سبط حسن
کئی بحران اور آفتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ٹھوس صورت میں دیکھنا محال ہوتا ہے مگر وہ انسانی زندگیوں میں خاموشی سے نشوونما پاتے رہتے ہیں۔ ان کا عا م طور پر تعلق انسانی شعور سے ہوتا ہے ۔
♦
زلزلے ، سیلاب یا وبائی امراض سے پیدا ہونے والے بحران یا آفتوں کے بارے میں بجا طور پر حفاظتی تدابیر اور ازالے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ یہ بحران جب آتے ہیں تو ان کی تباہ کاریاں آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہیں ۔ ان کا جو اثر انسانی زندگی پر ہوتاہے اسے بھی محسوس کرنا دشوار نہیں ہوتا۔ کئی بحران اور آفتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ٹھوس صورت میں دیکھنا محال ہوتا ہے مگر وہ انسانی زندگیوں میں خاموشی سے نشوونما پاتے رہتے ہیں۔ ان کا عا م طور پر تعلق انسانی شعور سے ہوتا ہے ۔
مثال کے طور پر ہمارے ہاں انفرادی اور اجتماعی سطح پر عقل و شعور کی صورتحال بحرانی بلکہ ایک آفت بن گئی ہے۔ سب لوگ اس بحران کے شکار بنے ہوئے ہیں مگر حکومتی و غیر حکومتی سطح پر اس آفت کے سدباب کے لیے کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔ ایک لاتعلقی ہے اور شکار بننے کے باوجود اس سے چھٹکارے کی خواہش بھی نہیں۔
سنہ 1980کی دہائی میں ہمارے ہاں کنزیومر ازم یعنی صارفانہ مزاج کا تعارف ہوا۔ اس کے ساتھ ہی انفرادیت اور بے ہودہ قسم کی انانیت جیسے شخصی رویوں کو فروغ ملا۔ ہر شخص ایک جزیرہ بن گیا اور اجتماعیت سے اس نے قطع تعلق کر لیا ۔ یہی وہ دور ہے جب تعلیم ایک سماجی خدمت کی بجائے قابل فروخت جنس بن گئی۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ میں مالی استطاعت ہے تو آپ حسب استطاعت اپنے بچوں کے لیے تعلیم کا بندوبست کرلیں۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے منڈی میں پرائیویٹ سکولوں کی افزائش ہوئی۔ ان سکولوں میں ہر حیثیت کے لوگوں کے بچوں کی تعلیم کی گنجائش تھی۔ حکومت نے بڑے کھلے دل سے اس رحجان کی پذیرائی کی نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تعلیمی ادارے پیسہ کمانے والی صنعت کا درجہ حاصل کر گئے۔
دوسری جانب سرکاری سکولوں میں افتادگان خاک کو بحالت مجبوری اپنے بچوں کو بھیجنا پڑا۔ ان سکولوں میں تعلیم تو کجا اتنی بھی سکت نہیں کہ وہ بچوں کو ہنسی خوشی سکول آنے پر آمادہ کر لیں۔ اگر سو بچے پہلی جماعت میں داخل ہو ں تو 0.06 فیصد بچے ہی انٹر میڈیٹ کے بعد آنے والی جماعتوں میں جا پاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو بچے سکول چھوڑ دیتے ہیں ان کا کیا بنتا ہے ؟ یہ مجبوری کے اس نظام کی خوراک بن جاتے ہیں جہاں ذاتی ذلتوں کے ساتھ ساتھ محض ایک وقت کی سادہ روٹی ہی میسر ہوتی ہے۔
پرائیویٹ سکول ، ایسے شعور کو فروغ دیتے ہیں جس کی بنیاد پر ان کے فارغ التحصیل بچے اچھے صارف بن جاتے ہیں ۔ان میں ناقدانہ شعور یا انسانوں سے رشتے بنانے کی اہلیت نہیں ہوتی بلکہ ان میں سٹائل کے نام پر ایک عجیب طرح کی خود پسندی آجاتی ہے اس خود پسندی کے باعث وہ اپنے سے اعلیٰ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اور اپنے سے کم رتبے والے لوگوں کو محض آلہ کار کی حیثیت دیتے ہیں۔
سرکاری سکولوں میں عمومی حکمت عملی کے تحت بچوں کو جبر سہنا اور اس میں زندہ رہنے کی تربیت دی جاتی ہے جو اس چکی سے پس کر معاشرے میں آتا ہے وہ خود اذیتی نہیں تو اذیت پسند ہو جاتا ہے۔ جو سکول سے بھاگ کر مجبوری کے نظام مزدوری میں چلا جاتا ہے وہ صرف روٹی کو ہی ارفع ترین مقصد مانتا ہے اس کے نزدیک کوئی بھی اورمسئلہ اہم نہیں ہوتا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ناقدانہ شعور کا ارتقاء یکسر رک گیا ہے لوگ انفرادی اور اجتماعی سطح پر بدستور بے عقل تصورات سے ہی اپنی زندگی کو گزارنے کی رہنمائی حاصل کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یورپ میں اس وقت منصفانہ زندگی کی گنجائش پید ا ہو ئی جب انھوں نے بے عقل تصورات کو شعور ی کوشش کرکے ناقدانہ شعور سے تبدیل کیا۔ہمارے ہاں اس شعوری کوشش کی ریاست کو ضرورت نہیں کیونکہ ریاست پر قابض گروہ کے لیے یہ معاملہ خطرے کا باعث ہے۔ غیر ریاستی سطح پر جو کوششیں کی گئیں وہ روپیہ کمانے کے علاوہ کچھ نہیں نہ تھیں۔ بلکہ ان غیر ریاستی تنظیموں کے کرتا دھرتا دراصل ریاست پر قابض اس گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔
حقیقی بات یہ ہے کہ کوئی بھی فرد،اپنی انسانیت دیگر ہنروں کی طرح سیکھتا ہے ۔ انسانوں جیسی شکل رکھنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ آپ حقیقی طور پر انسان ہونے کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ عمر کے بڑھنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آپ میں ناقدانہ شعور آگیا ہے۔ یہ سب سیکھنا ہوتا ہے۔ سیکھنے کے لیے کسی تربیت گاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تربیت گاہ گھر ہو سکتا ہے ۔ کوئی ادارہ ہو سکتا ہے اور یا اس کا اکتساب ذاتی طور پر کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں ان تمام اداروں میں ناقدانہ شعور کی نمو کا کوئی بندوبست نہیں۔ یہ ایک ایسی آفت ہے جو آہستہ آہستہ ہماری شعوری حیات کو کھارہی ہے۔ احساس رکھنے والے قارئین سے التماس ہے کہ وہ اپنی محدود سطح پرجو بھی گنجائش ممکن ہو اپنے ارد گرد محروم بچوں کو پڑھائیں۔ انھیں سوال کرنا سکھائیں۔ واضح رہے کہ بے عقلی کے اس عفریت کی افزائش کو نہ روکا گیا تو ہم احساس والے خود بھی اس کی وجہ سے شعور کی موت کا شکار بن جائیں گے۔
♥
One Comment