پاکستان کابکاؤ میڈیا اور ” پے رول ” مبصرین کی جانب سے بڑے زور شورسے عوام کو بتا یا جارہا ہے کہ سندھ میں مشرّف دور کے سابق وزیرِ داخلہ وسیم اختر نے 12مئی 2007 کے بارے میں اقبالی بیان دے دیا ہے۔ اقبالی بیان میں وہی باتیں دہرائی گئی ہیں جو پولیس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی تحویل میں دہشت گرد ، بھتہ خور ، ٹارگٹ کلرز وغیرہ اپنے اقبالی بیانوں میں میڈیا پر کہتے ہیں ۔ غیر جانبدار میڈیا اور غیر جانبدار مبصرین جو آٹے میں نمک کے برا بر ہیں اپنی نوکری کی پرواہ کیے بغیر پولیس کے پرچے کے ساتھ وسیم اختر کا دستخط شدہ وہ خط بھی دکھا رہے ہیں جس میں اس بات کی تردید موجود ہے کہ سابق وزیرِ داخلہ وسیم اختر نے ایسا کوئی اقبالی بیان دیا ہی نہیں ہے۔
سانحہ بارہ مئی 2007 کو گذرے آج نو سال ہوچکے ہیں۔ ہر سال وکلاء برادری اور دیگر سیاسی جماعتیں اس سانحے کے ذمّہ داران کو گرفتار کرکے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ مگر یہ مطالبہ کرتے ہوئے ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں اور وکلاء برادری ، صرف اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کا رونا اور من پسند انصاف کی فراہمی کا مطالبہ تو کرتی ہوئی تو نظر آتی ہیں ، مگر اس منظر نامے میں ہونے والی پوری ناانصافیوں ، تمام تر ظلم و تشدّد کی بات کرتاہوا کوئی نظر نہیں آتاہے۔
الیکٹرانک میڈیا پر ضمیر فروش صحافی ، لفافہ اینکرز، اور سوشل میڈیا پر موجود سیاسی جماعتوں کے کارندےاور دیگر لوگ بارہ مئی کو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ بارہ مئی 2007 کو اس خون ریزی کا آغاز اس وقت ہوا جب اس وقت کے معطل شدہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کرنے کے لئے کراچی پہنچے تھے، جہاں انہیں اس وقت کی حکومت نے ہوائی اڈے سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی تھی، اور اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کو عدلیہ کی بحالی کی تحریک کا سامنا تھا۔
بارہ 12 مئی کو معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد کے موقعے پر ان کی حمایت اور مخالفت میں ریلیاں نکالی گئی تھیں، اس موقع پر متحرّب گروپوں میں تصادم ہوا تھا۔ بارہ مئی کو مسلح سیاسی گروہوں کا آپس میں تصادم باون(52) انسانی جانیں لے گیا تھا ، اس روز تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی کارکنوں کے خون کی قیمت پر اپنا اپنا سیاسی ایجنڈا بھی چمکالیا ، اور سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ سیاسی جماعت ایم کیو ایم کو ایک دہشت گرد تنظیم کے روپ میں پیش کرکے، اُس کو اِس واقعہ کا ذمّہ دار اور اپنے آپ کو معصوم اور فرشتہ بھی ثابت کر دیا ۔
ہماری نظر میں انصاف کی فراہمی کا مطالبہ درست ہے، اصولی طور پر اسے ہونا بھی چاہئے کہ انسانی جانوں کا زیاں بہرحال ناقابل تلافی جرم ہے۔ کچھ لوگ اسے پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن بھی گردانتے ہیں، لیکن ایسا مفروضہ صرف وہی لوگ گھڑ سکتے ہیں جو تاریخ سے نا واقف ہیں۔ یا انہوں نے تاریخ کو دانستہ طور پر بھلادیا ہے۔ یا پھر تاریخ یاد رکھنا ان کا منشا ہی نہیں ہے ۔
بارہ مئی ہماری تاریخ کا اکلوتا سیاہ دن نہیں، ہماری خونی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہماری تاریخ میں ایسی سیاہ راتیں بھی ہیں جب مارنے والوں کو ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ریاستی پشت پناہی بھی حاصل تھی، جبکہ مرنے والے بالکل نہتے یا اپنے اپنے گھروں میں نیند کی وادیوں میں کھوئے ہوئے معصوم خاندان تھے جن پر اچانک قیامتیں ٹوٹ پڑی تھیں ۔
آئیے اس تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ امید ہے کہ کچھ زندہ ضمیر اور اہلِ نظر اس تاریک ماضی پر ایک نظر ڈال کر اس بات اقرار کریں کہ صرف ایک بارہ مئی ہی ہماری تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب نہیں بلکہ ہماری تاریخ ایسے لاتعداد ابواب سے بھری پڑی ہے، جن کا ذِکر صرف اس لئے نہیں کیا جاتا کہ مرنے والے مہاجر تھے، معمولی کیڑے مکوڑے تھے، انسان نہیں تھے۔ اگر ہم کرو نولوجیکل آرڈر میں اپنی تاریخ میں بارہ مئی سنہ2007 کے واقعے سے پیچھے کی طرف چلیں تو ہم دیکھیں گے کہ ہماری قومی تاریخ ، نادیدہ ریاستی طاقتوں کے اشارے ، منشا اور حمایت کی بناء پر کیسے کیسےمعصومین کے خون سے رنگی گئی ہے۔ ہمارےریاستی اداروں کے ہاتھ اپنی ہی عوام کے خون سے رنگین ہیں۔
پچیس 25مئی، 26 مئی اور 27 مئی سنہ 1990 ،سانحہء پکا قلعہ حیدرآباد کا واقعہ جس میں 250 سے زائد بے گناہ مرد ، عورتوں اور بچّوں کو صرف پکا قلعہ حیدر آباد کے علاقے میں چوبیس گھنٹے کے دوران موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ سینکڑوں گھر اور دکانیں لوٹ کر انہیں نذر آتش کردیا گیا جبکہ حیدرآباد چھاؤنی میں فوج بھی اندرون شہر موجود تھی۔ پورے حیدرآباد میں مسلسل 272 گھنٹے سے کرفیو کا نفاذ تھا فوجی دستے پورے شہر میں گشت کررہے تھے۔
اسی دوران سندھ کی نسل پرست صوبائی حکومت نے اندرون سندھ کے ڈکیتوں کو ایگل فورس نامی پولیس کی وردی پہناکر پکا قلعہ حیدرآباد میں داخل کردیا۔ اور جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری کے نام پر آپریشن شروع کرکے پکّا قلعہ حیدر آباد کے مہاجر گھروں پر قیامت برپا کردی کیا گیا ۔ 272 گھنٹوں کے اس کرفیو کے دوران تمام علاقے کی بجلی گیس اور پانی پہلے سے بند تھا ۔اس ایگل فورس نے اُن عورتوں اور بچوں کے خون سے اس آپریشن کا آغاز کیا جو اپنے ہاتھوں میں قرآن اٹھائے سڑکوں پر موجود تھے کہ خدارا گیس اور پانی فراہم کرو کہ ہمارے بچے مررہے ہیں۔
آخر ستائیس مئی کی شام جب بقیہ اہل حیدرآباد تک یہ ہولناک خبر پہنچی تو وہ کرفیو کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں حیدرآباد کی سڑکوں پر اترآئے اور فوج کو بہ امرِ مجبوری یہ خونریزی رکوانی پڑی ورنہ شاید پکّا قلعہ حیدرآباد میں ایک بھی زندہ نفس مہاجر نہ بچنا تھا ۔ یہ دن بھی یومِ سیاہ نہ تھا کیونکہ یہ خونِ مہاجر تھا۔
30 ستمبر 1988، کا دن اہالیانِ حیدرآباد پر ایک قیامت کی صورت میں نازل ہوا ۔ مہاجر اپنی تاریخ میں اسے ‘بلیک فرائیڈے‘ بھی کہتے ہیں۔ سندھ کی ایک قوم پرست تنظیم کے سربراہ اور ایک اشتہاری ڈاکو جانو آرائیں کی سربراہی میں حیدرآباد کی سڑکوں پر تین گھنٹے بلا امتیاز، بلا اشتعال ،کلاشنکوف بردار پجیرو گاڑیوں سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی، معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 250 افراد مارے گئے۔۔ اس قتل و غارت کے ذمہ داران آج بھی کھلے عام اپنی سندھی قوم پرست سیاست میں مصروف ہیں۔ لیکن یہ یوم سیاہ بھی تو نہیں کیونکہ یہ مہاجروں کا خون تھا۔
چودہ اور پندرہ دسمبر 1986 کا دن اہل کراچی کبھی نہیں بھلا سکیں گے ۔ جب منگھوپیر کی پہاڑیوں کے دوسری طرف ، علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی کو پورے کراچی سے کاٹ کر مہاجر بستیوں کو محاصرے میں لے کر بدترین قتل عام کیا گیا تھا۔ چار سو نہتے لوگوں کو ان کے گھروں میں گھس کر مارا گیا۔ مسلسل دو دن وحشت و بربریت کا یہ کھیل جاری رہا۔ پورا اورنگی ٹاؤن اور قصبہ ٹاؤن ان دہشت گردوں کے محاصرے میں تھا۔ جنہیں بعد میں حکومت وقت اور ایجنسیوں کی ایماء پر سہراب گوٹھ پر قابض افغان منشیات فروشوں کا گروہ ظاہر کیا گیا۔ لیکن ریاست کی طرف سے نہ ان دو دنوں میں ان معصوم لوگوں کو بچانے کے لئے کوئ ردِّ عمل سامنے آیا نہ ہی بعد میں کبھی انہیں کوئی انصاف مل سکا۔ یقیناً سیاہ دن تو یہ بھی نہ تھا کہ مہاجر مرے تھے۔
پندرہ اپریل 1985 کو بشریٰ زیدی نام کی ایک طالبہ کے ٹریفک حادثے میں ہلاک ہونے کے بعد مشتعل طلبا کے اجتماع پر پولیس کی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں دس سے پندرہ طلبا ہلاک ہوئے۔ اس حادثے کے بعد شروع ہونے والے ہنگاموں کو لسانی رخ دے کر مزید بھڑکایا گیا اور ایک بار پھر کراچی خون میں نہلادیا گیا۔ فسادات کے تھمتے تھمتے تقریباً 188 لوگ جاں بحق ہوئے۔۔ یہ بھی یومِ سیاہ نہ تھا ۔
چار جنوری 1965 ، فیلڈ مارشل ایّوب خان کے بیٹے گوہر ایوب کی قیادت میں اجرتی قاتلوں کے ٹولے نے انتخابات میں ایّوب خان کی مخالفت اور محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کے جرم کراچی کی مہاجر بستیوں پر رات کی سیاہی میں حملہ کردیا، 150 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے جنہیں کسی سرکاری ہسپتال سے طبی امداد نہ دی گئی کہ یہ لوگ ریاستی معتوب تھے، مہاجر تھے پاکستان کے شہری نہ تھے ۔سینکڑوں گھر جلا کر ان میں رہنے والے خاندانوں کو بےگھر کردیا گیا۔ براہ مہربانی اسے بھی یوم سیاہ نہ کہا جائے۔ کیونکہ یہاں بھی صرف مہاجر مرے تھے۔
اوپر بیان کی گئی تاریخ میں ایک دن بھی ہرگز ہرگز یوم سیاہ نہیں کہلایا جاسکے گا کیونکہ جن کے خون کا ذکر کیا گیا ہے ، وہ سب مہاجر تھے، جن کے بزرگوں اور خود انہوں نے پاکستان بنانے کا جرم کیا تھا، ہجرت کی تھی، اپنا گھر بار زمینیں جائیدادیں چھوڑی تھیں۔ قربانیاں دی تھیں۔ مگر یہ سب کے سب کیڑے مکوڑے تھے۔ انسان تو صرف بارہ مئی 2007 کو مرے تھے۔ تاریخی واقعات کے اس کرونولوجیکل آرڈر کے تناظر میں ہمارا پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور وکلاء برادری، الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے ضمیر فروش صحافیوں ، لفافہ اینکرز، اور سوشل میڈیا پر موجود سیاسی جماعتوں کے کارندوں اور دیگر لوگوں سے صرف ایک سوال ہے کہ کیا پاکستان کی تاریخ میں صرف یہ ہی ایک یومِ سیاہ ہے؟
♣
One Comment