بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت اور اس کے بعد تشدد کے واقعات میں درجنوں افراد کی اموات سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرنے کے لئے وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے پندرہ جولائی کو طلب کردہ اجلاس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا امکان ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو طلب کرے گی اور ان الزامات کو غلط ثابت کرنے کے لئے کہ برہان وانی کو ’’ماورائے عدالت‘‘ قتل کیا گیا تھا، کے خلاف ثبوت پیش کرے گی۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے دفتر (پی ایم او) میں وزیر جتیندر سنگھ نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ ’’دہشت گردی سے وابستہ‘‘ ہے ۔ انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ اپنے پڑوسیوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے سے گریز کرے۔
بھارت کے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر پولیس نے وزارت داخلہ کو برہان وانی کے خلاف درج بارہ مقدمات کی تفصیلات بھیج دی ہیں۔ ان تفصیلات کو وزارت خارجہ کو بھیجا جارہا ہے تاکہ جب پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کیا جائے تو یہ ثابت کیا جاسکے کہ برہان وانی ایک کالعدم تنظیم کا لیڈر تھا اور ’’دہشت گردی‘‘ کی متعدد کارروائیوں میں ملوث تھا۔
برہان وانی کے خلاف جو کیس درج کئے گئے تھے ان میں پولیس سے ہتھیار چھیننے، ان پر فائرنگ کرکے زخمی کردینے، نیم فوجی دستے راشٹریہ رائفل کی ایک گشتی ٹیم پر حملہ کرنے جیسے الزامات شامل ہیں۔ خیال رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کی صورت حال پر غور و خوض کے لئے طلب کردہ اعلیٰ سطحی میٹنگ کے دوران اس بات پر سخت ناراضگی ظاہر کی تھی کہ میڈیا میں وانی کو ایک ہیرو کی طرح پیش کیا جارہا ہے۔
اس دوران پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ میں کشمیر کا معاملہ اٹھانے پر بھارت نے سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’’دہشت گردی کو سرکاری پالیسی‘‘ کے طور پر اپنانے والے ملک کو انسانی حقوق کا مسئلہ اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ بھارت نے پاکستان کو ایک ایسا ملک قرار دیا جو ’’دہشت گردی کو اسٹیٹ پالیسی‘‘ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ بھارت نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان حقوق انسانی کے نام پر عالمی برادری کو ’’گمراہ کرنے‘‘ کی کوشش کر رہا ہے۔
خیا ل رہے کہ اس سے قبل پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے برہان وانی کی ہلاکت کو ’’ماورائے عدالت قتل‘‘ اور تشدد کے دوران بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کشمیریوں کی ہلاکت کو انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
دوسری جانب بھارتی سول سوسائٹی سے وابستہ کارکنوں کا کہنا ہے کہ بھارت کے رہنماؤں نے کشمیریوں کے مسئلے کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ جواہر لا ل نہرو یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر کمل مترا چینائے کا کہنا ہے کہ تشدد کے تازہ واقعات میں اب تک 36 کشمیری ہلاک اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں لیکن آج تک کسی بھی کابینہ کے وزیر نے سری نگر جا کر ریاستی حکومت کی مدد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ وزیراعظم بھی غیر ملکی دوروں میں مصروف رہے۔ پروفیسر چینائے کا مزید کہنا ہے کہ جب تک کشمیر میں غیر منصفانہ حالات کو منظم اور جامع انداز میں درست نہیں کیا جاتا اس وقت تک کشمیر مستحکم نہیں ہوسکتا۔
سماجی کارکن اور سابقہ یو پی اے حکومت کی طرف سے کشمیر کے لئے سیاسی روڈ میپ تیار کرنے والی تین رکنی کمیٹی کی ایک رکن رادھا کمار کے خیال میں اس وقت کم از کم تین کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مسٹر مودی کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے دل کی گہرائیوں سے ایک بیان دیں، اس کے بعد ریاست کی مخلوط حکومت کم از کم مشترکہ پروگرام پر عمل کرے اور تیسرا کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے تمام فریقین کے درمیان نمایاں، قریبی اور واضح تعاون ہو۔ رادھا کمار کہتی ہیں کہ ہو سکتا ہے پاکستان میں موجود بعض گروپوں کو ایسے اقدامات راس نہ آئیں لیکن اگر بھارت کی حکومت اپنی کوشش جاری رکھے تو مخالف قوتیں دھیرے دھیرے کمزور پڑ جائیں گی۔
کشمیری امور کے ماہر ہیپی مون جیکب کہتے ہیں، ’’ ہمیں ملک میں ہر مشکل وقت میں دوسروں کی طرف انگلیاں اٹھانے کی اپنی قومی عادت ترک کرنی ہوگی اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت اور بھارت کے لوگ کشمیریوں سے کھلے ذہن و دما غ اور کسی تعصب کے بغیر بات کریں۔ لیکن یہ بات چیت چیخ چیخ کر اپنی بات کہنے والے ٹی وی اینکروں کے ذریعے نہیں ہونی چاہئے، جن کی تاریخ اور سیاست سے لاعلمی اور بنیادی شرافت کے فقدان کی وجہ سے ہماری اکثر سبکی ہوتی ہے‘‘۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ اورریاست کے لکھاریوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کشمیر میں ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں جبکہ پاکستان میں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں۔ پاکستانی ریاست کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فوجی ایسٹیبلشمنٹ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی صرف کشمیر میں ہی کیوں نظر آتی ہے؟ ماضی میں پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ نے بنگلہ دیش میں عوام کی مزاحتمی تحریک کو کچلا اور کئی لاکھ افراد کو اپنی پالیسی کی بھینٹ چڑھا دیا اور پھر افغانستان میں جہاد کے نام پر لاکھوں افراد کو مروا یا۔
اب یہی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ پچھلے کئی سالوں سے بلوچستان میں عوامی مزاحمتی تحریک کو کچلنے میں مصروف ہے ۔ جہاں سیکیورٹی ایجنسیاں بلوچ نوجوانوں کونہ صرف اغوا کرتی ہیں بلکہ کچھ عرصے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔ انسانی حقوق کے اداروں نے بارہا بلوچستان میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ بھی کی ہے۔ لیکن پاکستانی میڈیا اور اس کے پروردہ دانشوروں کو صرف کشمیر میں ہی ماروائے عدالت قتل کیوںدکھائی دیتےہیں ۔
DW/News Desk