سوال: کیا آپ کے خیال میں وفاقی شرعی عدالت ختم ہونی چاہیے ؟
عابد حسن منٹو: بالکل ختم ہونی چاہیے۔اس لئے کہ شرعی یا اسلامی قوانین بنانے کا حق صرف منتخب نمائندوں ہی کا ہے ۔کسی مولوی یا جج کا یہ کام نہیں ہے ۔جس طرح میں سپریم کورٹ کے جج کو یہ اختیار نہیں دوں گا کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق قانون بنا کر ہم پر نافذ کردے اسی طرح کسی مولوی کو بھی ایسا اختیار نہیں دیا جاسکتا ۔
فیڈرل شریعت کورٹ کے پانچ میں سے تین عام جج اور دو مولوی صاحبان ہوتے ہیں ۔ان پانچ ججوں کو یہ صوابدیدی اختیار حاصل ہے کہ وہ ہمارے اٹھارہ کروڑ عوام کے لئے شریعت کی حد مقرر کریں۔میں نے تو اسلام میں آج تک کوئی ایسا طریقہ نہیں دیکھا کہ جہاں مسلمانوں کی جمعیت اکثریت میں ہواُ ن کے لئے قوانین پانچ آدمی بناتے ہوں۔
اسلامی قوانین تو اللہ تعالی نے بنا کر قرآن مجید میں لکھ دیئے ۔جس دن قرآن پاک نازل ہونا شروع ہوا اور آخری دن جب قرآن پاک مکمل ہوگیا ، اُس سارے عرصے کے دوران کوئی مولوی نہیں تھا جو اس کی تشریح کرتا ۔اس لئے میرے خیال میں قرآن مجید کو پارلیمنٹ کے ممبران بھی پڑھ سکتے ہیں ، اگر وہ قانون سازی اسلام کے مطابق کرنا چاہتے ہیں تو وہ ہی صرف اس کا اختیار رکھتے ہیں ۔
اس لئے ہمارے خیال میں یا تو جمہوریت ہوگی یا جمہوریت نہیں ہوگی ۔جمہوریت کے راستے میں وفاقی شرعی عدالت ایک رکاوٹ ہی ہے ۔جس کا نہ تو ہمارے عوام کو ادراک ہوسکا اور نہ ہی عمومی دھارے کی سیاسی پارٹیوں سے وابستہ سیاسی کارکنوں کو،ان پارٹیوں کی قیادت کے تو مسائل ہی اور ہیں جب کہ وفاقی شرعی عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جو کچھ وہ کہے گی وہ ہی ملک کا قانون ہوگا ۔
اب اگر قومی اسمبلی 342 ارکان اور 100ارکان سینٹ بھی متفقہ طور پر عوامی مفادکو کوئی قانون منظور نہیں کر سکتے کیونکہ اول و آخر وفاقی شرعی عدالت کی رائے ہی سپریم ہی ہوگی ۔یہ تو کسی لحاظ سے جمہوریت نہ ہوئی اس لئے پارلیمنٹ کو آزادی تب ملے گی جب شرعی عدالت ختم ہوگی ۔
جب ضیاء الحق نے پہلی وفاقی شرعی عدالت بنائی تو اُ س میں کوئی مولوی نہیں تھا ، پہلا مقدمہ آیا کہ زنا کے مرتکب فردکوسنگسار کرنا اسلامی سزا ہے یا نہیں ۔اُ س وقت وفاقی شرعی عدالت کے تین ججوں نے یہ کہا کہ سنگسار کرنا قرآنی سزانہیں ہے ۔اس کے خلاف مولویوں نے بہت شور مچایا جب کہ عوام الناس نے تو قطعاً کوئی شور نہیں مچایا تھا ۔لیکن مولویوں کے اس بلا جواز غل غپاڑے کے پیش نظر ضیاء الحق نے وفاقی شرعی عدالت کی ہیئت بدل دی ۔آئین میں دوبارہ ترمیم کی گئی اور مولویوں کو بھی وفاقی شرعی عدالت میں بٹھا دیا گیا ۔
ان مولویوں نے وفاقی شرعی عدالت میں آنے کے بعد اُ س مقدمے پر نظرثانی کی اور نیا فیصلہ دے دیا کہ سنگسار کرنا عین اسلامی سزا ہے ۔یہ امر بھی واضح رہے کہ شرعی عدالت کے فیصلوں کو حتمی اور اصلی اسلام سمجھنا قطعاً درست نہیں ۔ اسی طرح شرعی عدالت کے چار پانچ ججوں کی رائے کو مقدم جانتے ہوئے کروڑوں عوام کے منتخب نمائندوں کی پارلیمنٹ کو بائی پاس کرکے نظر انداز کرنا کسی بھی لحاظ سے جمہوری ،اخلاقی اور انسانی اقدار کے مطابق درست نہیں ہے ۔
سوال:جس طرح انگریزی قانون کی تشریح آپ اچھی طرح کر سکتے ہیں ۔اسی طرح اسلامی قانون کی تشریح تو مولوی ہی کرسکتا ہے کیونکہ اُس نے اسلام کا علم حاصل کیا ہے آپ نے یا میں نے تو مولوی کی طرح اسلام کونہیں پڑھا ،اس لئے اسلام کی تشریح کا اختیار تو مولوی کے پاس ہی رہے گا ۔
عابد حسن منٹو :میں نے گذارش کی تھی جس دن پہلی وحی نازل ہوئی تو اس کی تشریح کس نے کی تھی ۔حضور نے لوگوں کو وحی بتا دی ۔یہ کوئی ایسا اتفاق نہیں ہے کہ ہمارے رسول پر وحی نازل کی گئی تو وہ امی تھے یعنی پڑھے لکھے نہیں تھے ۔ہم سب اس صورت حال کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔اللہ تعالی نے بتادیا کہ یہ توسادہ دستاویز ہے جسے میں جاری کر رہا ہوں،اسے لوگوں تک پہنچا دیا جائے اور یہ وحی اتنی عام فہم ہے کہ ہر کوئی سمجھ سکتا ہے ،اسے سمجھنے اور سمجھانے کے لئے کسی مولوی کی ضرورت نہیں ہے ۔
سوال:لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بائبل کی تشریح پادری ہی کرتا رہا ہے ۔اسی طرح اسلامی حکومتوں کو اسلامی قوانین کی تشریح کے لئے باقاعدہ فقیہہ ہی مقرر کرنا پڑتے تھے ۔
عابد حسن منٹو:اسی لئے آپ نے دیکھا کہ بے شمار فرقے بھی بنے۔یہ محض اس لئے بنے کہ جب تشریح کا کام ماہرین کے ہاتھ میں دے دیا گیا ،جن کاکام ہی جب یہ قرار پایا تو پھر ذاتی مفاد کے لئے مختلف تشریحات تو سامنے آنا ہی تھیں ۔پڑھے لکھے صرف مولوی ہی تو نہیں ہیں ۔اٹھارہ کروڑ عوام میں بھی تو بہت پڑھے لکھے لوگ ایسے موجود ہیں ، بھلا وہ تشریح کیوں نہیں کرسکتے ؟
سوال:اگر آپ کی با ت مان لی جائے تو پھر اجتہاد کیسے ممکن ہو سکے گا ؟اجتہاد تو علمائے دین ہی کر سکتے ہیں ؟
عابد حسن منٹو :اجتہاد کاکام بھی اب پارلیمنٹ ہی کرے گا ،علما اجتہاد نہیں کرسکتے ۔اگر علما اجتہاد کرنا چاہتے ہیں تو پھر وہ پارلیمنٹ میں جاکر بیٹھیں،الیکشن لڑیں اور جیت کر پارلیمنٹ میں آئیں۔جب 1973کا آئین بنا اُ س وقت بھی پارلیمنٹ میں علما بیٹھے ہوئے تھے ۔اُس وقت کے بہترین علما مفتی محمود ،مولانانورانی اور جماعت اسلامی کی نمائندگی پارلیمنٹ میں موجود تھی اور ان تینوں مذہبی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے مخلوط طریقہ انتخاب سے اتفاق کرتے ہوئے آئین کے مسودے پر اپنے دستخط ثبت کئے تھے۔ اُ س وقت پارلیمنٹ میں موجود مذہبی سیاسی رہنماؤں اور باہر بیٹھی ان کی قیادت نے قطعاً یہ نہیں کہا تھا کہ مخلوط طریقہ انتخاب اسلا م کے منافی ہے لیکن بعد ازاں یہی سیاسی جماعتیں مخلوط طریقہ انتخاب کو اسلام کے منافی قرار دیتے رہے ہیں ۔
عابد حسن منٹو کے مضامین،انٹرویوزاور تقاریر پر مشتمل کتاب ’جنگ جاری رہے گی ‘سے لیا گیا۔ (انتخاب: لیاقت علی ایڈوکیٹ)۔
One Comment