اجمل کمال
۔’’فسادات اور ہمارا ادب‘‘ میں عسکری نے اپنی بنائی ہوئی تعریف کے لحاظ سے منٹو کو پاکستانی ادب کی ایک روشن مثال قرار دیا تھا۔ منٹو نے ان کی بات کو کوئی اہمیت نہ دی کیونکہ وہ یہ معقول رائے رکھتے تھے کہ اردو ادب کا بھلا اس میں ہے کہ نقاد جو کچھ کہیں اس کا الٹ کیا جائے۔ بزعم خود منٹو کا مربی بن جانے کے بعد عسکری نے ان سے وقتاً فوقتاً جو توقعات وابستہ کیں انھیں آپ عسکری کی سادہ لوحی بھی سمجھ سکتے ہیں اور منٹو کی حسِ مزاح کا کرشمہ بھی۔ دیکھیے منٹو نے عسکری کو اپنے بارے میں کیسی خوش اندیشیوں میں مبتلا کیے رکھا:۔
۔’’۔۔۔پچھلے سال منٹو صاحب نے متعدد کوششیں کیں کہ ترقی پسندی کے مروجہ تصور کو بدلا جائے اور ادیب اسلام کو اپنے تصور حیات کی اساس بنائیں اور اسلامی اصولوں کی بنیاد پر سماجی اور معاشی انصاف کا مطالبہ کریں۔ منٹو صاحب ادیبوں سے گھنٹوں اس بات پر جھگڑتے رہے ہیں کہ ہمارے لیے خالی انسانیت پرستی کافی نہیں ہے، ہمیں انسان کا وہ تصور قبول کرنا ہو گا جو اسلام نے پیش کیا ہے۔ منٹو صاحب نعروں سے ایسا ڈرتے ہیں کہ اب ان کے ذہن میں خالی نعروں سے مطمئن ہو جانے کی صلاحیت بہت کم رہ گئی ہے۔ چنانچہ میں اپنی ذاتی واقفیت کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ ان کی گرم جوشی لفظوں تک محدود نہیں تھی۔ اس زمانے میں خلافت راشدہ کا تصور اس طرح ان کے دماغ پر مسلط تھا کہ وہ چاہتے تھے بس آج ہی پاکستان خلافت راشدہ کا نمونہ بن جائے اور سارے صاحب اقتدار لوگ حضرت عمر کی تقلید کرنے لگیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ پاکستان محض رہنماؤں کی دانش مندی کے طفیل نہیں ملا ہے بلکہ پوری قوم کی متحدہ قوت اور عوام کے جذبۂ ایثار کی بدولت حاصل ہوا ہے۔ لہٰذا انہوں نے چند ایسے افسانے بھی سوچے تھے جن میں یہ دکھایا گیا تھا کہ ہمارے عوام میں اپنی مدد آپ کرنے کی صلاحیت اور تخلیقی اہلیت کتنی زبردست ہے۔ مگر اتفاق سے انہی دنوں منٹو صاحب اپنی فلم میں مصروف ہو گئے اور وہ افسانے لکھے نہیں۔‘‘ (’’جھلکیاں‘‘ جون ۱۹۴۹)۔
۔’’۔۔۔آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ منٹو صاحب ایک ایسا ادبی تجربہ کرنا چاہتے ہیں جس کی توقع عام پڑھنے والوں کو ان سے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ وہ ایک ایسا افسانہ لکھنا چاہتے ہیں جو شروع سے آخر تک لفظوں کا کھیل ہو۔ ان کا خیال ہے کہ ضلع جگت، رعایت لفظی وغیرہ قسم کی چیزیں جو پہلے ہمارے ادب میں رائج تھیں، اب انہیں پھر سے رواج دینا چاہیے اور ان سے نئے نئے کام لینے چاہییں (یہاں یہ تصریح ضروری ہے کہ منٹو صاحب کے ذہن میں یہ خیال جوئس کی کتاب پڑھ کر پیدا نہیں ہوا)۔ چنانچہ منٹو صاحب اکثر افسوس کرتے ہیں کہ لغت سے میری واقفیت اتنی محدود کیوں ہے، ورنہ میں ایک ایک لفظ کو الٹ پلٹ کر کئی کئی معنوں میں استعمال کیا کرتا۔ منٹو صاحب کے اس رجحان کا اظہار ابھی تک صرف ادھر ادھر فقروں میں ہوا ہے، پورے پیمانے پر نہیں ہوا۔۔۔ ان باتوں کے علاوہ منٹو صاحب ایک تجربہ یہ کرنا چاہتے تھے کہ چند افسانے ایسے لکھیں جن کا صریحی مقصد تعمیری ہو اور جن میں قوم کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا گیا ہو بلکہ ایک دفعہ تو ان کا ارادہ ہوا تھا کہ اقبال کے مشورے پر عمل کریں اور صحابۂ اکرام کی زندگی سے واقعات لے کر ان کی مدد سے افسانے لکھیں، لیکن سال بھر سے انہوں نے کچھ لکھا ہی نہیں ہے۔ (’’جھلکیاں‘‘، جنوری ۱۹۵۰)۔
کہیے، اس منٹو کی شکل آپ کی پہچان میں آتی ہے؟ نہیں آتی تو آپ ’’یاروں کو تجھ سے منٹو کیا خوش گمانیاں ہیں!‘‘ کہہ کر قہقہہ لگا سکتے ہیں یا اگر عسکریت بہت زور مارے تو ’’تیرے منھ پر جھوٹ بولوں تو کیا دے گا‘‘ قسم کا فقرہ چست کر سکتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ عسکری کی جوانی چائے کی پیالی میں ڈبکیاں کھانے میں بیت گئی، کبھی مےخانے کے قریب سے گزر ہوا ہوتا تو اندازہ بھی ہوتا کہ رندانِ خانہ خراب واعظ کو کیسا بناتے ہیں۔
بہرحال، جون ۱۹۴۹ کی ’’جھلکیاں‘‘ میں عسکری مزید لکھتے ہیں:۔
۔’’ابھی تک منٹو صاحب ایسا ادب تو پیش نہیں کر سکے جو کھلم کھلا پاکستانی ہو۔ غالباً ان جیسے فن کار کے لیے مناسب بھی نہیں ہے کہ وہ نعروں کو پھیلا پھیلا کر افسانے بنائیں۔ میری مراد اس سے یہ ہے کہ ہمارے بیشتر ادیب نعروں کے بغیر چونکتے ہی نہیں، اس لیے ادب میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہونے سے پہلے شاید تھوڑی سی نعرہ بازی لازمی ہے۔ …بہرحال منٹو صاحب نے ابھی تک افسانوں میں نعرے لگانے سے گریز کیا ہے‘‘۔
عسکری کے اس اعتراف کو منٹو کے لیے خراج تحسین سمجھنا چاہیے کہ انھوں نے عسکری کے تجویز کردہ نسخے کے مطابق لکھنے کو فراڈ جانا اور اس میں شریک ہونے سے گریز کیا۔عسکری کا مرغِ دست آموز بننے کے بجاے انھوں نے اپنے تخلیقی ضمیر کی پیروی کی اور ’’موتری‘‘، ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘، ’’یزید‘‘، ’’دوقومیں‘‘، ’’شہید ساز‘‘، ’’ٹیٹوال کا کتا‘‘، ’’آخری سلیوٹ‘‘، ’’۱۹۱۹ء کی ایک بات‘‘، ’’موذیل‘‘، ’’بابو گوپی ناتھ‘‘ اور ’’نطفہ‘‘ جیسے افسانے لکھے۔ یوں تو عسکری اور ممتاز شیریں پر منٹو کے وقیع ترین نقاد ہونے تک کا بہتان لگا دیا جاتا ہے لیکن ان میں سے کسی کے ہاں منٹو کے ان افسانوں کے سیاسی معنی دریافت کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کا بھی سراغ نہیں ملتا۔
عسکری کا کہنا ہے کہ جنوری ۱۹۴۹ سے جنوری ۱۹۵۰ تک کے عرصے میں منٹو نے کچھ لکھا ہی نہیں تھا۔ اس بارے میں میرے پاس کافی معلومات نہیں ہیں۔ البتہ ۲۸ اکتوبر ۱۹۵۱ کو اپنے مجموعے ’’یزید‘‘ کے اختتامیے ’’جیب کفن‘‘ میں منٹو نے لکھا تھا:۔
۔’’بٹوارے کے بعد اب تک میں یہ کتابیں ترتیب وار آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں۔ ان سے آپ بہ طریق احسن میری دماغی کیفیات کا جائزہ لے سکتے ہیں: (۱) تلخ، ترش اور شیریں (۲) لذت سنگ (۳) سیاہ حاشیے (۴) خالی بوتلیں خالی ڈبے (۵) ٹھنڈا گوشت (۶) نمرود کی خدائی (۷) بادشاہت کا خاتمہ‘‘۔
اگر ’بٹوارے‘ کے بعد منٹو کو ان باتوں کا شوق ہوا ہوتا جو عسکری نے بیان کی ہیں تو یہ گمان کرنا غیرمعقول بات نہیں کہ ان آٹھ کتابوں میں سے کسی میں کہیں تو اس شوق کی جھلک دکھائی دے جاتی۔
منٹو کے بارے میں عسکری کی جو تحریریں ملتی ہیں ان میں افسانوں کے متن سے گریز کی دانستہ کوشش دکھائی دیتی ہے۔ عسکری کو معلوم تھا کہ ’’یزید‘‘، ’’ٹیٹوال کا کتا‘‘، ’’موذیل‘‘، ’’آخری سلیوٹ‘‘ اور دوسرے افسانوں سے جو معنی برآمد ہوتے ہیں وہ ان کی برانڈ کا ادب پیدا کرنے میں کسی طرح معاون ثابت نہیں ہوں گے۔ مگر خود انھی کے الفاظ میں، ’’رہا وہ ادب جو پیدا ہو چکا ہے تو اس سے نبٹنے کے لیے پیشہ ور نقاد موجود ہیں۔ وہ بڑے سے بڑے ادب کی ایسی تشریح کرتے ہیں کہ شکل پہچاننے میں نہیں آتی‘‘۔
منٹو کی تحریروں کی ایسی تشریح عسکری کے ہاں ۱۹۴۷ کے بعد جابجا ملتی ہے، لیکن ان کی سب سے بڑی فتح یہ تھی کہ انھیں منٹو کی کتاب ’’سیاہ حاشیے‘‘ کا دیباچہ بہ عنوان ’’حاشیہ آرائی‘‘ لکھنے کا موقع ملا۔ اس دیباچے کی طرف آنے سے پہلے منٹو کے مجموعے ’’چغد‘‘ کے دیباچے پر ایک نظر ڈال لینا شاید مفید ثابت ہو۔ منٹو نے اپنی اس تحریر میں ترقی پسندوں کی جانب سے انھیں غیرترقی پسند قرار دیے جانے کے احمقانہ اقدام پر اپنی کوفت کا اظہار کیا۔ منٹو کو اپنے غیرترقی پسند ٹھہرائے جانے پر بجا طور پر غصہ تھا۔ ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو منٹو کے بقول ’’نام نہاد‘‘ ترقی پسندوں نے صرف اس وجہ سے پڑھے بغیر مسترد کر دیا کہ اس پر عسکری نے دیباچہ لکھا تھا، جبکہ ’’ہتک‘‘ اور ’’کھول دو‘‘ کو نہ صرف ترقی پسندوں کی تحسین حاصل ہوئی تھی بلکہ یہ افسانے خود انھی نے شائع بھی کیے تھے۔ منٹو نے اپنا دیباچہ اس جملے پر ختم کیا ہے:۔
۔’’آخر میں مجھے یہ کہنا ہے کہ ’ترقی پسندی‘ سے مجھے کوئی کد نہیں لیکن نام نہاد ترقی پسندوں کی الٹی سیدھی زقندیں بہت کھلتی ہیں‘‘۔
۔’’سیاہ حاشیے‘‘ اپنی ہیئت کے اعتبار سے منٹو کی تمام کتابوں سے مختلف کتاب ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے طنزیہ پاروں پر مشتمل ہے جن میں منٹو نے کرداروں کو اس طرح تفصیل سے بیان نہیں کیا جس طرح وہ اپنے افسانوں میں کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر’’گورمکھ سنگھ کی وصیت‘‘ کے عنوان سے انھوں نے جو افسانہ لکھا، اسے اگر تفصیلات غائب کر کے ایک صفحے یا اس سے کم میں لکھا جاتا تو وہ آسانی سے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کا ایک حصہ بن سکتا تھا۔ طنزیہ پاروں کا یہ مجموعہ اپنی ساخت کے اعتبار سے منٹو کے افسانوں سے الگ سہی لیکن نفس مضمون کے لحاظ سے ان سے دور نہیں ہے۔
میری رائے میں ’’سیاہ حاشیے‘‘ کی معنویت تک پہنچنے کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ اس کتاب کو الگ الگ تحریروں کے مجموعے کے طور پر نہیں بلکہ بہت سے ٹکڑوں کو جوڑ کر بنائے ہوئے ایک مونتاژ کی صورت میں دیکھا جائے۔ مجھے علم نہیں کہ منٹو کے کسی نقاد نے یہ طریق کار اختیار کر کے منٹو کے اس ہیئتی تجربے کی معنویت دریافت کرنے کی تفصیلی کوشش کی ہے یا نہیں۔
بہرکیف، آئیے اس مسئلے کو فی الحال یہیں چھوڑ کر عسکری کے دیباچے کا جائزہ لیں۔ دیباچے کا پہلا فقرہ یہ ہے، ’’پچھلے دس سال میں نئے ادب کی تحریک نے اردو افسانوی ادب میں گراں قدر اضافے کیے ہیں۔۔۔‘‘ اسے پڑھیے اور دو برس پہلے کے اس فقرے کو یاد کیجیے جس میں عسکری نے نئے ادب کی ’’پچھلے دس سال‘‘ کی تمام پیداوار کو — ’’دوزخی‘‘ اور ’’ایک آدھ اور تحریر‘‘ کے سوا (’’جو اس وقت یاد نہیں آ رہی‘‘ تھی) — دریابُرد کرنے کے لائق قراردیا تھا اور اس گراں قدر رائے کا اظہار کیا تھا کہ ’’میٹھا برس لگتا ہے تو اسکول کی لونڈیاں تک ایسا ادب پیدا کرلیتی ہیں۔‘‘ ان دونوں گراں قدر رایوں کا درمیانی راستہ کہاں سے ہو کر گزرتا ہے، اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد پہلے پیراگراف کے تمام جملے اور اگلے دو پیراگراف فسادات کے اد ب کا موضوع نہ بن سکنے کے بارے میں عسکری کی انھی تعمیمات کی ’’حاشیہ آرائی‘‘ پر مشتمل ہیں جن کا دلکش مظاہرہ ہم ’’فسادات اور ہمارا ادب‘‘ میں دیکھ چکے ہیں۔ یہ کہنا غیرضروری ہے کہ اس بار بھی وہ کسی ادیب یا اس کے کسی گراں قدر یا بےقدر افسانے کے نام پر ٹھٹکے بغیر مندرجہ ذیل نتیجوں تک براہ راست پہنچ جاتے ہیں:۔
۔(۱) ’’اکثر و بیشتر‘‘ افسانوں کی محرک تخلیق کی اندرونی لگن نہیں تھی بلکہ خارجی حالات اور واقعات تھے۔ چونکہ نئے ادب کو دریابرد کرتے ہوے عسکری نے منٹو کی کسی تحریر کو بچانے کی کوئی خاص بےتابی نہیں دکھائی تھی اس لیے ہم فرض کرسکتے ہیں کہ ’’نیا قانون‘‘، ’’ہتک‘‘، ’’خوشیا‘‘، ’’دھواں‘‘، ’’بو‘‘ اور ’’کالی شلوار‘‘— سب کے سب یا ’’اکثر و بیشتر‘‘ — اسی الزام کے سزاوار ٹھہریں گے۔
۔(۲) ’’ہمارے افسانہ نگاروں‘‘ کی نشوونما خارجی دنیا میں ہونے والی باتوں پر منحصر ہے (اس بار عسکری نے ’’اکثر وبیشتر‘‘ کا تکلف بھی نہیں کیا)۔ عسکری کے خیال میں جب یہ نشوونما رک جاتی ہے تو ’’ہمارے افسانہ نگار‘‘ اپنے آپ کو یہ سوچ کر تسلی دے لیتے ہیں کہ خارجی دنیا میں کوئی ایسی بات ہو ہی نہیں رہی جس کے بارے میں لکھا جائے۔ خارجی دنیا میں ہونے والی وہ کون سی باتیں ہیں جن کے نہ ہونے سے ہمارے افسانہ نگاروں کی نشوونما رک جاتی ہے؟ عسکری کے اگلے فقرے میں اس کا جواب دیا گیا ہے:۔
’’چھ سات سال ہوئے میں نے اردو کے ایک افسانہ نگار کو جنہوں نے مفلسی، غلامی اور کشمیر کے متعلق افسانے لکھ لکھ کر خاصی مقبولیت حاصل کر لی تھی، یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ اگر جاپانی ہندوستانی پر حملہ کر دیں اور ملک میں کچھ گڑبڑ ہو تو ادب پہ بہار آئے۔‘‘
عسکری نے نام نہیں لیا لیکن اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے یہ بات کرشن چندر سے منسوب کی ہو گی جن کو وہ اپنے ۱۹۴۱ کے (یعنی آٹھ سال پہلے کے) مضمون ’’کرشن چندر، اردو ادب میں ایک نئی آواز‘‘ میں یہ کہہ کر داد دے چکے تھے کہ ’’اس نے کسی مخصوص تحریک یا نقطۂ نظر کو اپنے اوپر غالب نہیں ہونے دیا۔ نہ تو پرولتاریت کو، نہ جنس کو، نہ رومانیت کو۔ محض ترقی پسندی کو بھی نہیں۔‘‘
خیر، کرشن چندر کو جہنم رسید ہونے دیجیے، یہ دیکھیے کہ وہ کون سے خارجی واقعات ہیں جن کے ختم ہو جانے سے ہمارے افسانہ نگاروں کی نشوونما رک گئی: ’’مفلسی، غلامی اور کشمیر‘‘۔ پاکستان اور ہندوستان کو لوگ بلاوجہ اب تک غریب ملکوں میں شمار کرتے ہیں، عسکری کی ’’حاشیہ آرائی‘‘ تو یہ بتاتی ہے کہ مفلسی ۱۹۴۷ سے پہلے ہی ختم ہو چکی تھی۔ جاپانیوں کے حملے کا خطرہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مہربانی سے ۱۹۴۶ میں ٹل چکا تھا، اور ہندوستان اس وقت تک غالباً انگریزوں کا غلام تھا۔ غلامی ۱۹۴۷ میں عسکری کے خیال سے ضرور ختم ہو گئی، مگر منٹو اور بعض دوسرے ترقی پسند افسانہ نگار اور شاعر ہندوستان اور پاکستان کو ۱۹۴۷ کے بعد بھی غلام کہتے رہے اس لیے یہ موضوع ان کے ہاتھ سے تو نہیں گیا۔ ۳۱ دسمبر ۱۹۴۷ کو شروع ہونے والی پہلی پاک و ہند جنگ کے نتیجے میں کشمیر دو حصوں میں ضرور تقسیم ہو گیا لیکن افسانہ نگار کشمیر کی تصویر کے جن پہلوئوں پر افسانے لکھ لکھ کر مقبولیت حاصل کرتے تھے وہ تو غالباً بدستور ان کی دسترس میں رہے۔ اس تصویر کے جو نئے پہلو سامنے آئے ان پر اوروں کو تو چھوڑیے، خود منٹو نے ’’ٹیٹوال کا کتا‘‘ اور ’’جاؤ حنیف جاؤ‘‘ نامی افسانے لکھے۔
۔(۳) بہر حال، اس قیمتی نتیجے تک پہنچ کر کہ ’’مفلسی، غلامی اور کشمیر‘‘ کے موضوعات ختم ہو گئے اور افسانہ نگار اپنی نشوونما کے دوبارہ جاری ہونے کے لیے اطمینان سے بیٹھ کر خارجی واقعات کا انتظار کرنے لگے، عسکری اطلاع دیتے ہیں کہ قحط پڑجانے سے افسانہ نگاروں کی نشوونما پھر چل پڑی اور انھوں نے قحط پر افسانے لکھ لکھ کر شہرت بٹورنی شروع کر دی۔ عسکری نے یہ بات صاف صاف تو نہیں کہی لیکن غالباً فسادات کی طرح قحط بھی ادب کا موضوع نہیں بن سکتا ہو گا۔ یہاں میں آپ کو ایک بار پھر کرشن چندر کے بارے میں عسکری کے مضمون کی یاد دلاؤں گا جس میں انھوں نے کرشن چندر کی حقیقت نگاری کی مدح کی ہے:۔
۔’’کرشن چندر کے نزدیک حقیقت نگاری کے صرف ایک معنی ہیں، زندگی کی حقیقت کو جیسا کچھ اس نے سمجھا ہے اس کو بیان کردینا۔ یہاں بھی وہ اردو افسانوں کی عام روش سے بالکل الگ ہے۔۔۔ تقریباً ہمیشہ کرشن چندر کا موضوع سماج ہوتا ہے مگر اس کا مقصد اعدادوشمار جمع کرنا نہیں ہے۔۔۔ میں نے بار بار کہا ہے کہ کرشن چندر کے یہاں آپ کو وہ چیزیں نہیں مل سکتیں جو آپ دوسروں میں ڈھونڈتے رہے ہیں۔ نہ اس کے یہاں پلات کی خوبیاں ہیں، نہ کردارنگاری کی، نہ نفسیاتی تجزیے کی اور نہ حسین لفاظی ہے۔ اس کے یہاں ایک چیز ہے جو ان سب سے بلند ہے، زندگی۔ سچ تو یہ ہے کہ زندگی ایسی وسیع اور بسیط اور مبہم چیز ہے جو کسی کے ہاتھ نہیں آتی۔ آرٹسٹ کی معراج، جیسا کہ ہنری جیمس نے کہاں ہے، بس یہ ہے کہ۔۔۔‘‘۔
عسکری کی کچی عمر کی اس تحریر سے مزید اقتباسات پیش کر کے میں ان کے عقیدت مندوں کو خفیف اور آپ کو بیزار نہیں کرنا چاہتا۔ دیکھنے کی بات، جیسا کہ فلاں شخص نے کہا ہے، بس یہ ہے کہ میٹھا برس لگنے سے پہلے بھی عسکری کا طنطنہ وہی ہے گویا کل ہی رات عرفان حاصل ہوا ہو۔
۔(۴) چلیے، قحط بھی ختم ہوا۔ اب فسادات کی باری ہے جس کے بارے میں عسکری فرانسیسیوں کی کمک منگا کر ثابت کر ہی چکے ہیں کہ وہ ادب کا موضوع نہیں بن سکتے۔ شکر کا مقام ہے کہ اپنے اس بیان پر وہ اب تک قائم ہیں، یعنی کم سے کم دیباچے کے تیسرے پیراگراف تک۔
۔’’اور جب ۴۷ء کے فسادات ہوئے تو گویا اللہ میاں نے چھپر پھاڑ کے دیا۔ جی چاہے تو المیہ افسانہ لکھیے ورنہ طنزیہ مضمون ہو سکتا ہے۔انسان کی درندگی پر دانت پیسیے، سا مراج کی چالاکیوں کا پردہ چاک کیجیے۔ ان باتوں سے جی بھر جائے تو کچھ عورتوں کی بے حرمتی کے ذکر سے گرمی پیدا کیجیے۔ موقعے موقعے سے یہ دکھاتے چلیے کہ اس بہیمیت کے ساتھ ساتھ رحم دلی کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ پھر بھولا سا منہ بنا کر تعجب کیجیے کہ ہندو مسلمانوں کی عقل کو کیا ہو گیا۔ کل تک تو بھائی بھائی تھے، آج ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ہو گئے؟‘‘۔
یہاں بھی عسکری نے کوئی نام نہیں لیا لیکن فسادات کے موضوع پر لکھے جانے والے افسانوں کے نفس مضمون کے بارے میں کچھ اشارے ضرور کیے ہیں۔ آئیے ان اشاروں کی مدد سے کچھ افسانوں کو پہچاننے کی کوشش کریں۔ بیدی اور منٹو کا ’’جی چاہا‘‘ تو انھوں نے ’’لاجونتی‘‘ اور ’’کھول دو‘‘ لکھ دیے جو اگر المیہ افسانے نہیں ہیں تو پھر میں نہیں جانتا کہ المیہ افسانے کیا ہوتے ہیں۔ طنزیہ مضامین کا ذکر تو آگے آئے گا لیکن ’’موتری‘‘ کے عنوان سے ایک طنزیہ افسانہ لکھنے کا موقع منٹو کو خوب ملا۔ انسانوں کی درندگی پر دانت پیستے ہوے بھی منٹو کو ’’مرلی کی دھن‘‘ کے اس اقتباس میں دیکھا جا سکتا ہے جو اوپر درج کیا گیا ہے۔ سامراج کی چالاکیاں بھی آپ ضرور دیکھنا چاہیں گے۔ دیکھیے:۔
۔’’برطانوی سامراج کی حکمت عملی نے وہ شاطرانہ چال چلی کہ ٹھنڈے سے ٹھنڈے دماغوں کو بھی سوچنے کا موقع نہ ملا۔ ہندوستان کو اس چابک دست جراح نے پتھر کی سرد سلوں پر لٹا کر چیرا پھاڑا، ایک سنگین سکون و اطمینان کے ساتھ اس کے حصے بخرے کیے اور یہ جا وہ جا۔ اور وہ جن کے تدبر، وہ جن کی دقیقہ رسی، وہ جن کی شاہیں نگاہی کی سارے عالم میں دھوم تھی، آنکھیں جھپکتے رہ گئے‘‘۔
یہ بھی منٹو ہے، مضمون کا عنوان ہے ’’محبوس عورتیں‘‘۔ اگر آپ چاہیں تو موقعے موقعے سے یہ بھی دیکھتے چلیے کہ اس بہیمیت کے ساتھ ساتھ رحم دلی کے نمونے بھی ملتے ہیں:۔
۔’’فسادات زوروں پر تھے۔ ایک دن میں اور اشوک بمبے ٹاکیز سے واپس آ رہے تھے۔ راستے میں اس کے گھر دیر تک بیٹھے رہے۔ شام کو اس نے کہا، ’چلو میں تمہیں چھوڑ آؤں۔‘ شورٹ کٹ کی خاطر وہ موٹر کو ایک خالص اسلامی محلے میں لے گیا۔ سامنے سے ایک برات آ رہی تھی۔ جب میں نے بینڈ کی آواز سنی تو میرے اوسان خطا ہو گئے۔ ایک دم اشوک کا ہاتھ پکڑ کر میں چلایا، ’دادامُنی، یہ تم کدھر آ گئے؟‘ اشوک میرا مطلب سمجھ گیا۔ مسکرا کر اس نے کہا، ’کوئی فکر نہ کرو‘۔
۔’’میں کیوں کر فکر نہ کرتا؟ موٹر ایسے اسلامی محلے میں تھی جہاں کسی ہندو کا گزر ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ اور اشوک کو کون نہیں پہچانتا تھا، کون نہیں جانتا تھا کہ وہ ہندو ہے؟ ایک بہت بڑا ہندو جس کا قتل معرکہ خیز ہوتا۔ مجھے عربی زبان میں کوئی دعا یاد نہیں تھی۔ قرآن کی کوئی موزوں ومناسب آیت بھی نہیں آتی تھی۔ دل ہی دل میں میں اپنے اوپر لعنتیں بھیج رہا تھا اور دھڑکتے ہوے دل سے اپنی زبان میں بےجوڑسی دعا مانگ رہا تھا کہ اے خدا مجھے سرخرو رکھیو، ایسا نہ ہو کوئی مسلمان اشوک کو مار دے اور میں ساری عمر اس کا خون اپنی گردن پر محسوس کرتا رہوں۔ یہ گردن قوم کی نہیں، میری اپنی گردن تھی مگر یہ ایسی ذلیل حرکت کے لیے دوسری قوم کے سامنے ندامت سے جھکنا نہیں چاہتی تھی“۔
۔’’جب موٹر برات کے جلوس کے پاس پہنچی تو لوگوں نے چلّانا شروع کر دیا۔ ’اشوک کمار۔۔۔ اشوک کمار!‘ میں بالکل یخ ہو گیا۔ اشوک اسٹیئرنگ پر ہاتھ رکھے خاموش تھا۔ میں خوف وہراس کی یخ بستگی سے نکل کر ہجوم سے یہ کہنے والا تھا کہ دیکھو، ہوش کرو، میں مسلمان ہوں، یہ مجھے میرے گھر چھوڑنے جا رہا ہے، کہ دو نوجوانوں نے آگے بڑھ کر بڑے آرام سے کہا، ’اشوک بھائی، آگے راستہ نہیں ملے گا۔ ادھر باجو کی گلی سے چلے جاؤ‘ ‘‘۔
عورتوں کی بے حرمتی کے ذکر سے گرمی پیدا کرنے کے الزام کا سامنا بھی منٹو نے چودھری محمد حسین کی عنایت سے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے سلسلے میں عدالتوں میں کیا۔ اشفاق احمد نے ’’گڈریا‘‘ میں ’’بھولا سا منھ بنا کر تعجب کرنے‘‘ کی کوشش کی کہ آخر یہ لوگ داؤجی کو کیوں مار ڈالنا چاہتے ہیں؟ ایسی ہی ایک کوشش کی مثال ہمیں ایک اور جگہ بھی ملتی ہے:۔
’’عرصہ ہوا جب تقسیم پر ہندو مسلمانوں میں خونریز جنگ جاری تھی اور طرفین کے ہزاروں آدمی روزانہ مرتے تھے، شیام اور میں راولپنڈی سے بھاگے ہوئے ایک سکھ خاندان کے پاس بیٹھے تھے۔ اس کے افراد اپنے تازہ زخموں کی روداد سنا رہے تھے جو بہت ہی دردناک تھی۔ شیام متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ ہلچل جو اس کے دل و دماغ میں مچ رہی تھی اس کو بھی میں بخوبی سمجھتا تھا۔ جب ہم وہاں سے رخصت ہوئے تو میں نے شیام سے کہا، ’میں مسلمان ہوں۔ کیا تمھارا جی نہیں چاہتا کہ مجھے قتل کر دو؟‘۔
۔’’شیام نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا، ’اس وقت نہیں۔۔۔ لیکن اس وقت جب کہ میں مسلمانوں کے ڈھائے ہوئے مظالم کی داستان سن رہا تھا، میں تمہیں قتل کر سکتا تھا‘۔
۔’’شیام کے منہ سے یہ سن کر میرے دل کو زبردست دھکا لگا۔ اس وقت شاید میں بھی اسے قتل کر سکتا تھا، مگر بعد میں جب میں نے سوچا کہ اِس وقت اور اُس وقت میں زمین آسمان کا فرق ہے کیا؟ تو ان تمام فسادات کا نفسیاتی پس منظر میری سمجھ میں آگیا جس میں روزانہ سینکڑوں بے گناہ ہندو اور مسلمان موت کے گھاٹ اتارے جا رہے تھے۔
۔’’اِس وقت نہیں۔۔۔ اُس وقت ہاں۔۔۔ کیوں؟ آپ سوچیے تو آپ کو اس کیوں کے پیچھے انسان کی فطری میں اس سوال کا صحیح جواب مل جائے گا۔‘‘۔
(’’مُرلی کی دُھن‘‘ از سعادت حسن منٹو)
ظاہر ہے یہ تمام تحریریں ادب کی تعریف سے خارج ہیں۔
۔(۵) اس کے بعد عسکری کہتے ہیں:۔
۔’’بس خطرہ یہ رہ جاتا ہے کہ کہیں آپ کے اوپر جانب داری کا الزام نہ آ جائے، تو وہ بھی ایسی مشکل بات نہیں۔ شروع میں اگر پانچ ہندو مارے گئے ہیں تو افسانہ ختم ہوتے ہوتے پانچ مسلمانوں کا حساب پورا ہو جانا چاہیے‘‘۔
یہ وہی بات ہے جو عسکری نے ’’فسادات اور ہمارا ادب‘‘ میں کہی ہے۔ ممکن ہے ان کے ذہن میں ’’حقیقت نگار‘‘ اور ’’زندگی کے شیدائی‘‘ کرشن چندر کا افسانہ ’’پشاور ایکسپریس‘‘ ہو۔ ایک بار میرا جی چاہا کہ عسکری کے اس خیال کی شماریاتی تصدیق کی جائے، لیکن لاشیں گننا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جو عسکری کے لفظوں میں ’’فی الحقیقت سنگ دل‘‘ ہو۔ بہرکیف، ممتاز شیریں نے یہ گنتی کی اور نہایت مسرت سے اطلاع دی کہ اس افسانے میں ’’ترازو بہت احتیاط سے پکڑی گئی ہے لیکن اس کے باوجود ایک پلڑا ذرا جھک گیا ہے اور غلط پلڑا‘‘،(!)۔ انھوں نے کانگریس کی ’’صحیح رپورٹ‘‘ کا حوالہ دے کر ثابت کیا کہ نواکھالی میں (مسلمانوں کے ہاتھوں) مارے جانے والوں کی تعداد ’’دو سو سے کچھ کم‘‘ تھی۔ لاشوں کی یہ ’’سنگ دلانہ‘‘ گنتی کسی تبصرے کی محتاج نہیں۔
ممتاز شیریں ’’پشاور ایکسپریس‘‘ کا احتیاط سے جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچتی ہیں:۔
۔’’یہ ترازو ایک تاریخی حقیقت کو جھٹلاتی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں فسادات کی شدت اور مظلومین اور مقتولین کی تعداد میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ادیب کو تو سچی سچی بات کہنی چاہیے اور چاہے کتنی ہی احتیاط برتی جائے دونوں پلڑے برابر رکھنا پھر بھی مشکل ہے۔ چنانچہ ’پشاور ایکسپریس‘ میں دونوں طرف اعداد کی گنتی برابر ہونے اور جمع تفریق سے پورا پورا حساب چکا دیے جانے کے باوجود ایک پلڑا پھر بھی بھاری نظر آتا ہے کیونکہ ریل گاڑی کے پاکستان کی سرحد پار کرنے کے بعد مظالم کا بیان پھیکا پڑ گیا ہے‘‘۔
ایک ناقص افسانے کے سلسلے میں کرشن چندر پر لگائے جانے والے الزامات سے ان کی مدافعت کرنے سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ نہ میرے پاس اعدادو شمار ہیں جن کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ ’’فسادات کی شدت اور مظلومین اور مقتولین کی تعداد‘‘ کس طرف زیادہ تھی اور کس طرف کم۔ تاہم، عسکری کے ایک اور پیرو (سابق پیرو؟) انتظار حسین کے شاہکار مضمون ’’فسادات کے افسانوں کا پروپیگنڈائی پہلو‘‘ (مشمولہ ’’ظلمت نیم روز‘‘ از ممتاز شیریں، مرتبہ آصف فرخی) سے پتا چلتا ہے کہ ان کے نزدیک کرشن چندر نے دراصل ’’مسلمان عورت کے کردار پر حملہ‘‘ کیا ہے اور ہندو دیومالا اور خصوصاً مہابھارت کے کرداروں کی مدد سے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان عورتوں کا کردار بہت پست ہے۔ ہندو دیومالا اور مہا بھارت کے سلسلے میں تو، کم از کم اردو کے ادیبوں کی حد تک، انتظار حسین کو حرفِ آخر کہنے کا حق حاصل ہو چکا ہے، چنانچہ اس سلسلے میں بحث کرنا بیکار ہے۔ البتہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس قسم کا ایک اعتراض منٹو کے افسانے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ پر اسلامی حمیت سے انتظار حسین کی طرح سرشار چودھری محمد حسین نے کیا تھا، ’’اس کہانی کی تھیم یہ ہے کہ ہم مسلمان اتنے بےغیرت ہیں کہ سکھوں نے ہماری مردہ لڑکی تک نہیں چھوڑی۔۔۔‘‘۔
انتظار حسین کہتے ہیں، ’’میں تو کرشن چندر کے ہر نئے افسانے کو راشٹریہ سیوک سنگھ کا ادبی بلیٹن سمجھ کر پڑھتا ہوں۔‘‘۔
اس قابل قدر جذبے پر منٹو نے یوں تبصرہ کیا ہے:۔
’’رات پھر اوٹ پٹانگ خواب دیکھتا رہا۔ شیام سے کئی بار لڑائی ہوئی۔ صبح دودھ والا آیا تو میں کھوکھلے غصے میں اس سے کہہ رہا تھا، ’تم بالکل بدل گئے ہو۔۔۔ الو کے پٹھے، ذلیل۔۔۔ تم ہندو ہو‘۔
’’نیند کھلی تو میں نے محسوس کیا کہ میرے منھ سے ایک بہت بڑی گالی نکل گئی ہے۔ لیکن جب میں نے خود کو اچھی طرح ٹٹولا تو میرا منھ نہیں تھا، سیاست کا بھونپو تھا جس سے یہ گالی نکلی تھی۔‘‘ (’’مرلی کی دُھن‘‘)۔
بہرحال، عسکری نے یہ خیال کہیں ظاہر نہیں کیا کہ اردو کے (ہندو؟) افسانہ نگار راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی دی ہوئی لائن کی پیروی میں لکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تمام ترقی پسند افسانہ نگار غالباً کمیونسٹ پارٹی سے ہدایات حاصل کرتے ہیں اور:۔
۔’’پہلا دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم سچ بولیں گے۔ مگر ساتھ ہی انہیں یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ نہ ہندو ناراض ہوں نہ مسلمان۔ غیرجانبداری کے معنی یہ لیے جاتے ہیں کہ ایک جماعت کو دوسری جماعت سے زیادہ قصوروار نہ ٹھہرایا جائے۔ یہ ادب ظلم، سنگ دلی اور بہیمیت کو مطعون کرنا چاہتا ہے مگر ظلم کہنے کی طاقت نہین رکھتا‘‘۔
میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ فسادات کے موضوع پر افسانے لکھنے والوں کو غیرجانبداری کا مجرم ٹھہرایا جا رہا ہے یا جانبداری کا۔ بہرحال، یہ نتیجہ شاید نکالا جا سکتا ہے کہ عسکری اور ہمنوا سمجھتے ہیں کہ فسادات میں مسلمان زیادہ مارے گئے ہیں اس لیے ان افسانہ نگاروں کو چاہیے کہ اس بات پر زور دے کر یعنی غیرجانبداری چھوڑ کر، ظلم کو ظلم کہنا سیکھیں۔
عسکری یا ان کے کسی شاگرد (یا شاگردہ )نے فسادات کے موضوع پر منٹو کی متعدد تحریروں اور خصوصا ’’سیاہ حاشیے‘‘ میں بکھری ہوئی لاشوں کا شمار کر کے یہ تصفیہ کرنے کی زحمت نہیں کی کہ ان ’’مظلومین اور مقتولین‘‘ میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے یا ہندوؤں اور سکھوں کی، اور یہ کہ منٹو ظلم کو ظلم کہنے میں کامیاب رہے ہیں یا نہیں؟
۔(۶) اس کے بعد عسکری ایک تازہ کلیہ پیش کرتے ہیں:۔
۔’’دراصل ادب کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ کون ظلم کر رہا ہے، کون نہیں کر رہا، ظلم ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا؟ ادب تو دیکھتا ہے کہ ظلم کرتے ہوئے اور ظلم سہتے ہوئے انسانوں کا خارجی اور داخلی رویہ کیا ہوتا ہے؟‘‘۔
عسکری کے موقف کے ان بےسروپا تغیرات (یا، منٹو کے الفاظ میں، ’’الٹی سیدھی زقندوں‘‘) سے کوئی مطلب اخذ کرنا دشوار ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ فسادات کے موضوع پر لکھنے والے کون سے ادیب ظلم کرتے اور سہتے ہوے انسانوں کا خارجی اور داخلی رویہ پیش کرتے ہیں اور کون سے اسی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں کہ ’’کون ظلم کر رہا ہے کون نہیں کر رہا، ظلم ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا ۔‘‘ ظلم کی شدت اور مظلوموں کی تعداد اِس طرف زیادہ ہے یا اُس طرف۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ ترازو کرشن چندر، بیدی اور منٹو کے ہاتھ میں ہے یا ممتاز شیریں اور انتظار حسین کے۔
۔ (۷) عسکری کا اگلا نکتہ یہ ہے کہ فسادات پر لکھنے والے افسانہ نگاروں نے ظلم سے نفرت دلانے کے لیے ’’اکثر‘‘ یہ طریقہ کار استعمال کیا ہے کہ ظلم ہوتا ہوا دکھا کر پڑھنے والوں کے دلوں میں دہشت پیدا کی جائے۔ مگر غیرمعمولی ظلم آج کل بےانتہا معمولی چیز بن گئے ہیں، اس لیے اس ذکر سے پڑھنے والوں کا تجسس تک بیدار نہیں ہوتا۔ ’’فسادات والے افسانے ادب نہیں تھے تو نہ ہوتے مگر وہ تو اپنا سماجی مقصد بھی ٹھیک طرح ادا نہیں کرسکتے، کیونکہ جو باتیں یہ افسانے پیش کرتے ہیں وہ تو اب خبریں بھی نہیں رہیں‘‘۔
میرا اندازہ ہے کہ انسانوں کے دو گروہوں کے درمیان فسادات جیسی کسی بھی بھیانک صورت حال کو موضوع بنا کر لکھنے والوں کو یہ مسئلہ ضرور پیش آتا ہو گا کہ وہ اپنی آواز میں یہ اثر کیونکر پیدا کریں کہ ان کی آواز ان واقعات کے المناک شوروشغب سے اوپر اٹھ کر سنائی دے سکے۔ غالباً یہ ایک فنی مسئلہ ہے اور ہر لکھنے والا اپنی صلاحیت اور فنی ترجیحات کے مطابق اس مسئلے کا حل نکالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فسادات کے موضوع پر جو تحریریں سامنے آئیں وہ اپنی اثرانگیزی اور کامیابی کے اعتبار سے یکساں نہیں ہیں۔ ادب کو پُراثر اور کامیاب بنانا اگر سماجی مقصد ہے تو ادبی مقصد بھی یقیناً ہے، اور میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ عسکری ان دونوں میں کس طرح امتیاز کرتے ہیں، کیونکہ انھوں نے اپنے فیصلے کی کوئی دلیل دینا ضروری نہیں سمجھا۔
۔(۸) دس صفحوں کی ’’حاشیہ آرائی‘‘ میں سے چار صفحے، فسادات کے موضوع پر کسی ایک بھی تحریر یا اس کے لکھنے والے پر براہ راست تبصرہ کیے بغیر، اس قسم کی بےبنیاد فتوے بازی میں صرف کردینے کے بعد عسکری آخرکار اس کتاب کے حرماں نصیب مصنف یعنی منٹو کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:۔
۔’’منٹو نے بھی فسادات کے متعلق کچھ لکھا ہے، یعنی یہ لطیفے یا چھوٹے چھوٹے افسانے جمع کیے ہیں۔‘‘۔
ہمیں عسکری کے اس قیمتی فقرے کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ منٹو کی پوری کتاب یا اس کے اجزا کی ہیئت کے بارے میں یہ واحد فقرہ ہے جو پورے دیباچے میں ملتا ہے۔ تاہم، مجھے اس بات میں شک ہے کہ اس فقرے میں پنہاں بصیرت منٹو کے اس فنکارانہ فیصلے کی وجوہ سمجھنے کے لیے کافی ہو گی جس کے باعث یہ کتاب ان کی گزشتہ کتابوں سے ہیئت کے اعتبار سے بہت نمایاں طور پر مختلف ہے۔ اس نکتے پر عسکری سے زیادہ ذہانت تو ممتاز مفتی کے اس تبصرے میں جھلکتی ہے جسے خود منٹو نے ’’سیاہ حاشیے‘‘ پر چار دوسرے تبصروں کے ساتھ اپنے رسالے ’’اردو ادب‘‘ میں شائع کیا (اس رسالے کی ادارت میں عسکری بھی منٹو کے ساتھ شامل تھے)۔ مفتی کے تبصرے میں ہمیں ’’سیاہ حاشیے‘‘ کی مخصوص ہیئت کے بارے میں یہ غیرمتوقع فقرے ملتے ہیں:۔
’’کئی اصحاب کا خیال ہے کہ یہ جھلکیاں مختصر افسانے ہیں۔ مجھے اس خیال سے قطعاً اتفاق نہیں، کیونکہ یہ تحریریں اکثروبیشتر انفرادی طور پر کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ میرے نقطۂ نظر سے یہ تمام جھلکیاں مل کر ایک مختصر افسانہ پیش کرتی ہیں۔ ایک تراشے ہوئے ہشت پہلو ہیرے کی طرح!‘‘۔
میں نہیں کہتا کہ یہ کوئی ایسی گہری بات تھی جس تک عسکری کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی تھی۔ ’’فن برائے فن‘‘ والے مضمون میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ عسکری اگر چاہیں تو لکھنے والے کے متن کی طرف متوجہ ہو کر اس میں سے کیا کچھ برآمد کرنے کی قدرت رکھتے ہیں (اتفاق کی بات ہے کہ ان کا یہ مضمون بھی ’’اردو ادب‘‘ کے اسی شمارے میں شائع ہوا)۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس ’’حاشیہ آرائی‘‘ میں انھیں منٹو کی کتاب سے نہیں بلکہ اس کے موضوع سے سروکار ہے اور وہ اس موضوع کے بارے میں اپنی تعمیمات پیش کرنے کی بےصبری میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا اگلا فقرہ منٹو کی تحریر کے نہیں بلکہ اس کے موضوع کے بارے میں ہے۔ کہتے ہیں:
۔’’دراصل میں نے بڑا غلط فقرہ استعمال کیا ہے۔ یہ فسادات کے متعلق نہیں ہیں بلکہ انسانوں کے بارے میں۔‘‘۔
اگر اس اعتبار سے عسکری کی مراد یہ ہے کہ منٹو کے ’’سیاہ حاشیے‘‘ اپنی اثرانگیزی میں دوسرے ادیبوں کی تحریروں سے زیادہ کامیاب ہیں تو اس بات کی کسی طرح وضاحت نہیں ہوتی۔ ورنہ یہ خصوصیت صرف منٹو کی تحریروں میں نہیں بلکہ ان واقعات کے پس منظر میں لکھے جانے والے تمام عمدہ افسانوں میں پائی جاتی ہے، مثلاً ’’لاجونتی‘‘ اور ’’گڈریا‘‘ بھی فسادات اور ان سے دوچار ہونے والے انسانوں دونوں کے بارے میں ہیں۔ فسادات سے متعلق تمام کامیاب تحریروں کے بارے میں یہی بات کہی جا سکتی ہے مگر شاید اس سے عسکری کا مقصد پورا نہیں ہو گا۔
۔(جاری ہے)۔
پہلا حصہ
3 Comments