فرانس کے شہر نیس میں ،کوئی دو ہفتے پہلے، فرانس کے قومی دن کی تقریبات کے موقع پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں 84 افراد کے مارے جانے اور سینکڑوں افراد کے کچل کر زخمی ہونے کے واقعے اور اسلامی دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ کی جانب سے اس واقعے کی ذمّہ داری قبول کئے جانے کے بعد پورے یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں خوف اور تشویس کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔
اسلامی دہشت گرد تنظیموں، مغرب میں رہنے والے انتہا پسند مسلمانوں کے رویّوں اور مغربی معاشرے میں ان کی موجودگی سے پیدا ہونے والے خطرات اور درپیش چیلینجز پر کل سارا دن میڈیا پر ٹالک شوز ہوتے رہے ہیں۔ امریکی صدارتی امیدوار جناب ڈونلڈ ٹرمپ تو پہلے ہی بغیر کسی منافقت کے صاف صاف مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
امریکی سینیٹ کے سابق اسپیکر جناب نیوٹ گنگرچ نے کہا ہے کہ “جو مسلمان شریعت پر یقین رکھتے ہیں انھیں امریکہ سے باہر نکال دیا جائے۔تمام امریکی مسلمان شہریوں سے سوال پوچھا جائے کہ وہ شریعت پر یقین رکھتے ہیں؟ یا نہیں؟ اور جو یقین رکھتے ہیں انھیں ملک بدر کر دیا جائے۔ مغربی تہذیب حالتِ جنگ میں ہے، ہمیں ہر مسلمان سے پوچھنا چاہیے اور اگر وہ شریعت پر یقین رکھتے ہیں تو انھیں ملک بدر کر دینا چاہیے۔ نیوٹ گنگرچ کا مزید کہنا تھا کہ شریعت مغربی تہذیب سے مطابقت نہیں رکھتی ہے، ایسے روشن خیال مسلمان جو شریعت کے قوانین پر یقین نہیں رکھتے ان کو ہم بخوشی قبول کرلیں گے۔نیوٹ گنگرچ نے امریکہ میں مسجدوں کی نگرانی کے ساتھ شدت پسند تنظیموں کی ویب سائٹس کا مطالعہ کرنے والے افراد کو بھی جیل بھیجنے کی تجویز دی ہے“۔
دوسری جانب امریکہ میں موجود کچھ اسلامی تنظیموں نے اسلامی انتہا پسندوں ، اور اسلامی دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے جاری دہشت گردی کی صاف اور واضح الفاظ میں مذمّت کرنے کی بجائے نیوٹ گنگرچ کے بیان کی شدید مذمّت کی ہے۔
اس تناظر میں ہمیں کینیڈا کے پر امن شہری کی حیثیت سے کینیڈا کی سلامتی کے بارے میں شدید تشویش لاحق ہے۔ ہماری یہ تشویش کوئی مفروضہ نہیں ہے۔ مذہبی انتہا پسندوں سے پوری دنیا کو خطرات لاحق ہیں۔ خود اسلامی ممالک بھی ان انتہا پسندوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے مقاماتِ مقدّسہ مکّہ اور مدینہ بھی ان دہشت گردوں سے نہیں بچ سکے ہیں۔ جب کہ کینیڈا تو ایک لبرل، سیکیولر ملک ہے، جسے کچھ مذہبی انتہا پسند مسلمان ، کافروں کا ملک اور گناہوں کی دلدل بھی قرار دیتے ہیں۔
ا س لئے کینیڈا کو ان اسلامی انتہا پسندوں کی جانب سے کئی گنا زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔ کینیڈا اپنے آئین و قانون میں دی جانے والی رعائتوں کے سبب آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھا ہوا ہے۔ انتہا پسند مسلمانوں کی کینیڈا میں کوئی کمی نہیں ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں ایک منظّم منصوبہ بندی کے تحت انتہا پسند مسلمانوں نے کمیونٹی لیڈروں کے بھیس میں کینیڈا کی سیاسی جماعتوں میں اپنے ہائیڈ آئوٹس یعنی پناہ گاہیں بھی بنا لی ہیں۔
یہ بہروپئیے کمیونٹی لیڈرز اپنی اپنی مساجد اور اپنے اپنے قونصلیٹس کے اجتماعات میں بڑی معصومیت سے لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کے انتخابات میں بھرپور انداز میں شریک ہوں، اپنے ووٹ ڈالیں، اپنے نمایندے پارلیمنٹ میں بھیجیں۔ اور جب کینیڈین باشندوں کی وسیع القلبی کے طفیل یہ نمائندے پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں تو، پھر یہ لوگ اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کا ایجنڈا شروع کردیتے ہیں۔
پہلے ان نمائندوں کو برانڈ کرتے ہیں کہ یہ فلاں کمیونٹی سے تعلّق رکھنے کی بناء پر فلاں کمیونٹی کے نمائندے ہیں۔ کچھ عاقبت نا اندیش اور نا دان بہی خواہ تو ان منتخب نمائندگان کو کینیڈین پارلیمنٹ میں اپنے ملک کا نمائندہ بھی قرار دے دیتے ہیں، جس کی یہ منتخب نمائندے کبھی تردید نہیں کرتے ۔ منتخب نمائندوں کی یہ منافقت، کینیڈا کی آئین کی اصل روح پلورل ازم (اجتماعیت )کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
کینیڈا کی پارلیمنٹ کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوتے ہیں، پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی سیاسی جماعت حکومت بنانے کی ذمۃ دار ہوتی ہے ۔ کینیڈا میں کوئی بھی ممبر پارلیمنٹ مذہب، عقیدے، رنگ و نسل، زبان و لسّانیت کی بنیاد پر انتخاب نہیں لڑتا اور نہ ہی جیتتا ہے۔ کینیڈین معاشرہ ایک روادار معاشرہ ہے۔ یہاں کسی بھی برانڈڈ سوچ کے پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں کے تمام باشندے بلا امتیاز مذہب وعقیدہ، رنگ و نسل ، زبان اور ثقافت برابر شہری حقوق اور لامحدود آزادیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہی کینیڈا کے آئین کے نفسِ ناطقہ یعنی پلورل ازم (اجتماعیت ) کی اصل روح ہے۔
موجودہ لبرل حکومت کے سربراہ جسٹن ٹروڈو کے والد جناب پیئر اِلیٹ ٹروڈو کی دوراندیش قیادت نے 1971 میں کینیڈا میں ملٹی کلچرل ایکٹ پاس کرکے کثیر الثقافت معاشرے کے قیام کو ریاست کی ترقّی ، فلاح اور معاشی خوشحالی کی اساس قرار دیا تھا۔ کینیڈا کی سلامتی اور خوشحالی کا راز،اجتماعیت، برداشت، رواداری، باہمی احترام، اور ثقافتی تنوّع میں پنہاں ہے۔
کینیڈا کے شہر “مسی ساگا “کو اپنی پرائیویٹ محفلوں میں بڑے فخر سے “مسلم ساگا “کہنے والے اور کینیڈا کو کافروں کی سرزمین اور گناہوں کی دلدل قرار والے یہاں جزیرے قائم کرنے کی بجائے ملٹی کلچرل مین سٹریم ثقافت میں ضم ہونے کی کوشش کریں، کینیڈین معاشرے اور ثقافت کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھیں تو یہ ان کے لئے بھی بہتر ہوگا اور کینیڈا کے لئے بھی۔
ورنہ آنے والے وقتوں میں یہاں کوئی ڈونلڈ ٹرمپ یا نیوٹ گنگرچ پیدا ہوگا اور وہ کینیڈین میڈیا پر بیٹھ کر مطالبہ کر رہا ہوگا کہ جو مسلمان شریعت پر یقین رکھتے ہیں انہیں کینیڈا سے باہر نکال دیا جائے۔
♠
One Comment