خالد تھتھال۔ ناروے
ایک شامی بچے کی ساحل سمندر پر پائی جانے والی لاش نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، مغربی ممالک نے غیر ملکیوں کو اپنے ممالک میں داخلے کیلئے جو پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں، ایک دم سے نرم کر دی گئیں۔ شامیوں کے قافلوں نے مغربی ممالک کا رخ کیا۔ ایک بہتر زندگی کی تلاش میں غیر شامی باشندے بھی ان شامی قافلوں میں شامل ہو گئے۔
یہ قافلے جس ملک سے بھی گزرتے ، سڑکوں اور راستوں پر کھڑے لوگ لوگوں نے کھانے، پینے اور پھلوں سے ان کی تواضع کی۔ سویڈن کی مشہور گائیکہ کارولا نے ایک خاص تعداد کو اپنے گھر رکھنے کا عندیہ دیا۔ فن لینڈ کے وزیر اعظم نے اپنی سرکاری رہائش گاہ خالی کرنے کا اعلان کیا۔ ہر ملک میں ان کیلئے خصوصی لیکن عارضی رہائش گاہوں کا انتظام کیا گیا، جہاں سے انہیں بعد میں مستقل رہائشوں میں منتقل کرنا تھا۔
گو ہر کسی مغربی ملک نے اپنے وسائل کے مطابق انہیں قبول کیا، لیکن جرمنی سب سے بازی لے گیا جنہوں نے اس سال شاید آٹھ لاکھ پناہ گزینوں کو اپنے ہاں بسانے کا ارادہ کیا تھا۔
لیکن یہ سب ہمدردیاں سال نو کے واقعے کے خلاف اٹھنے والے جذبات کے سیلاب میں بہہ گئیں۔ جرمن وزیر اعظم جو ان مہاجرین کیلئے ہمدردی کا بہت زیادہ جذبہ رکھتی تھیں، پر اس قدر دباؤ بڑھا کہ انہوں نے بھی قوانین سخت کرنے کا اعلان کر دیا ہے، سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں ابھی تک سال نو تقریب کے حوالے سے اس حادثے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
کیا یہ واقعی اتنا بڑا واقعہ تھا،کہ اتنا واویلا کیا جائے۔ چند ایک لڑکیاں ہی تو اس کا شکار ہوئیں۔ یہ تو کوئی اتنی بڑی بات نہیں، یہ تو ایک کھیل تھا، جی ہاں ایک کھیل۔ جس کا نام تحرش جمعیۃ ہے۔ اس کھیل میں مردوں کا ایک بہت بڑا گروہ اکیلی لڑکیوں کو شروع میں جنسی طور پر ہراساں کرتا ہے۔ اور بعد میں اس لڑکی یا عورت کی آبر وریزی کی جاتی ہے۔ لہذا جرمنی میں سال نو کی رات کو ہونے والے واقعہ کو کچھ جرائم پیشہ لوگوں کی کاروائی نہ سمجھا جائے۔
یہ کھیل کب شروع ہوا ، اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن عرب دنیا میں اس طرح کے واقعات معمول کا حصہ بن چکے ہیں، اس میں جوان لڑکے یا مرد شامل ہوتے ہیں، اور یہ کھیل وہاں کھیلا جاتا ہے جہاں لوگوں کا جم غفیر جمع ہو، خصوصی طور پر مظاہرے جہاں پر بہت زیادہ مرد و زن جمع ہوتے ہیں۔
اس کھیل کی خبر ہم تک اس وقت پہنچی جب اس کا پہلا مظاہرہ جو بہت مشہور ہوا تھا، اور وہ سابق مصری صدر حسنی مبارک کے زمانے میں 2011 میں اٹھنے والی تحریک کے دوران تحریر چوک پر دیکھنے میں آیا۔ جہاں ایک بڑے ہجوم نے ایک معزز صحافی خاتون کو گھیر کر پہلے تو اسی جنسی طور پر ہراساں کیا، پھر کچھ نے اس کے جسم کے نازک حصوں کو ٹٹولنا شروع کیا اور آخر میں اس کی اجتماعی آبرو ریزی ہوئی۔
اس خاتون نے ایک انٹرویو میں بعد میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ جب ان حالات سے گزر رہی تھی تو اسے یوں محسوس ہوا کہ آج اس کی زندگی کا آخری دن ہے۔ مصر میں تحرش جمعیۃ سے مراد “ہلکے” درجہ کی جنسی حراسانی سے لے کر اجتماعی آبرو ریزی ہے۔
اب خیر سے یہ کھیل مغربی ممالک میں بھی پہنچ چکا ہے، اور یورپ میں پہلی بار سال نو کی رات کو جرمنی کے شہر کولون میں کھیلا گیا۔ جرمن پولیس اس خدشے کا اظہار کر رہی ہے کہ انہیں بہت چوکس رہنا ہو گا کہ سال نو کے موقع پر کھیلے جانا والا تحرش جمعیۃ کا کھیل پھر دیکھنے میں آ سکتا ہے۔
جرمنی کے وزیر انصاف ہائکو ماس نے اس کھیل کے حوالے سے کہا ہے “اگر کسی جگہ پر اتنا بڑا ہجوم اکٹھے ہو کر جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی پہلے سے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ہے، مجھے کوئی یہ نہ کہے کہ اس کی پہلے سے منصوبہ بندی یا تیاری نہیں کی گئی“۔
ہم جہاں پہنچے، ہمارے ساتھ ویرانے گئے