پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے مختلف بیانات اور ٹوئٹس کے ذریعے جنرل راحیل شریف کو مسلسل پاکستان کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اب فوجی ایسٹیبلشمنٹ نے اپنے پروردہ گروہ کے ذریعے مختلف شہروں میں مارشل لا کے حق میں بینرلگوانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
اس وقت کوئی 19 شہروں میں بیک وقت سینکڑوں بینرز آویزاں کر دیے گئے ہیں، جس میں آرمی چیف سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ نہ لیں اور ملک میں مارشل لاء لگا دیں۔کچھ سیاسی مبصرین کے نزدیک مارشل لا کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے نے ان بینرز کو آویزاں کرنے والی سیاسی جماعت “موو آن “کےمرکزی چیف آرگنائرز علی ہاشمی سے اس مہم کی وجوہات پوچھیں تو انہوں نے کہا کہ کا اس کا مرکزی نقطہ نواز حکومت کا خاتمہ ہے۔
علی ہاشمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہاں ہم نے ہی ہزاروں کی تعداد میں بینرز ملک کے مختلف شہروں میں لگائے ہیں۔ ان بینرز کا مقصد یہ ہے کہ آرمی چیف راحیل شریف، جنہوں نے ملک میں بہت اچھے کام کیے ہیں، اب پاکستان میں مارشل لاء لگائیں اورایک ٹیکنو کریٹک حکومت قائم کریں، جو ملک میں کرپشن کے خلاف لڑے۔ تعلیم، صحت، دہشت گردی اور دوسرے تمام مسائل کو حل کرے۔ اس حکومت کو ختم کیا جائے کیونکہ نواز شریف آئین کی آرٹیکل 62 اور 63 پر نہیں اترتے۔ ملک چالیس سے زائد دن وزیرِاعظم کے بغیر چلتا رہا۔ آرمی نے جو اچھے کام کیے ہیں حکومت ان کو بھی ضائع کر رہی ہے۔ کراچی میں دہشت گردی پھر شروع ہوگئی ہے۔ تو ان تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ ملک میں مارشل لاء لگایا جائے‘‘۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کا مطالبہ غیر آئینی نہیں ہے تو علی ہاشمی نے جواب دیا، ’’جب چودہ انسانوں کو ماڈل ٹاون میں قتل کیا گیا تو آئین کہاں تھا؟ جب اچکزئی نے کے پی کو افغانستان کا حصہ قرار دیا تو آئین کہاں تھا؟ جب الطاف حسین نے را سے مدد کی بات کی تو آئین کہاں تھا ؟جب پانامہ لیکس میں حکمرانوں کی لوٹ مار کا انکشاف ہوا تو آئین کہاں تھا‘‘ ۔
ان کے بقول، ’’ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی کوئی حمایت حاصل نہیں ہیں۔ ہم یہ مطالبہ ملک کی بہتری کے لیے کر رہے ہیں۔ پہلے ہم نے فروری میں آرمی چیف سے ریٹائرڈنہ ہونے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اب ہم مارشل لاء کے نفاذ اور ایک ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم حکومت سے خوفزدہ ہیں اور نہ ہی ہم گرفتاریوں سے ڈرتے ہیں۔ جہاں جہاں پنجاب حکومت کی طاقت ہے اس نے ہمارے بینرز ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ ہم اپنی اگلی منصوبہ بندی کا جلد ہی اعلان کریں گے‘‘۔
مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما راجہ ظفر الحق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’صرف حکومتی جماعت، سیاستداں اور سیاسی جماعتوں کا موقف ہی نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت ہونی چاہیے بلکہ پاکستان کے عوام مارشل لاء اور غیر جمہوری حکومتوں کو دیکھ چکے ہیں اور ان کے نقصانات سے بھی آگاہ ہیں۔ انہوں نے مارشل لاء کو اور آمرانہ نظام کو مسترد کردیا ہے اور ملک میں جمہوری قوتوں کی حمایت کی ہے اور انہیں منتخب کیا ہے۔ تو یہ اٹل فیصلہ ہے کہ ملک کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے۔ ملک کی ترقی جمہوریت میں پنہاں ہے۔ جمہوری نظام کے علاوہ عوام کسی اور نظام کو نہیں چاہتے‘‘۔
انہوں نےمزید کہا، ’’ اگر کسی گروپ نے ایسے بینر ز آویزاں کیے ہیں جن میں مارشل لاء کا مطالبہ کیا گیا ہے تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کوئی غیر مقبول سا گروپ ہے، جس کو لوگ جانتے تک بھی نہیں۔ ان کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے۔ تو ہم ایسے لوگوں کو گرفتار کر کے ان کو کیوں اہم بنائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں تو ملک میں جمہوری دور ہے صرف لوگوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنے پرگرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ میرے خیال میں اس گروپ کو اسٹیبلشمنٹ کی کوئی حمایت حاصل نہیں اور وہ سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں‘‘۔
معروف سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹرمہدی حسن نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’مارشل لاء کا مطالبہ بنیادی طور پر اس شہرت و ساکھ کا نتیجہ ہے جو راحیل شریف نے حالیہ سالوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے بعد حاصل کی۔ حکومت کی بد انتظامی نے لوگوں کو بڑا مایوس کیا ہے۔ حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔ وزیرِ اعظم نے اچھا خاصا وقت ملک سے باہر گزارا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومتی بد انتظامی کا حل آرمی کے پاس ہے۔ اسی لیے وہ اس طرح کے مطالبات کر رہے ہیں‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں شروع سے ہی یہ تصور ہے کہ آرمی کے پاس ملک کے تمام مسائل کا حل ہے۔ مہدی حسن کہتے ہیں کہ اسی لیے آرمی کو غیر ضروری طور پر زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اس تصور سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں عوام ہمشہ فوجی آمروں کے خلاف لڑے ہیں، جیلیں کاٹیں ہیں، نوکریاں گنوائی ہیں۔ ان کے بقول لیکن موجودہ حکومت کی بد انتظامی نے لوگوں کا مجبور کر دیا ہے کہ وہ ایسے مطالبات کریں‘‘۔
وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹرتوصیف احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ ایسا لگ رہا ہے کہ جمہوری نظام خطرات سے دوچار ہونے جارہا ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل احسان الحق نے نیشنل سیکیورٹی کونسل کے قیام کا مطالبہ کردیا ہے۔ کچھ نئی بننے والی جماعتیں صدارتی نظام، مزید صوبوں کا قیام اور اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ یہ سب اسٹیبلشمنٹ کی لائن ہے۔
یہ بینرز بھی اُن کے ہی لوگوں نے لگائے ہیں۔ 19 شہروں میں بیک وقت بینرز لگانا کوئی عام آدمی کا کام نہیں ہے۔ آنے والے چار پانچ مہینوں میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ملک میں سیاسی بے یقینی رہے گی اور یہ سب اس وجہ سے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت سے خارجہ پالیسی سمیت کئی امور پر خوش نہیں ہے‘‘۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان میں کرپشن کی ابتدا فوجی آمروں کے دور میں ہی ہوئی ہے ۔ جب اپنے ناجائز حکومت کو چلانے کے لیے سیاستدانوں کی خریدا گیا۔ آپریشن ضرب عضب کو جنرل راحیل شریف کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیاجاتا ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دو سال کے پراپیگنڈے کے باوجود طالبان کی قیادت محفوظ ہے اور وہ اندرون ملک اور بیرون ملک دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصروف ہے۔
ڈوئچے ویلے کے نمائندے نے علی ہاشمی سے یہ پوچھنا گوارا نہیں کیا کہ کیا پاک فوج کے جرنیل آئین کی دفعہ 62 اور 63پر پورا اترتے ہیں؟ کیا جرنیل کرپشن میں ملوث نہیں ہیں؟ کیا جنرل کیانی اور جنرل مشرف کے سوئس اکاونٹس کرپشن نہیں ہیں؟
♣
One Comment