زرک میر
عابد میر صاحب کو پڑھتا ہوں اور پڑھنا بھی پڑھتا ہے کیونکہ یہی ایک ہی سدا بہار لکھاری ہیں جو ہر موسم میں ہر رنگ میں اور ہر طبیعت میں لکھتے ہیں اب یہ وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں یا مشغلہ،کیونکہ حال ہی میں ایک استاد کا انٹرویو پڑھا جنہوں نے اس کام کو اپنا مشغلہ کہا ۔گویا سماجی حالات نے لکھنے کا مشغلہ قرارقراردیا۔
اور عابد جب بھی لکھتے ہیں کچھ اچھا لکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اچھا کہلاتے بھی ہیں ۔بلوچ لکھاریوں میں مین اسٹریم کے لکھاری ہونا بھی عابد میر کے حصے میں آیا ہے ۔بلوچ موقف جاننے کے لئے مین اسٹریم کے دانشور انہی کے موقف پر ہی اکتفاء کرتے ہیں ۔یہ قابل اعتراض بھی نہیں،لیکن بہت سارے بنیادی اختلافات مجھے یہ تحریک دیتے ہیں کہ جہاں جس بلوچستان کی بات عابد میر لکھتے ہیں اس سے زیادہ تو نہیں لیکن کچھ الگ دروشم کے ساتھ ایک اور بلوچستان بھی ہے جس کو میں جانتا ہوں اس کی بات کرناضروری ہے جس میں عورت کی تحریک اگر سرے سے نہیں تو یہ تلخ حقیقت ہے۔
اس سے زیادہ تلخ حقیقت اس کی وجوہات کو بیان نہ کرنا ہے لیکن ان سے بھی زیادہ تلخ حقیقت یہ کہ جن پیشرفتوں کو عابد میر بلوچستان میں خواتین کی تحریک یا سیاسی عمل میں شراکت داری قراردے رہے ہیں اس سے بہتر تھا کہ عابد محض بلوچستان میں خواتین کی کسی مصنوعی پیشرفتوں کا ذکر ہی نہیں کرتے اور اپنے بیانیہ میں محض اور محض خواتین کی سیاسی عمل میں عدم شرکت کا قضیہ کرتے ۔چنانچہ ان پیشرفتوں کا بلوچستان میں خواتین میں سیاسی عمل میں شرکت کا پیشرفتوں کے تناظرمیں جائزہ لیناہوگا ۔
سب سے پہلے راحیلہ درانی سے متعلق یا اسمبلی میں موجود دیگر خواتین کے خاندانی پس منظر اوران کولانے کے عوامل کاجائزہ لینا ہوگا۔راحیلہ درانی کون ہیں ؟کس خاندان سے تعلق رکھتی ہیں ؟مسلسل مخصوص نشست پر کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ نہ رکھنے کے باوجود منتخب کی جاتی رہی ہیں اس کا جائزہ ضروری تھا۔ لیکن عابد نے ایسا نہیں کیا۔ حالیہ مہینوں ایک مقامی روزنامہ میں ایک خبر نے راحیلہ کے انتخاب کی طاقتوں کا راز فاش کردیاتھا، جہاں خبر میں انکشاف کیاگیا تھا کہ موصوفہ راحیلہ درانی نے اپنے حصے کے فنڈز کی خطیررقم ’’ کوئٹہ کلب‘ ‘ کی تزئین وآرائش کے لئے دیئے ہیں ۔
چنانچہ ہم غیر متعلقہ اورکسی حدتک بدنما چیزوں کوخوبصورت پیرائے میں چھپانے کا ہنر جانتے ہیں تب ہی مین اسٹریم دانشوروں میں جگہ پاتے ہیں ،یہ طنز نہیں ،یہ آگاہی کا تقاضا ہے کہ اس کا اظہارکیاجائے۔عابد کو اس پر قطعی ناراض نہیں ہونا چاہیے ،میں مین اسٹریم میں شامل ہونے کے لئے کسی مخصوص اور مشکوک چیز کو خوبصورت پیرائے میں بیان کرنے سے قاصر ہوں ۔ تب ہی اس خواتین کی تحریک سے عاری سرزمین اور روٹی پکانے والی عورتوں کی بغلوں میں دبکے مجھ جیسوں کو نمائندگی کا حق نہیں دیاجاسکتا ‘ سو ہر طرف واہ واہ ہے ۔
راحیلہ درانی کے والد اور خاندانی پس منظر سے ہٹ کر سیاسی جھکاؤ اس امر کا بخوبی اظہار ہے کہ خواتین کی نمائندگی کی خالی جگہ کو اپنوں سے پرکرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔خود بھی عابد جان نے راحیلہ درانی کو سیاسی کی بجائے سماجی ورکر قراردیا۔اب سلائی مشین کی خیرات اور کسی بیوہ کو گھی کا ڈبہ سوئیوں اور دالوں کے چند پیکٹ دینے اور بورڈ لگانے سے کسی خاتون رکن اسمبلی کاکردار اداہوجاتا ہے تو مجھے اعتراض نہیں ۔اسی طرح شمع اسحاق یا پشتونخوامیپ کی جانب سے خواتین کو رکن بنانے کا پس منظر بھی جاننا ہو گا۔ اس سے قبل روبینہ عرفان کو بھی اسمبلی کا مخصوص اندازمیں مخصوص نشست پر رکن منتخب کیاجاتارہا ۔کلثوم پروین بھی خیر سے بلوچستانی ہیں ۔جونہی بی این پی عوامی سے سینیٹر رہنے کی مدت ختم ہوئی تو اگلے سینیٹ انتخاب سے چند روزپہلے ن لیگ میں شامل ہو کر اسرارزہری جیسے جھالاوانی سخت گیر نوابزدے کو دوپٹے کا پلو لہرا کر اپنی نئی سیاسی پارٹی سدھار گئیں۔
روبینہ عرفان نے اپنے اور اپنے شوہر کااسمبلی ووٹ کس ہنر مندی سے سیٹ ٹوسیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے خود سینیٹر بن گئیں ۔ایک فرح عظیم شاہ بھی ہوتی تھیں جس کو بی این پی عوامی کی طرف سے کس کمال اورجمال کیساتھ نشست دی گئی اور اس بارے میں اسمبلی گیلریوں سے جو خبریں آتی رہیں وہ یہاں کی خواتین کے لیے کس حدتک حوصلہ افزاء تھیں یہ فیصلہ پڑھنے والے کریں ۔خبر کے مطابق فرح عظیم کی محمد عملی رند سے شادی بھی ہوگئی تھی (بعد میں رکنیت ختم،رشتہ ختم ،مشرف سے کوئٹہ دورے کے موقع پر فرح عظیم سے ون ٹو ون ملاقات اورصلاحیتوں کا اعتراف الگ ہیں ) جس سے واشک میں بیٹھی بلوچ خاتون کو فرح عظیم کی اپنی نمائندہ ہو نے پرسرجھکاناپڑتا ہوگا ۔
اور پھر ایک عدد پری گل آغا بھی تھیں جس کا ذکر کرنا آپ بھول گئے اس کے آنے کا پس منظر اور اس کے کردار سے شاہد آپ اورہم سب بخوبی واقف ہیں جس کا آپ نے ذکر کرنا ہی مناسب نہ سمجھا۔موصوفہ وزیر تعلیم بھی رہیں ۔کس دورمیں رہیں؟اس پری نے سرزمین بلوچستان کی خواتین کی پیشرفتوں کی بابت کیا کیا گل کھلائیں یہ بھی ایک تاریخ ہے جو شرمساری پرمحیط ہے ۔بعدمیں اسلام آباد جاکر اسمبلی لائے جانے والے طبقے سے وفا کرتی ہوئیں اتحاد یقین محکم کے نعرہ کے حامل ایک کمانڈو سے شادی بھی کرلی ۔پہنچی وہی پر خاک جہاں کا خمیر تھا (شادی پرکوئی اعتراض نہیں بنتا ،بس پس منظر کی جانب اشارہ کرنے کیلے ذکر کیا)
عابد جان یہ اسمبلی ہے جہاں ہرطرح کا کاروبار ہوتا ہے اور عورت تو ہمیشہ سے جنس رہی ہے بلوچستان میں یہ کاروبار کابلی تجارت کی طرح اخلاقی اورثقافتی اندازمیں کی جاتی ہے ۔ڈاکٹرمالک نے شمع اسحاق سے خالی جگہ پرکرائی جو ڈاکٹراسحاق کی اہلیہ محترمہ ہیں ۔رقیہ ہاشمی سعید ہاشمی کی اہلیہ ہیں ،نسیمہ احسان ،احسان شاہ کی اہلیہ ہیں ،آپ کے تمندار جمالی اپنی قابل بیٹی کو سینیٹر بناتے بناتے بچ گئے ۔
خواتین کی پیشرفتوں میں جمعیت بھی کسی سے پیچھے نہیں، چنانچہ خواتین کی مخصوص نشستوں کا جس انداز سے اس پس ماندہ معاشرے میں استعمال کیاگیا اور کیاجارہاہے وہ حقیقی طو رپر کس طرح سے خواتین کی سیاسی عمل میں شمولیت ہے یہ سمجھانا اور سمجھانا ابھی باقی ہے ۔یہ وہ چالاکیاں ہیں جو یہاں جمہوریت سیاست اور انسانی حقوق کے نام پر ہمیشہ سے کی جاتی رہی ہیں۔اور ہم ان چالاکیوں کو مزید پالش کرکے لوگوں کو دکھا دکھا کریہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بس اب انقلاب کا آغاز ہو چکا جبکہ ایسا نہیں ۔چالاکی کے باوصف کوئی غریب کا بچہ اعلیٰ طبقہ تک ممکن ہے رسائی کرلے لیکن وہ پورے طبقے کا قطعی نمائندہ نہیں کہلاسکتا ۔
اب راحیلہ درانی سمیت ان خواتین ارکان اسمبلی کے واشک اور نصیر آباد دوروں کا حال بیان کیاجائے کہ انہوں نے کوئٹہ کلب سے ہٹ کر وہاں کی عورتوں کے لئے کیا کیا؟ کہاں کہاں جا کر شعور دیا؟ درحقیقت یہ جن کے نمائندے تھے ان کی خدمت گزاری انہوں نے اچھی کی ۔اور اس پر میں ان کو اپنے پیشے سے مخلص قرارنہ دوں تو میں بخیل قرارپاؤں ۔ یہ مچھلی پکڑنے کے کانٹے ہیں ،جہاں ان کے ذریعے ایوانوں کا توازن کنٹرول کیاجارہا ہے ۔کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ راحیلہ درانی کو اسپیکر بنانے کا فیصلہ خالصتاً نواز لیگ کی صوبائی قیادت کا تھااور یہ خالصتاً خواتین کی موثر نمائندگی کے باوصف تھا؟
اگر ایسا آپ ثابت کریں تو میرے لئے کچھ اور بھی بنیادی مسائل حل ہونگے کہ بلوچستان میں سیاسی عمل آزاد ہے ،یہاں کے سیاسی فیصلے سیاسی پارٹیاں ہی کرتی ہیں اور ان فیصلوں کے پیٹ پر کسی بوٹ کا دباؤ نہیں۔اگریہاں اب خواتین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر سیاسی عمل میں شرکت کرائی جارہی ہے تو پھر اب راج کرے سردار اور فیوڈل معاشرے کی باتیں یقیناًاپنی وقعت کھو چکی ہیں ۔کیونکہ جب نواب زہری راحیلہ درانی کو اپنی پارٹی کے سیاسی فیصلے کے مطابق اسپیکر بناسکتا ہے تو پھر وہ آپ کی نظر میں جھالاوان میں بھی وہ انقلاب لاچکے ۔بات سمجھنے کی ہے ،حقیقی تبدیلی کے نام پر منصوعی تبدیلی لانے کا حربہ بہت ہی پرانا ہے۔
آپ نے کریمہ کی بھی بات کی کہ اب وہ بھی چیرپرسن بن گئی ہے تو یہ بڑی تبدیلی ہے ،ہوگی یہ تبدیلی لیکن غیر موثر ۔یہ بھی ایک چالاکی ہے بی ایس او میں عمومی طورپر حال ہی تک مرد چیئرمین شپ کے لئے لڑتے رہے ،گریبان چاک کئے گئے یہ تبدیلی اچانک آئی کیسے ؟؟؟ راتوں رات یہ انقلاب آیاکیسے ؟؟؟؟
بات سادہ سی ہے ،منظرعام سیاست ،بیان بازی جلسہ جلوس اورتقریر کے لئے حالات کسی طور اچھے نہیں ،اوراب وہ اپنا حقیقی نام بھی نہیں بتاسکتا۔ یہ آج کی بی ایس او کی حکمت عملی ہے تو چنانچہ سانپ بھی مرجائے لاٹھی بھی نا ٹوٹے کے مصداق ایسے موقع پر کریمہ کو آگے کرنا کسی طرح سے بھی حکمت سے خالی نہیں تھا سو ایک طرف بی ایس اوکانام بھی رہے اور نواب ثنا زہری اور خواتین کو اسمبلی میں لانے والے موچھوں کو تاؤ دینے والوں کی طرح خواتین کو آگے لانے کا کریڈٹ بھی لیاجائے ۔
یہ ہمارے قبائلی مزاج کا خاصہ ہے کہ عام وقتوں میں عورت کا پلو کسی کو نظر نہیں آتا لیکن جوں ہی لیویز کا گھر پرچھاپہ پڑے تو خواتین ہی دروازے پر کھڑی نظر آتی ہیں ،کریمہ کیساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ عمومی طور پر تو خواتین کو اپنے نام پر جعلی نمائندگی پر اٹھنا چاہیئے ناکہ جعلی نمائندگی کو خوبصورت پیرائے میں بیان کرکے ان کو حقیقی نمائندگی کے حق سے نا آشنا کیاجائے ۔
♦