اگر برہان وانی ہیرو ہے تو پھر بلوچ نوجوان غدار کیوں؟

burhan-wani-759
حزب المجاہدین کے ہلاک ہونے کمانڈر برہان وانی کو ہندوستان میں دہشت گرد اور پاکستان میں ایک ہیرو کا درجہ دیا جارہا ہے۔

جمعہ ۸ جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی اپنے دو ساتھیوں سمیت بھارتی فوج اور پولیس کے مشترکہ آپریشن میں بھارتی کشمیر کے ضلع اننت ناگ مارے گئے۔ 

جی او سی وکٹر فورس، میجر جنرل اشوک نرولہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’’ راشٹریہ رائفلز، سنٹرل ریزور پولیس فورس اور جموں و کشمیر پولیس نے ایک اطلاع پر دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ آپریشن کرکے تین دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا جس میں سے ایک برہان وانی تھے‘‘۔

انہوں نے بتایا برہان وانی پچھلے ڈیڑھ ماہ سے سیکیورٹی فورسز کو چکمہ دے کر نکل جاتا تھا ۔ ہم نے اس کے خلاف کئی آپریشن کیے مگر وہ ہر دفعہ فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا۔ 

بائیس سالہ برہان مظفر وانی ، جنوبی کشمیر کے دادسرا گاؤں کا رہنے والا تھا ۔ اس نے 2010 میں میٹرک کا امتحان دینے کے بعد اپنا گھر چھوڑ کر عسکری تنظیم حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔جلد ہی وہ ضلعی کمانڈر کے عہدے پر فائز ہوگیا اور انتہائی مطلوب عسکریت پسندوں میں اس کا شمار ہونے لگا۔ 

پچھلے ماہ وانی نے ایک ویڈیو پیغام ریلیز کیا تھا جس میں اس نے کشمیری پنڈت اور دوسرے ہندوؤں کی کالونیوں پر بم حملے کرنے کی دھمکیاں دی تھی۔ویڈیو پیغام میں اس نے جموں وکشمیر پولیس پر بھی حملے کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جموں و کشمیر پولیس نے اس کی اطلاع دینے والے کو دس لاکھ روپے کا اعلان بھی کر رکھا تھا۔

برہانی وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔ ہفتہ نو جولائی کو بھارتی کشمیر کے جنوبی حصوں میں بڑے پیمانے پر جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بھارتی فورسز نے مظاہرین کے خلاف لاٹھی چارج، اسلحے اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ بھار تی کشمیر کے اہم شہر سری نگر اور وسطی اور شمالی حصوں کے کم از کم ایک درجن دیگر مقامات پر جھڑپیں ہوئیں۔ان ہنگاموں میں اب تک اٹھارہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 2010ء کے بعد بھارتی کشمیر میں ہونے والی اس بدترین سویلین شورش کے نتیجے میں مزید 200 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ سویلین افراد ہیں جو ہفتہ نو جولائی کو بھارتی فورسز کی طرف سے فائر کی جانے والی آنسو گیس اور گولیوں کا نشانہ بنے۔

ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ 18 کشمیریوں کے علاوہ ایک پولیس اہل کار اس بکتر بند گاڑی میں ڈوب کر ہلاک ہوا جسے مشتعل مظاہرین نے جنوبی ضلع سنگم میں دھکیل کر دریا میں گِرا دیا تھا۔

دوسری طرف پاکستانی حکومت نے برہان وانی کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل قرارد ے کر اس کی شدید مذمت کی ہے۔پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ کشمیری حریت رہنما برہان وانی سمیت دیگر کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل قابل مذمت ہے۔

کشمیر میں ہلاکتوں پر نفیس زکریا کا مزید کہنا تھا کہ ایسے واقعات کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، جبکہ کشمیریوں کو ان حق خود ارادیت کے عزم سے متزلزل نہیں کیا جا سکتا۔

دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہندوستانی فوج کی جانب سے کشمیری رہنماؤں کی گرفتاری اور ماورائے قتل باعث تشویش ہے، ہندوستان کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے باز رہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ان حق ملنا چاہیے۔

دفتر خارجہ کے علاوہ وزیراعظم نواز شریف نے بھی اپنے بیان میں ہندوستانی فوج کے ہاتھوں نوجوان کشمیری حریت رہنما برہان وانی اور دیگر شہریوں کی ہلاکت کی مذمت کی ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہندوستانی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کشمیری شہریوں کے خلاف طاقت کا استعمال کررہی ہے۔انھوں نے کہا کہ جابرانہ حربوں سے کشمیری عوام کو حق خودارادیت کے مطالبے سے نہیں روکا جاسکتا۔

تجزیہ نگاروں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ پاکستانی میڈیا اور اس کے دانشور برہان وانی کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل قرار دیتے ہیں تو پھر بلوچ نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل پر کیوں خاموشی برتی جاتی ہے۔

بلوچ تنظیموں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں پاکستان آرمی بلوچ نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہے۔ اگر کشمیر میں مجاہدین آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں تو پھر حکومت پاکستان اور پاکستانی میڈیا کو یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ  بلوچستان کے نوجوان بھی اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اگر کشمیر میں سیکیورٹی فورسز انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہیں تو پھر بلوچستان میں بھی سیکیورٹی فورسز انسانی حقوق کو پامال کر رہی ہیں۔ہیومن رائٹس کمیشن اپنی ہر سالانہ رپورٹ میں بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ کر رہا ہےلیکن پاکستانی میڈیااورسرکاری و نیم سرکاری دانشور خاموشی اختیار کیے بیٹھے ہیں۔

News Agenceis

Comments are closed.