متحدہ جہاد کونسل، جس کی تمام قیادت پاکستا ن میں قیام پذیر ہے، کی طرف سے پٹھانکوٹ ائیر بیس پر حملہ کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد پاکستان کی سیاسی حکومت ایک بار پھر مشکلات سے دوچار ہو گئی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے فون پر بات کرتے ہوئے پٹھانکوٹ ائیر بیس پر حملے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات قائم ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔دہشت گردی کی اس تازہ کاروائی کا مقصد اس خطے میں مسلسل بدامنی کی فضا قائم رکھنا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم مودی نے نوازشریف کودہشت گردوں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کو کہا ہے۔بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پاکستان کو ’’ قابل عمل‘‘ معلومات مہیا کر دی گئی ہیں۔
امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان ،جان کربی ،نے کہا ہے کہ امریکہ توقع کرتا ہے کہ پاکستانی حکومت دہشت گردوں کے خلاف سخت کاروائی کرے گی۔
کیا پاکستان بھارت پر حملہ کرنے والے ماسٹر مائنڈز کے خلاف کاروائی کر سکے گا؟
یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت کی طرف سے مسلسل مطالبوں کے باوجود پاکستان ابھی تک ممبئی حملوں کے مرکزی کرداروں جن کا تعلق لشکر طیبہ سے ہے ، کے خلاف کاروائی کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔
لشکر طیبہ یا جماعت الدعوۃ کے رہنما پاکستان میں اپنی سرگرمیاں بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنی ریلیوں میں بھارت کے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈا کرتے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے حالات پر گہر ی نظر رکھنے والے ممتاز کالم نگار ڈاکٹرمحمد تقی کا کہنا ہے کہ ’’ موجودہ صورتحال میں پاکستان کی سیاسی قیادت ، فوج کی اجازت کے بغیرنماز بھی نہیں ادا کر سکتی ہے۔ اگر حکومت نے سید صلاح الدین یا مولانا مسعودد اظہر کے خلا ف کوئی کاروائی کی بھی تو وہ صرف دکھاوے کے لیے ہوگی۔ان کو کبھی سزا نہیں ہو سکے گی اور نہ ہی بھارت کے حوالے کیا جائے گا۔
ڈاکٹر تقی کا کہنا ہے کہ نومبر 2008کے ممبئی حملوں کا مرکزی کردار ذکی الرحمن لکھوی بھی پاکستان کی جیل میں نہایت آرام سے رہ رہا ہے۔وہ کبھی جیل میں ہوتا ہے اور کبھی باہر۔ اسے جیل میں تمام سہولتیں حاصل ہیں وہ تو جیل میں رہتے ہوئے ایک بچے کا باپ بھی بنا ہے۔اس کے مقابلے میں عقیل عرف ڈاکٹر عثمان جو کہ جی ایچ کیو پر حملے میں ملوث تھا نہ صرف مقدمہ چلا، موت کی سزا ہوئی اور پھانسی دے دی گئی۔ اور پاکستانی حکام کی طرف سے اس کی پھانسی کی ویڈیو لیک کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ اب یہ نواز حکومت کے لیے امتحان ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے کیا وہ پٹھانکوٹ پر حملے کے ذمہ داروں کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلا سکے گی؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان اس حالیہ تناؤ کے بعد بعض حلقوں نے اس ماہ کی چودہ اور پندرہ تاریخ کو اسلام آباد میں دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان ہونیوالی بات چیت کے انعقاد پر بھی سوالیہ نشانات اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔ اس بارے میں گزشتہ روز پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونیوالے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک کو مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کا عزم دکھانا ہوگا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پٹھان کوٹ پر حملے کے بعد دونوں ملکوں کی طرف سے سرکاری سطح پر جو ردعمل سامنے آیا ہے اس سے توقع کی جاتی ہے کہ پاک بھارت خارجہ سیکرٹریوں کی بات چیت تعطل کا شکار نہیں ہو گی۔
پاکستان اور بھارت نے دسمبر میں دوطرفہ جامع مذاکرات کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت اور پاکستانی حکام سے ملاقاتوں کے بعد پاکستانی مشیر برائے خارجہ امور کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ بھارتی وزیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس سال سمتبر میں جنوب ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لئے پاکستان آئیں گے۔