آج آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات منعقد ہورہے ہیں۔ پچھلے دو ماہ سے سیاسی جماعتیں اپنی اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی مہم بلاول بھٹو کی قیادت میں چلائی گئی۔
بلاول بھٹو نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک سے زائد مرتبہ جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کو بھارتی وزیر اعظم مود ی سے دوستی کا طعنہ دیا ہے ۔
نوجوان بلاول نے اپنی الیکشن مہم کسی معاشی اور سماجی ایجنڈے پر چلانے کی بجائے بھارت دشمنی کو انتخابی نعرہ بناکر چلانے کی کوشش کی۔ کشمیر میں بھارت کو مطعون کرکے بلاول فوجی اشرافیہ کو خوش کرنے کے مشن پر تھے ۔
ان کے مشیروں کے خیال میں نواز شریف اور مودی کو باہم بریکٹ کرکے ایک طرف اگر فوجی ایسٹیبشلمنٹ کو خوش کیا سکتاہے تو دوسری طرف نواز شریف کو بھی ڈس کریڈٹ کرنے میں کامیابی مل سکتی ہے۔
بلاول کے سیاسی اور نظریاتی مشیر ابھی تک اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ پنجاب اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھارت کو گالی دے کر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ 1970 کی دہائی میں بھٹو کی کامیابی کے پس پشت بھی بھارت دشمنی کے عنصر نے اہم کردار ادا کیا تھا ۔
گذشتہ پانچ دہائیوں میں ان کے نزدیک پنجاب کا سماجی اور معاشی جغرافیہ ابھی تک ویسے کا ویسے ہی ہے حالانکہ 1970 کی دہائی کا پنجاب بہت پیچھے رہ چکا ہے ۔بھارت دشمنی اب موثر نعرہ نہیں بن سکتی۔ آج حکومت کی تمام تر کوششوں اور میڈیا کی موبلائیزیشن کے باوجود عوام ٹس سے مس نہیں ہوئے۔
پنجاب کے سوا باقی چار صوبوں کا کشمیر کبھی مسئلہ نہیں رہا لیکن اب پنجاب کے عوام کی بھی کشمیر میں دلچسپی دن بدن کم ہورہی ہے ۔ اگر حکومتی پراپیگنڈے کا عنصر نکال دیا جائے تو عام آدمی کو اپنی روٹی روزی سے غرض ہے اسے کشمیر اور اس کی آزادی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
ویسے پاکستانی کشمیر میں اسی پارٹی کی حکومت بنتی ہے جو اسلام آباد میں اقتدار پر قابض ہوتی ہے ۔آزاد کشمیر کے عوام ہمیشہ سٹیٹس کو کے ساتھ چلتے ہیں ۔
آزاد کشمیر کی نہ کوئی اپنی معیشت ہے اور نہ کوئی سماجی ڈھانچہ ۔ پاکستانی ریاست نے کشمیر کے نام پر سیاست کرکے عالمی امداد تو حاصل کرتی رہی ہے مگر آزادکشمیر کے عوام کو اس سے محروم رکھا گیا ہے۔جبکہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نہ صرف انفراسٹرکچر ڈیویلپ کیا گیا بلکہ سکول ، کالجز اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔ائیر پورٹس اور کئی ٹی وی چینل بھی کام کر رہےہیں۔
بھارتی کشمیر کی اسمبلی کو بھارت کے آئین کے مطابق اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے جبکہ پاکستانی کشمیر کی حکومت سہی معنوں میں کٹھ پتلی حکومت ہے،اس کو اتنے اختیارات بھی حاصل نہیں ہیں جتنے پاکستان کے وفاق میں شامل چار صوبوں کو حاصل ہیں ۔آزاد کشمیر کی نام نہاد اسمبلی سیکرٹری کشمیر آفئیر یا پھر جی او سی ( جنرل آفیسر کمانڈنٹ) مری کے تحت کام کرتی ہے۔
سیاسی جماعتوںکو چاہیے کہ اگر وہ واقعی کشمیر کے عوام کے لیے مخلص ہیں تو انہیں نفرت کی سیاست کو ترک کرنا ہوگا۔ نفرت کی سیاست کے لیے اسلامی جماعتیں ہی کافی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھارت دشمنی پرموٹ کرنے کی بجائے وہاں کے عوام کےتعلیم، صحت اور روزگار جیسے مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دیں۔ پہلے ’آزاد‘ کشمیر کو آزاد کرو پھر مقبوضہ کشمیر کی آزادی بات کرو۔
News Desk