیے ہیں۔

اس بار کے اکیڈیمی انعامات کا تنازعہ یوں بھی اہم ہوگیا ہے کہ امریکہ کے بدنامِ زمانہ صدارتی امیدوار ’ڈونلڈ ٹرمپؔ‘ مسلمانوں ، ہسپانیوں، اور دیگر اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز نسل پرستانہ بیان دے کر امریکہ کے قدامت نسل پرستوں میں مقبولیت حاصل کرتے جارہے ہیں۔ یہ تمام قضیے یوں بھی اہم بن جاتے ہیں کہ گزشتہ سالوں میں کئی امریکی سیاہ فاموں کو بلا وجہ اور بلا اشتعال پولس کے ہاتھوں ہلاک ہونے ، اور اس پر پولس کی کئی سرزنش نہ ہونے پر امریکہ اور دنیا میں بے اطمینانی ، بے چینی عام ہے۔ اسی طرح امریکہ کی تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدر ’اوبامہ ‘ کے خلاف بھی مغلظات اور بہتان تراشی بہت عام ہے۔

اکیڈیمی انعاموں کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ان انعامات کے انعقاد سے اب تک، یعنی کم از کم پینٹھ سال کے عرصہ میں انعامات جیتنے والوں میں سفید فاموں کا تناسب اس طرح رہا ہے:

بہترین اداکار؛٩٩ فی صد، بہترین اداکارہ؛ ٩٩ فی صد، ۔۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ دس سال میں اداکاری کے انعام جیتنے والوں میں کوئی بھی لاطینی امریکی، ایشیائی، یا امریکہ کے اولین باشندوں میں سے شامل نہیں ہے۔

یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ شمالی امریکہ میں جب بھی اس قسم کے تعصبات کے سوال اٹھائے جاتے ہیں، فوراً ہی عمل پرستوں پر ’ریس کارڈ ‘ کے استعمال کی تہمت لگ جاتی ہے۔ عمل پرستوں پر اس بہتان طرازی کے باجود ہم پر لازم ہے کہ ہم ’اکیڈمی انعامات ‘ کے نظام اور طریقہ کو سمجھیں ۔ ’اکیڈیمی ‘ مخفف ہے ، ’’اکیڈیمی فَور مَوشَ پِکچرز آرٹس اَینڈ سایئنسز ‘ Academy for Motion Pictures Arts and Sciences نامی انجمن کا جس کے اراکین ایک خفیہ ووٹنگ کے ذریعہ ہر سال فلم کی دنیا کے بہترین لوگو ں کو ایوارڈوں کے لیئے نامزد کرتے ہیں، اور پھر آپس میں ایک اور رائے شماری کے ذریعہ بہترین افراد کو ان کے فن اور خدمات کے اعتراف کے لیئے منتخب کرتے ہیں۔

مبصرین کی رائے میں بنیادی خرابی اس انجمن میں اراکین کے تناسب کی ہے۔ امریکہ میں فلمی صنعت سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اس کی رکنیت کا مستحق ہے۔ تا دمِ تحریر اس انجمن کے 94 فی صد اراکین سفید فام اور 76 فی صد مرد ہیں۔ اس صورتِ حال میں نہ چاہنے کے باجود معاملہ ’ اندھا بانٹے ریوڑی، ڈھونڈھ ڈھونڈ اپنوں کو دے ‘ والا بن جاتا ہے۔

اس سال یعنی 2016 ِکے اکیڈیمی انعامات سے، جنہیں عام طور پر آسکر ؔ کہا جاتاہے، بعض اہم شخصیات کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد ، اکیڈیمی کی صدر ’چیرِل بُون آئیزاکس‘ Cheryl Boone Issacs نے ایک بیان میں اس انجمن کے اراکین میں نسلی تنوع کے فقدان کا اعتراف کیا ہے ، اور کہا ہے کہ وہ گزشتہ چار سال سے اس مسئلہ کو حل کرنے اور تنوع میں اضافہ کی کوششیں کر رہی ہیں، لیکن یہ عمل بہت سست رفتار ہے، اور وہ اس صورتِ حال سے بہت دل شکستہ اور مایوس ہیں، لیکن وہ اس ضمن میں اپنی کوشش جاری رکھیں گی۔

سنہ 1950سے اب تک جن غیر سفید لوگوں کو بہترین اداکارکے لیئے اکیڈیمی ایوارڈ دیئے گئے ہیں ان کے نام یہ ہیں، جوزے فَیرر، سِڈنی پوئےٹیر، بین کنگزلی(گاندھی کا کردار)، ایف مَرے ابراہام، ڈینزِل واشنگٹن، جیمی فوَکس، اور آخری بار سنہ 2006 ِ میں فَوریسٹ وہٹیکر۔ اسی طرح واحد سیاہ فام اداکارہ ہَیلی بَیری کو یہ انعام سنہ 2002میں دیا گیا۔ اس سے آپ اس معاملہ کی گمبھیرتا کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔اسی طرح خواتین کو بھی شکایت ہے کہ فلم سازی کی مختلف شاخوں میں بہترین اداکارہ، اور بہترین معاون اداکارہ کی شاخ کے علاوہ دیگر شقوں میں خواتین کا حصہ بہت ہی غیر متناسب ہے۔

فلمی صنعت میں نسلی تعصب کے خلاف عمل پرستوں پر جو لوگ ’ریس کارڈ ‘ استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہیں، انہیں معروضی طور پر غور کرنا چاہیئے کہ ایسا کیوں ہے کہ، ’کنکَشن Concussion نامی فلم کے مشہورِ عالم سیاہ فام اداکار ، وِل اسمِتھؔ Will Smith کو اکیڈیمی نے کیوں نظر ادا کیا جب کہ اسی فلم کے لیئے اسی سال امریکہ اور دنیا کے اہم ترین انعاموں کے لیئے اسے نامزد بھی کیا گیا ہے، اور اس نے ان میں سے اب تک کئی انعام جیت بھی لیئے ہیں۔ اسی طرح بہترین معاون اداکار کی شق میں ممتاز سیاہ فام اداکار ’ ادریس ؔالباؔ‘ کی غیر موجودگی پر شائقین میں غمزدگی ہے۔ اسے بھی اسی سال فلمی صنعت کے دیگر اہم انعامات کی نامزدگی ملی، لیکن اسے ’آسکر ‘ کے لیئے نظر انداز کر دیا گیا۔

دنیا کے باضمیر انسانوں ، بالخصوص شمالی امریکہ اور مغرب میں بسنے والے جنوبی ایشیایئوں اور پاکستانیوں کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ وہ بھی ان معاشروں میں اور خود اپنے معاشروں میں نسل پرستی کے عفریت کے نشانوں میں شامل ہیں،ا ور وہ وقتاً فوقتاً انہیں شکار کرتا ہے۔ جس کی حالیہ مثال امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ننگی نسل پرستی ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ امریکہ میں سیاہ فاموں نے اپنے خلاف سالہا سال کے نسل پرستانہ رویوں اور مظالم کے بعد ایک طویل جدو جہد کے ذریعہ کچھ حقوق حاصل کیے ہیں۔ یہ ان ہی کی جدو جہد کا پھل ہے جس کا فائدہ اب امریکہ میں بسنے والے دیگر غیر سفید فام بھی اٹھاتے ہیں۔ امریکہ اور دنیا کے ہر انسان اور خصوصاً ہر غیر سفید فام پر لازم ہے، کہ وہ سیاہ فاموں اور باضمیر سفید فاموں کے ساتھ متحد ہو کر ، نسل پرستی کے خاتمہ اور مساوی حقوق کی جدو جہد میں شامل ہو۔

صرف اسی عمل پرستی کے تحت ایسا معاشرہ قائم ہو سکے گا جہاں ہرشخص کو تعلیم و تربیت، اور فن اور ثقافت میں ترقی کے یکساں مواقع مل پایئں گے۔عالمی دستاویزی فلم ساز اور ہدایت کار، ’مائکل مور ‘ کے بیان اور انعاموں کی تقریب کے بائکاٹ کے اعلان پر کیا ہم توقع کر سکتے ہیں، کہ اہم پاکستانی نژاد غیر سفید فام دستاویزی فلم ساز اور ہدایت کا، اور اکیڈیمی کی حامل، اور اس سال دوبار نامزد، محترمہ ’شرمینؔ عبید چنوئے ‘ بھی ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ کر مائکل مور کا ساتھ دیں گی؟