واشنگٹن: بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لئے تین ہزار کلومیٹر طویل لانگ مارچ کرنے والے، ماما قدیر واشنگٹن پہنچ گئے۔ بقول اُن کے، امریکہ آمد کا مقصد اقوام متحدہ اور امریکی سفارتکاروں کے سامنے بلوچستان کے مسئلے کو اٹھانا ہے۔
واشنگٹن میں ’وائس آف امریکہ‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے، عبدالقدیر بلوچ عرف ماما قدیر نے کہا کہ بلوچستان میں مظالم کے خلاف اندرون ملک جدوجہد کے بعد اب وہ اپنی جدوجہد کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
ماما قدیر غیر معینہ مدت تک امریکہ میں رہنا چاہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ ابھی چھ ماہ تک تو یہیں ہیں اور اس کے بعد بھی وہ یہاں رک سکتے ہیں۔ لیکن، اگر وہ واپس جانا چاہیں تو انھیں کوئی روک نہیں سکتا۔
ماما قدیر نے الزام عائد کیا کہ پاکستان میں عدالتیں بے بس ہیں۔ بقول اُن کے، ہم نے دو برس تک عدالتی جنگ لڑی۔ لیکن پاکستانی عدالتیں انصاف فراہم نہ کر سکیں۔‘
انھوں نے کہا کہ جن لوگوں کو اٹھایا گیا ہے، میں جانتا ہوں کہ ان پر الزامات ہیں۔ لیکن عدالت کے ذریعہ سزا دی جائے تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا‘۔
ماما قدیر نے کہا کہ وہ امریکی حکام اور اقوام متحدہ کے سامنے بلوچستان کا مسئلہ اٹھائیں گے، تاکہ بلوچ نوجوانوں کو جنیوا کنونشن کے تحت حقوق مل سکیں۔
اس موقع پر معروف سرگرم کارکن فرزانہ مجید بلوچ نے کہا کہ ’قیام پاکستان کے بعد سے ہی بلوچ حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کبھی یہ سیاسی میدان میں ہوتی تو کبھی یہ بغاوت کی صورت میں۔ گزشتہ دس برسوں سے بلوچستان میں بغاوت ہے‘۔
فرزانہ مجید بلوچ کے بقول، ’بلوچ سردار پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی پیداوار ہیں، وہ بلوچ عوام کی ترجمانی نہیں کرتے‘۔
دوسری طرف کوئٹہ میں وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے کہاہے کہ 2015کے دوران بلوچستان میں 463جبری طورپرلاپتہ کرنے اور157بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہونے کے شکایات موصول ہوئی ہیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے لاپتہ افراد کے لواحقین ،سیاسی وانسانی حقوق کے تنظیموں اوردیگرذرائع سے حاصل کی ہیں۔ جبری طورپرلاپتہ افراد اورمسخ شدہ لاشوں کی تعداد اس سے بھی کہی زیادہ ہوسکتاہے کیونکہ حکومتی سطح پریہ اعتراف کیاگیاہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت اس سال کے دوران 9ہزار سے زائد بلوچستان میں گرفتاریاں کی گئی ہیں لیکن حکومت نے ان گرفتاریوں کے بارے میں تفصیلات جاری نہیں کی ہے۔
ان خیالات کااظہارانہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آج بھی کارروائیاں جاری ہے جہاں سے خواتین بچوں کولاپتہ کرنے ان پرتشدد کرنے،گھروں کوجلانے اورکارروائی کے دوران پہلے سے لاپتہ کئے گئے بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کے شکایات بھی موصول ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اس سال سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے کیسز میں 4مرتبہ سماعت ہوئی 4نومبر2015کوسپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کے کیسز کوسپریم کورٹ سے خارج کردیااوران پرکوئی بھی فیصلہ بھی نہیں سنایاگیاجس کی وجہ سے لاپتہ افراد کے لواحقین شدیدذہنی اذیت میں مبتلاہوئے کیونکہ لواحقین سپریم کورٹ کواپنے امید کی آخری کرن سمجھتے ہیں ۔
سپریم کورٹ نے لواحقین کویقین دہانی کرائی تھی کہ انہیں ضرور انصاف فراہم کیاجائے گااورموجودہ چیف جسٹس نے بھی بلوچستان کے دورے کے موقع پرلاپتہ افراد اورمسخ شدہ لاشوں کی برآمدکوایک اہم انسانی مسئلہ قراردیکرکہاتھاکہ سپریم کورٹ اس اہم انسانی فیصلے سے غافل نہیں اس کوحل کرنے میں اپناکرداراداکریگا۔
انہوں نے کہاکہ وفاقی اورصوبائی حکومت بھی لاپتہ افراد کے مسئلے کوحل کرنے میں سنجیدہ نہیں رہے سابق وزیراعلیٰ نے لاپتہ افراد کے مسئلے کے حوالے سے اپنی ناکامی کااعتراف کرچکے ہیں وفاقی حکومت نے بھی لاپتہ افراد کے مسئلے کومکمل طورپرنظرانداز کردیا۔
انہوں نے کہاکہ ان تمام حالات کومدنظررکھ کرتمام سیاسی جماعتیں ،انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ لاپتہ افراد ومسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی سمیت آئین وانسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کیخلاف آوازاٹھا کر بھر پو ر کر د ا ر ا د ا کریں۔
♣