سیدہ عینہ
شاعرلوگ بھی اپنے آپ میں کچھ نجومی سے ہی ہوتے ہیں کبھی تواپنے محبوب کے ٹھکرا دینے کوسالوں پہلے ہی بھانپ کرایسے یسے شعر کہہ ڈالتے ہیں کہ اگرمحکمہ موسمیات والے سن لیں تو شاعر کو بیٹھے بٹھائے اچھی بھلی نوکری مل جائے اورکبھی پوری کی پوری قوم وملک کے بارے میں ایسی پیش گوئی کرجاتے ہیں کہ برس ہا برس گزرجانے پربھی ان کی پیش گوئی کی سچائی پر، وقت کی گرد نہیں جمتی اوردیکھنے والوں کی نظرکوایسی سچائیاں چندھیا دیتی ہیں۔ میں جب بھی اس شعر کو سنتی ہوں تو پاکستان اوراس میں بسنے والے،حکومت کرنیوالے اوراس کی حفاظت کرنے والے میری نظروں میں گھوم جاتے ہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں ، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اس ملک میں جس کا نام پاکستان ہے ہرحادثے نے برس ہا برس تک عوام کے اعتبارکاخون کیا بھی اور پیا بھی! ہم نے کبھی خود ہی اپنی آنکھیں اور کان بند کر لیے،اپنے لب سی لیے اورسوتے سے بن گئے اور کبھی ہم پر وقت نے ایسے فرعون مسلط کر دیے جنہوں نے ہماری ہمتوں کے پالوں کوتوموت کی نیند سلا دیا اوربزدلوں کی طرح سرجھکا کے جی حضوری کرنے والے بوٹ پالشیوں کوگھیسٹ کرطاقت کے ایوانوں میں لے آئے تاکہ جب یہ فرعون کچھ دیرکے لیے ہی سہی مگردنیا اورعوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اپنی آرام گاہوں میں جائیں تو یہ ما لشیے اور بوٹ پالشییان فرعونوں کا حق نمک ادا کریں! اصول بھیڑیوں کے اور کھا لیں بھیڑوں کی ۔
ایک پاکستانی کی زندگی کے مسائل صرف آٹا، چاول، چینی ، بجلی اور پیٹرول کے گرد نہیں گھومتے بلکہ جوسب سے اہم مسئلہ ہے وہ بے یقینی کا ہے ،بے اعتباری کا ہے،بدا عتماد ی کا ہے۔ ہمیں یہ بے یقینی اوربدا عتمادی اپنے آ پ کو “عقل کل” سمجھنے والے اداروں کی دین ہے جنہیں کبھی بھی اپنے ناک سے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
مشرقی پاکستان میں بسنے والے غدار تھے، کیوں؟ بلوچستان کے مالک شورش پسند قرار پائے،کیوں؟ سندھ میں جمہوریت کے نام پرجانیں دینے والے ڈاکو،غداراوردشمنوں کے ایجنٹ ثابت کیے گئے کیوں؟ پشتون فسادی اور دہشت گرد قرار دئے جارہے ہیں ۔ کیوں؟ کسی ادارے نے کبھی ان سوالوں کا جواب دینے کی اہمیت کو محسوس کیا؟ یقیناً نہیں۔
با چا خان ،سائیں جی ایم سید، نواب خیر بخش مری کو غدار قرار دینے،مجیب الرحمن ، سرداراکبر بگٹی اور سردار مینگل کو ملک دشمن قرار دینے، ذوالفقارعلی بھٹو کوقا تل،جونیجوکونااہل، بے نظیربھٹوکوکرپشن کوئین، آ صف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ ، نواز شریف کو ہائی جیکر اوریوسف رضا گیلانی کو” عدالتی نافرمان” ثابت کرنے کے لیے ان اونچی ناک والوں نے ایڑھی چوٹی کا زورلگایا اوریہ بھول گئے کہ اگرپاکستانیوں کے ہر دلعزیز رہنماؤں کو اپنے جھوٹے ڈراموں کے ذریعے عوام کے دلوں سے کھرچ دوگے توآ ج نہ سہی کل مگران کی نظروں سے خود بھی ضرور گرجاؤ گے۔
ہر گزرتے برس کے ساتھ پاکستانیوں کویقین دلایا گیا کہ تمھارے منتخب کردہ رہنما اس ملک کی” بد ترین ” مخلوق ہیں! بڑے مگرمچھ ہیں، گندی مچھلیاں ہیں، ڈکٹیٹروں کی سیٹی کے پیچھے دم ہلاتی نجس مخلوق ہیں! باپ کے مرنے پراگر بیٹا پولیس میں جائے تو یہ بیٹے کا حق اورادارے کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے مگر منتخب باپ کوخود قتل کردواوربیٹا یا بیٹی اسکا مشن آگے بڑھانے کی بات کریں توعوامی خزانے کا منہ ان قلمکاروں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے جو صبح و شام ڈاکٹرکے نسخے کی طرح دو دو گولیاں ” خاندانی بادشاہت مردہ باد” کا کورس کروا کرمنہ کان لپیٹے عوام کو مزید اپاہج بنانے کا کامیاب تجربہ کرتے ہیں۔
اس سرزمین پرصدیوں سے راج کرنے والے اوررنگ برنگے حملہ آوروں کے منہ توڑ دینے والوں کو پہلے” وطن” کے نام پر گھیرلیا گیا پھران سے واضح امتیاز برتا گیا، ان کے حقوق سلب کیے گئے ان کو خاموش کروایا گیا یہاں تک کہ انہیں مار ڈالا گیا اورجب انکی اولادیں اپنی چیخیں دنیا تک پہنچانے اپنے اجداد کی زمین کوچھوڑ گئیں توانکو بے ضمیر، غداروطن ، ایجنٹ اورملک کو بدنام کرنے والے” عیاش سردارزادوں” کے ناموں سے بدنام کیا گیا۔
جہاں ہمیں خوش قسمتی سے کچھ سمجھ بوجھ والے مفکر ملے ہیں جنہوں نے اس گلے سڑے نظام کو قائم رکھنے والوں کوہوش کے ناخن لینے کی نصیحتیں کیں وہاں ہماری کم بختی کہ سول اورملٹری بیوروکریٹوں کے پورے پورے کریٹ ہمارے حصے میں آئے جن کی انگریزی توچست تھی لیکن قوم کے حقوق جاننے اور اپنے فرائض پہچا ننے میں ان س زیادہ ڈھیلا کوئی شاید ہی ہو۔ اور پھران “ڈھیلوں” کے شانہ بشانہ انکا ساتھ دینے کوایک مدت تک اردو صحافت میں اہل زبان اوراہل زبان سے” متاثر ” پنجابی دان ہمہ وقت موجود رہے۔ یہاں نام لے کر کیوں کسی کی مٹی خراب کی جائے وگرنہ ایک سے بڑھ کر ایک ” صحافی ” تھا جو سیاست کومذہب اورمذہب کو پیسے سے جوڑکرپا کستان میں جمہوریت، آزادی رائے ، آزادی مذہب اورآزادی صحافت کو وقت کے جلادوں کے حوالے کرتا رہا۔
انہی بیوروکریٹوں کے کریٹ اور صحافیوں کے ٹوکرے تھے جومشرقی پاکستان میں اپنے لیے حقوق مانگنے والوں کو مغربی پاکستان میں “شرپسند، ہندؤں کے ایجنٹ، ننگ وطن ” قرار دیتے رہے، فوجی آپریشن ہوا، واہ واہ بھی ہو ئی پھر اپنے ہی ملک میں جنگ مچی ، جوانوں کے حوصلے بڑھانے کو ترانے گائے گئے ۔ ہمارے بڑے ملک وقوم کی وفاداریاں نبھانے جوانوں کوخون دینے پہنچ جاتے تھے مگر جب آنکھیں کھلیں تو جس ” آکاش وانی ” اور ” بی بی سی ” کو جھوٹا کہہ کر ملی نغموں میں کوسنے دیے جارہے تھے وہ سچ ثابت ہوئیں اورجس جرنیل پر تکیہ کیے ساری قوم اونگھ رہی تھی وہ اس قوم سے بھی زیادہ گیا گزرا نکلا یعنی مدتوں سے
” مد ہوش“!۔
یہ توہماری شرمندہ تاریخ کا صرف ایک واقعہ ہے مگر حقیقت حال یہی ہے کہ ہر بے ڈھنگے آپریشن کو معرکہ ثابت کیا گیا، دنیا کوجھوٹا قراردیا گیا، ہر سچائی کواپنے خلاف سازش کہا گیا ،را ئی کو پہا ڑ اور رسی کوسانپ بنایا گیا. ہر دوسرے سال ” بچاؤ بچاؤ شیرآیا شیرآیا ” کی چیخیں کبھی نوٹ دکھا کراورکبھی بندوق کے زور پرنکلوائی گئیں اورپھرہردس سا ل کے لیے پاکستانیوں کوملکی مفاد اور نظریہ ضرورت کے” چوہے دان” میں قید کر دیا گیا۔
ہر بار ہم نے بڑی قربانیاں دے کر ملک کو جمہوریت اورآزادی کی پٹری پرڈالا مگرپھروہی” بچاؤ بچاؤ شیرآیا شیرآیا ” کی صدا ئیں ! اور آج جب تحریک طالبان اوراس کے چیلے چانٹے سچ مچ خونخوار عفریت کی طرح ہم پرحملہ آورہیں اورہمارے جانبازوں کے استاد دعویٰ کر رہے ہیں کہ” میدان جنگ ” حقیقی ہے آ ؤ! اوراپنا ” اتحاد بچاؤ، ملکی غیرت بچاؤ ” کہ خونخوار شیر آپہنچا ہے تو یقین کریں کہ مجھ سمیت ہزاروں بلکہ لاکھوں پاکستانی’’بے یقینی، بے اعتباری اوربد اعتمادی” کا شکارہیں ‘‘۔
جس نااتفاقی اوربداعتمادی کے گڑھے میں ہماری اسٹیبلشمنٹ، اردو صحافت اورعدلیہ ہمیں گرا چکے ہیں آج وہ چا ہیں بھی تو ہمیں وہاں سے نہیں نکا ل سکتے ۔
جب ہمیں قومی طورپریہ باورکرادیا گیا ہے کہ نہ ڈاکٹرشازیہ مظلوم تھی نہ مختاراں بی بی ، ملالہ بھی سازش کا حصہ ہے اورحامد میربھی، چارحلقوں سے منتخب ذوالفقارعلی بھٹو بھی قاتل تھا اورمتحدہ پاکستان کی اکثریتی جماعت کا لیڈر مجیب الرحمن ہندؤں کا ایجنٹ ، بینظیربھٹو اپنے بھائی کی قاتل تھیں اور آصف علی زرداری اپنی اہلیہ کے ، سردار اکبر بگٹی نے اپنی پناہ گاہ کوخود تباہ کرلیا اورحیدر گیلانی نے خود کولاپتہ کردیا، شہباز تاثیربھی اپنی مرضی سے کہیں چھپے بیٹھے ہیں اور“حضرت ” اسامہ بن لادن تو ابیٹ آ با د میں موجود ہی نہ تھے تب تو پھر ہم اس فوجی آپریشن کو کیا سمجھیں ؟ حقیقت یا فسانہ ؟ سچ یا ڈرامہ ؟ قربانی یا مفاد پرستی ؟ ملالہ یا اسامہ ؟؟
ہماری تو ہر سوہنی کسی کچے گھڑے کی نظرہوگئی اب کون ہمت کرے اورآپریشن ضرب عضب کے گھڑے کو آزمائے ؟ وقت اسی طرح حادثوں کی آ ہستہ آہستہ ، دبے پاؤں پرورش کرتا رہتا ہے اورپھرایک دن یہ حادثات اچانک ہم پر آفتوں کی طرح یکے بعددیگرے ٹوٹ پڑتے ہیں لیکن ہمیں یہی ٹریننگ ہے کہ یہ حادثہ نہیں “سازش” ہے ایک بین الاقوامی سازش۔