فرحت قاضی
صبر اور محنت سے مالک کو فائدہ پہنچتا ہے
لہٰذا
یہ اعلیٰ صفات ہیں
لالچ سے نقصان ہوتا ہے اس لئے یہ برا عمل ہے۔
اگرچہ مالک اور ملازم کے مابین کام کی نوعیت،محنت ، اوقات کار،ہفتہ وار چھٹی اور ماہانہ اجرت کا معاہدہ طے ہوا ہوتا ہے تاہم وہی مالک اپنے نوکر کو کبھی ٹوکتا اور کبھی کبھار گدھا بھی کہتا ہے ملازم رفتہ رفتہ اس سلوک کا عادی ہوکر اپنے کام کا جزو تسلیم کرلیتا ہے کئی سال پیشتر ایک جاگیردار مالک کے ذاتی عقوبت خانے بھی ہوا کرتے تھے وہ اپنے دیہہ کا بادشاہ ہواکرتا تھا اور جزا وسزا کے اختیارات بھی رکھتا تھا
ایک دیہہ میں پائے جانے والے رواجات،رسومات،روایات،ادب آداب اور تصورات ہمیں یہ جاننے میں مدد دیتے ہیں کہ اس میں جاگیردار اور صاحب جائیداد طبقات کیا چاہتے ہیں چنانچہ ان میں برائی اور اچھائی کو الگ الگ کرکے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سب جائیداد، ملکیت اور دولت کے گرد گھومتے ہیں ۔
ایک ملازم مالک کے جنبش لب پر دوڑاہوا آتا ہے اس کا ہر حکم بجا لاتا ہے اس کے کھیت کی حفاظت کرتا ہے اس کی وفاداری کا دم بھرتا ہے اس کا اور اس کے اہل خانہ کا تابعدار رہتا ہے اس کے دولت میں اضافہ کرتا رہتا ہے جتنا اسے دیا جاتا ہے اس سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کرتا ہے تو وہ اچھا ملازم اور اچھا انسان بھی ہے۔
ملازمت کی یہ شرائط پرانے ملازم جانتے ہیں اور نیا ملازم وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ لیتا ہے اسے یہ کچھ تو ملازمت کے دوران مالک اور ساتھی نوکر سکھا دیتے ہیں اور کچھ سماج سکھاتا رہتا ہے کیونکہ ایک معاشرہ پہلے سے ہی مالک اور ملازم میں تقسیم ہوتا ہے۔
جو انسان کام اور محنت کرتا ہے اس سے لامحالہ غلطیاں بھی ہوتی ہیں پیالیاں پرچ ٹوٹتے ہیں اور گاڑی بھی خراب ہوجاتی ہے مالک یہ حقیقت جانتا ہے اس کے باوجود وہ اس نوکر کو ٹوکتا،گدھا اوربرا بھلا بھی کہتا ہے جب مالک ایک ملازم کو یہ کہتا ہے تو دیگر نوکروں کو بھی احساس ہوجاتا ہے کہ ان کے مالک کو خوش اور ناراض کرنے والے افعال کیا کیااور کون سے ہیں بعدازاں یہی اچھے اور برے کا معیار بھی بن جاتے ہیں۔
وہ جان لیتے ہیں کہ مالک سخت محنت ومشقت پر خوش ہوتا ہے۔
اجرت اور سہولیات میں اضافے پر ناراض ہوتا ہے۔
بہر کیف، ملازم کتنا بھی اچھا ہو مالک اسے ٹوکتااور احمق کہ کر بلاتا ہے یا پھر اسے احساس دلاتا رہتا ہے کیونکہ ایک ملازم کو ٹوکنے اور برا بھلا کہنے کا نفسیاتی اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اجرت بڑھانے کے مطالبے سے گریزاں رہتا ہے۔
ملازم کے بے وقوف ہونے کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔
وہ تنقید برداشت کرنے لگتا ہے
روزمرہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ مالک اور نوکر کے موازنہ میں موخر الذکر ہی بے وقوف ٹھہرتا ہے۔
گھر کی چاردیواری میں بیوی ناسمجھ ٹھہرتی ہے
بھائیوں میں چھوٹا ہی الّو نظر آتا ہے
گاؤں اور محلے میں غریب ترین شخص پر یہ الفاظ چسپاں دکھائی دیتے ہیں۔
قصہ مختصر،بااختیار،طاقت ور ،دولت منداور چالاک انسان عقل مند اور بے اختیار،کمزور اور غریب شخص بے وقوف کے زمرے اور دائرے میں آجاتا ہے اور یہی کچھ ایک مالک چاہتا بھی ہے اس طرح بے وقوف اور عقل مند کی یہ تقسیم زیادہ تر خان خوانین کے نقطہ نظر سے کی گئی ہے۔
یہ احساسات ہمیں حکومت اور ارباب اختیار قریب قریب ہر موقع پر یاد دلاتے رہتے ہیں عوام سے کہا جاتا ہے کہ وہ سچ کا دامن کسی بھی حال میں ہاتھ سے جانے نہ دیں چنانچہ چوری کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو اس کا اقرار کرتے ہوئے ساتھیوں کے نام بھی اگل دے۔
مگر صاحب جائیداد کے حوالے سے یہی سچ جب وہ سٹیج پر آکے کہتا ہے یا اخبار میں چھپوانا چاہتا ہے تو پھریہ سچ نہیں رہتا ہے۔
ایک ملازم اپنی،اہل خانہ،ساتھیوں اور ملک کی صورت حال بہتر بنانے کے منصوبے بناتا اور سوچتا ہے دیانت داری سے فرائض انجام دیتا ہے تو اسے بے وقوف،شیخ چلی اور لالچی مشہور کردیا جاتا ہے یہ صداقت اس لمحہ مزید واضح ہوجاتی ہے جب اس کا اطلاق دیہہ میں موجود پیشوں اور ان سے وابستہ افراد پر کیا جاتا ہے۔
کھیت مزدور،چوکیدار اور باڈی گارڈ جاگیردار کے ذاتی نوکر ہوتے ہیں مگر نائی،دھوبی،درزی،لوہار اور بڑھئی کے اپنے اپنے کاروبار ہوتے ہیں اولالذکر کی محنت کا تما م پھل مالک کے پاس جاتا ہے اور موخر الذکر اپنے اور اہل خانہ کے لئے دو وقت کی روٹی کماتے ہیں یہ اس کے براہ راست محتاج نہیں ہوتے ہیں کھیت مزدور اور چوکیدار کی مانند ان کے ہاتھ اور جھولی جاگیردار کے سامنے بچھی نہیں رہتی ہے اس خوبی کے باعث ان کی قدر و منزلت اور عزت ہونا چاہئے مگر ہمیں جو نظر آتا ہے وہ اس کے برعکس ہے ان کو نہ صرف یہ کہ بے وقوف اور الّو سمجھا جاتا ہے بلکہ ان کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے۔
اس حقیقت کا اندازہ ہمیں دیہات میں پیشہ وروں کے حوالے سے مشہور لطیفوں اور کہانیوں سے ہوتا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جاگیردار کاشتکار،چوکیدار اور باڈی گارڈ سمیت سماج کے تمام طبقات کے اختیارات اپنے پاس رکھنے کا خواہاں ہوتا ہے۔
پشتون سماج میں یہ صورت حال نہایت واضح ہے کاشتکار اورنائی دونوں محنت کش ہیں مگر دو پشتونوں میں جھگڑا ہوتا ہے اور بنظر حقارت دیکھتے ہوئے ایک دوسرے کو گالی دیتا ہے تو اس سے سماج میں پیشوں اور پیشہ وروں کے حوالے سے پائے جانے والے خیالات کا پتہ لگ جاتا ہے۔
د نایی بچیہ
نائی کے بچے
دجاڑو مار زویہ
خاکروب کے بیٹے
کی گالیاں اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ جاگیردار طبقہ کے زیر سایہ دیہات میں پیشہ وروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
ان ہی دیہات اور سماج میں جی دار،جفاکش،جان نثار، غیور،پاگل، بکاؤ مال اورحریص کے الفاظ ، محاورات اورضرب الامثال پائے جاتے ہیں کس معاشرے میں کون سے الفاظ کی تکرار کا عمل جاری رہتا ہے اس سے اس کے باسیوں کی ذہنی ارتقاء کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
پاکستان کا حکمران طبقہ 68برسوں میں قبائلی علاقہ جات سے ایف سی آر کا خاتمہ نہیں کررہا ہے اور ساتھ ہی قبائل کو غیور کہتے اور لکھتے ہوئے بھی نہیں تھکتا ہے ایک دیہہ میں بہادر،جان نثار اور غیور کے الفاظ کثرت سے بولے جاتے ہوں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کاجاگیردار پاس پڑوس کی دولت کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھتا رہتاہے اور وہ اپنے علاقے کے باسیوں کی جنگجویانہ ذہنیت پیدا کرنا چاہتا ہے
ایک دیہہ اور بڑے صنعتی شہر میں بولے جانے والے الفاظ اور موضوعات کو اکھٹا کیا جائے توان میں ایک کھلااور واضح فرق نظر آجاتا ہے دیہہ میں بہادر،جان نثار اور غیور کے الفاظ جتنی کثرت سے بولے جاتے ہیں وہ شہر میں نہیں ملتے ہیں یا کم کم ملتے ہیں اور معنی بھی بدل لیتے ہیں ایک قبائلی کو غیور بولو یا لکھ دو تو وہ بندوق پر گرفت مضبوط کرکے تن کر کھڑا ہوجائے گا مگر صنعتی شہر میں بولنے سے وہ شخص جواب دے گا:۔
’’جاؤ بھئی کسی اور کو بے وقوف بناؤ‘‘
جدید سائنسی تعلیم ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے ایک تعلیم یافتہ کسی ادارے میں بھرتی ہوتا ہے وہ شب وروز جان مارتا ہے تو آفیسراسے مجبور یا پھر بے وقوف سمجھتا ہے اور عام طور پر ایک کام چور کو ترقی دے کر اس کا افسر بنادیتا ہے ۔
اسی طرح محکمہ کسٹم اور محکمہ پولیس میں ایک دیانت دار اور فرض شناس افسر اوراہلکار کو منافع بخش جگہ پر نہیں لگایا جاتا ہے یہ پوسٹ ان کو نصیب ہوتی ہے جو ملی بھگت کرنا جانتے ہوں۔
بے وقوف اور عقل مند کے ان دو الفاظ کا بھی یہی حال ہے ان کے ذریعے ایک مالک نوکروں کو ان کاموں کی جانب راغب کرتا ہے جس سے اس کو فائدہ پہنچتا ہو اور ان سے روکتا ہے جس سے اسے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہو۔
♠