سید رفعت کاظمی
چھ جنوری2013 کو جماعت اسلامی کے 22 سال تک امیر رہنے والے قاضی حسین احمد 74 سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ صحافیوں، کالم نگاروں اور دانشوروں نے انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں انتہائی مدبر مذہبی و سیاسی رہنما قرار دیا تھا اور دیتے ہیں جنہوں نے پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کی اور مسلم امہ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔
بتایا گیا کہ مسلم امہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے انہوں نے ملک اور بیرون ملک سفر کیا۔ ایران عراق جنگ ، خلیج کی جنگ اور پھر بوسنیا کے بحران پر ان کی قابل قدر خدمات ہیں۔ قاضی صاحب کے افغان مجاہدین سے گہرے تعلقات تھے اور افغانستان کے ’’ جہاد ‘‘ کے ساتھ ساتھ افغانستان سے روسی فوجوں کو بھگانے میں بھی ان کا اہم کردار تھا وغیرہ وغیرہ۔
یہ درست ہے کہ قاضی حسین احمد ایک مدبر مذہبی وسیاسی رہنما تھے اور میڈیا میں بھی چھائے رہتے تھے مگر ہمیں ان کی شخصیت کا غیر جانبدارانہ تجزیہ بھی کرنا چاہیے کہ ایک مدبر مذہبی سیاسی رہنما کی حیثیت سے ان کی خدمات کا پاکستانی قوم کو کیا فائدہ پہنچا۔
سنہ 1986میں قاضی حسین احمد جب جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل تھے اور امیر المومنین جنرل ضیاء الحق کے صالح دور میں خیبر پختونخواہ کے ’’مرد آہن‘‘ جنرل فضل حق کی آشیر باد سے چھ سال کے لیے سینٹر منتخب ہوئے۔ قسمت نے یاوری کی اور 1987 میں وہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہو گئے۔ 1992 میں وہ دوبارہ چھ سال کی مدت کے لیے سینٹر منتخب ہوئے لیکن1996 میں احتجاجاً اس لیے استعفیٰ دے دیا کہ سیاسی نظام کرپشن کی انتہا ؤں کو چھو رہا ہے لہذا وہ ایک کرپٹ نظام کا حصہ نہیں بن سکتے۔
لیکن ان ہی کی امارت کے دور میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اسد دررانی نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے سیاستدانوں میں جو رقوم تقسیم کیں ان میں جماعت اسلامی کے نامور نام بھی شامل تھے لیکن شاید یہ کرپشن نہ تھی۔
سنہ 2002 میں وہ دوسرے ڈکیٹیٹر جنرل مشرف کی چھتری تلے آئی ایس آئی کی تیار کردہ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور ایک بار پھر ملک میں اسلامی نظام قائم کرنے کی جدوجہد کا اعادہ کیا۔ وہ جنرل مشرف کے سخت ناقد تھے مگر انہوں نے تاریخی سترویں ترمیم پر دستخط کرکے جنرل مشرف کے تمام غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات کو قانونی حیثیت دے دی۔
اگر دیکھا جائے تو جمہوری دور کی نسبت ڈکیٹروں کے دور میں ان کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آتی تھیں۔ جب ریاستی وسائل ان کی ڈسپوزل پر ہوں، ایسٹیبلشمنٹ اور جہاد ی میڈیا پشت پر ہو تو پھر قاضی صاحب کو مدبر سیاستدان بننے سے کون روک سکتا تھا۔
آئی ایس آئی کے نام نہاد افغان جہاد نے جہاں ایک طرف لاکھوں لوگوں کو مروایا وہیں دوسری طرف پاکستان کو ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر سے بھی روشناس کرایا ۔قاضی صاحب نے جہاد کو عوامی سطح پر مقبول بنایا اور اس جہاد کے لیے مین پاور سپلائی کی اور ہزاروں افرا د کو شہادت سے سرفراز کرایا۔ بعد میں یہی کام مولانا صوفی محمد نے بھی چھوٹی سطح پر انجام دیا۔ آج پاکستان جس مذہبی انتہا پسندی و قتل و غارت و تباہی کا شکار ہے وہ جماعت اسلامی اور ان کے امیر کی مدبرانہ قیادت کا نتیجہ ہی ہے۔ابھی حال ہی میں قاضی حسین احمد کے ہونہار شاگرد اور حزب المجاہدین کے سربراہ محمد یوسف المعروف سید صلاح الدین نے لشکر طیبہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پٹھانکوٹ ائیر بیس پر حملہ کیا ہے۔
قاضی حسین احمد نے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کی نام نہاد اسلامی قانونی سازی کی حمایت کرتے ہوئے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے ضیاء الحق کے سیاہ قوانین کو جائز قرار دیا اور جب حدود قوانین کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی توانہوں نے سخت احتجاج کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی اور کہا عورتیں کم عقل اورجذباتی ہوتی ہیں اس لیے ان کی گواہی پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔قاضی صاحب خواتین کا سیاست میں حصہ لینے کے سخت مخالف تھے ۔ وہ مرد و خواتین کی مخلوط محفلوں بلکہ اکٹھا کام کرنے کو غیر اسلامی سمجھتے تھے۔ وہ خواتین کو گھروں تک محدود ر کھنے کے حامی تھے۔
لیکن جب مفادات حاصل کرنے کاوقت آیا تو اپنی ہی بیٹی کو رکن اسمبلی بھی بنوا لیا ۔ بے نظیر بھٹو کے پہلی دفعہ وزیر اعظم بننے پر ایسٹیلشمنٹ کی خواہش پر عورت کی حکمرانی کے خلاف ایک منظم مہم بھی جماعت اسلامی نے انہی کے دورِ امارت میں شروع کی۔
قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کو ایک مقبول جماعت بنانے کی کوشش کی۔ اسی دوران شباب ملی اور پاسبان جیسی نرم ڈسپلن کی تنظیمیں بھی بنائیں مگر کامیاب نہ ہو سکیں۔ ان کی میڈیا ٹیم نے ’’ظالمو قاضی آرہا ہے ‘‘ کا نعرہ دیا۔ 1997میں انہوں نے جماعت اسلامی کی رکن سازی کی ایک عوامی مہم شروع کی کہا جاتا ہے کہ اس مہم سے 45لاکھ نئے ارکان کا اضافہ بھی ہوا۔مسلم امہ کے لیے قاضی صاحب کی کیا خدمات تھیں یہ تو شاید چند سال بعد پنجاب یونیورسٹی کا کوئی طالب علم جب ان کی خدمات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھے گا تو واضح ہو گا۔
♦
One Comment