آصف جیلانی
آغا ناصر سے میری یاری 63سال پہلے اس زمانہ میں شروع ہوئی جب ہم دونوں سندھ مسلم کالج کراچی میں طالب علم تھے۔آغا کی تخلیقی اور انتظامی صلاحیتوں کو ان کے ساتھیوں نے اسی زمانہ میں پہچان لیا تھا۔ اس زمانہ میں سندھ مسلم کالج کے ایک تکونی سرے پر بنے سیمنٹ کے تالاب کو ہم خیال طلباء کی سنگت کے لئے منتخب کیا تھا۔ یہ تالاب خشک تھالیکن اس کی منڈیروں پر بیٹھنے والے طلباء کے ذہن خیالات اور نظریات کے سمندر سے موجزن تھے۔
آغا نے اس تالاب کے گرد ان سب کو جمع کیا جن کے نام Aسے شروع ہوتے تھے۔ یوں یہ گروہ Aکلب کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اس میں ، احمد مقصود حمیدی ،عاصمی، ابوالفضل ، پیارا شاعر اطہر صدیقی جو اسی زمانہ میں انتقال کر گیا اور آصف کی مناسبت سے میں بھی شامل تھا۔میر جمیل الرحمان اور سلمان فاروقی سمیت کئی اور طلباء نے اپنے نام کے سامنے احمد لگا کر اس گروہ میں شامل ہونے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اس تالاب کے گرد بیٹھ کر ہم اس زمانہ کے طالب علموں کے سنگین مسائلکے ساتھ دنیا جہاں کے پر آشوب حالات پر غور کرتے تھے۔
پھر آغا کی تحریک پر سندھ مسلم کالج میں بزم ادب کی بناء ڈالی گئی جس کے ہر ہفتہ اجتماع کے لئے کالج کے عملی پرنسپل کوہاٹی صاحب سے لڑ جھگڑ کر اساتذہ کا کامن روم حاصل کیا گیا۔ اس بزم کی بدولت اس زمانہ میں بہت سے طلباء نے وجدان حاصل کر کے اپنا تخلیقی سفر شروع کیا تھا۔ اس کا ثواب آغا کو جاتا ہے۔
پھر ہم سب 1956میں گریجویشن کرنے کے بعد سول ہسپتال کے عقب میں دو پرانی عمارتوں میں کراچی یونیورسٹی میں منتقل ہو گئے۔ یہ عجیب زمانہ تھا۔ قیام پاکستان کے اس ابتدائی دور میں تقسیم کے نتیجہ میں اکھڑے ہوئے لوگ ، نئے وطن میں قدم جمانے کے لئے کوشاں تھے۔ یونیورسٹی کے طلباء بھی اس جدوجہد میں ان کا ساتھ دے رہے تھے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار میں مصروف تھے۔
عالم یہ تھا کہ کراچی یونیورسٹی میں لیکچرز صبح سویرے آٹھ بجے شروع ہوتے تھے اور دس بجے تک یونیورسٹی طلباء سے خالی ہوجاتی تھی۔ سوائے سائنس کے گنے چنے طلباء کے۔بیشتر طلباء حکومت کے AGPRکے دفتر میں ملازم تھے۔ آغا کو ریڈیو پاکستان میں جگہ مل گئی تھی اور میں روزنامہ امروز سے منسلک تھا۔ آغا کو ریڈیو پاکستان میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا خوب موقع ملا۔ انہوں نے اس زمانے میں بچوں کے پروگرام کو نیا روپ دیااور اس میں بچوں کے اخبار کا سلسلہ شروع کیا ۔ اخبار سے منسلک ہونے کی بناء پر یہ کام آغا نے میرے سپرد کیا اور اصل یہیں سے میں براڈکاسٹنگ سے متعارف ہوا۔
آغا نے اس زمانہ میں ریڈیو پاکستان سے ۔اسٹوڈیو نمبر ۹ کے عنوان سے ڈراموں کا سلسلہ شروع کیا جو بے حد مقبول ہوا۔ ہر اتوار کو ان کے زیر ہدایت سلسلہ وار پروگرام حامد میاں کے ہاں نشر ہوتا تھا۔ 1964 میں جب پاکستان ٹیلی وژن کا آغاز ہوا تو اس کے پہلے سربراہ اسلم اظہر کی نگاہ انتخاب آغا ناصر پر پڑی اور یوں آغا کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو وسعت دینے اور اپنا لوہا منوانے کا موقع ملا۔ ان کے زیر ہدایت الف نون کا سلسلہ بے حد مقبول رہا ۔
اسی دوران آغا نے سات ڈراموں کا مجموعہ شائعکیا۔ فیض صاحب سے آغا کو بے پناہ عقیدت تھی جو ان کی تصنیف’’ہم جیتے جی مصروف رہے‘‘ سے عیاں ہے۔ یہ آغا کی صلاحیتیں تھیں کہ وہ اسلم اظہر کے بعد ٹیلیوژن کے سربراہ کے عہدہ پر فائز ہوئے۔
آغا جب بھی لندن آتے ، ساٹھ سال پہلے کے کالج اور یونیورسٹی کے زمانے کی یادیں تازہ کرنے کا موقع ملتا۔ ان یادوں کے ذکر پر اس افسوس کی پرچھائیاں چھائی رہتی تھیں کہ ہماری نسل کو یونیورسٹی کی وہ زندگی میسر نہ ہو سکی جو ہم سے پہلے کی نسلوں اور بعد کی نسلوں کو حاصل ہوئی لیکن اس کے باوجود یہ احساس طمانیت ہمیں روشن رکھتا تھا کہ اس نسل نے محنت و مشقت سے نئے ملک میں اپنے قدم جمائے اور اپنے اپنے شعبہ میں اہم کام انجام دئے۔
♥