کيا عبدالستار ايدهی کےمشن پہ کوئی تنقيدی بحث ہوسکتی ہے؟

khan kakar

خان زمان کاکڑ

مڈل کلاس پاکستانيوں کے سطحی عقيدت مند تاثرات سے خود کو بچاتے ہوئے ميں نے عبدالستار ايدهی کو اپناخراجِ عقيدت اپنے فيس بک اکاؤنٹ پر ان دو سطور ميں پيش کيا تها:

When I feed the poor, they call me a saint. When I ask them why the poor are hungry, they call me a communist.” (Helder Camara)

Edhi Sahib, you were really a great saintly character at the time when Pakistani ‘communists’ were running big NGOs while leaving the left behind. Respect to you

يہ ايدهی صاحب کا قصور نہيں کہ وه ايک ايسے دور اور سياسی ماحول ميں ايک مقصد کے ساتھ جڑے رہےجس ميں بهوکوں کوکهلانا، بهوک پر سوال اٹهانے اور لوگوں کو بهوکا رکهنے والے نظام کو چيلنج کرنے سے بڑا انسانی رويہ تصور کيا جاتا ہے۔ يہ تصور صرف پاکستان تک محدود نہيں بلکہ عالمی سطح پہ ايک ڈسکورس کے طور پر ايک عرصے سے چلا آرہا ہے۔

ايدهی صاحب جس طرح سے انسانيت کی خدمت کرنا بہتر سمجهتے تهے اسی طرح سے کرگئے۔ ہم  کو ان کی زندگی اپنی خواہشات کے مطابق ديکهنے کی بجائے اس  پر سوچنا ہوگا کہ ہم جس طرح سے انسانيت کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرنے کو سائنسیاور تاریخی طور پر بہتر سمجهتے ہيں وه کام ہم نے کتنا کيا ہے؟

ایدهی صاحب نے بهوک کو کتنا چيلنج کيا؟ ايدهی صاحب سے پہلے يہ سوال ہم نے اپنی سياسی جماعتوں بالخصوص لیفٹکی جماعتوں سے کرنا ہوگا کہ انہوں نے کتنا بهوکے اور ٹهکرائے ہوؤں کے پاس جا کر انہيں اپنی اس حالت کی وجہ بتائی اور اس کے اوپر ان کو سياسی طور پر منظم کرنے کی کوشش کی؟

ايدهی صاحب نے بهوکوں، يتيموں، ناجائز بچوں، زخميوں اور بوڑهوں  کی زندگانی کو جتنا مقدس سمجها، ان کی خدمت ، ديکھ بهال اور پرورش جس لگن کے ساتھ کی اورجتنی لاشوں کو  کندها دے کر ان کو کفن دفن کا موقع فراہم کيا اس کی چار  بڑی تشريحات ميرے خيال سے ممکن ہيں:۔

  ۔1۔ انہوں نے ايک عظيم انسانی جذبے کے تحت انسانيت کی بے مثال خدمت کی۔

۔2۔ انہوں نے وه کام کيا جو رياست کو کرنا چاہیے تها۔ انہوں رياست کی اس کی ذمہ داريوں ميں مدد کی اور رياست کو بری الذمہ کردیا۔

۔3۔انہوں نے اپنے کام سے رياست کی ناکامی کو عوام اور دنيا کے سامنے ايکسپوز کيا۔

۔4۔ انہوں نے لوگوں کو خيراتوں کا عادی بنايا اور انہيں  اپنا حق مانگنے يا چهيننے کے عمل سے غافل کرايا۔

فرض کريں ايدهی صاحب نہ ہوتے اور کوئی دوسرا بهی ان کی طرح يہ  کام نہ کرتا توکيا پهر رياست ضرورت مند لوگوں اور پسے ہوئے طبقات کی خدمت  ميں شب و روز حاضر ہوتی اور اپنی ذمہ دارياں پوری کرنے کے حوالے سے فکرمند رہتی؟  ابهی بهی جن علاقوں تک ايدهی صاحب نہيں پہنچے  تو وہاں پہ  بهی رياست کے نام نہاد فلاحی کردارسے اس کا جنگی کردار بڑا نماياں نظر آتا ہے۔ کيا ايدهی صاحب اور ان جيسوں کے بغیر جو علاقے ہيں وہاں پہ کيا کوئی بڑی مزاحمتی تحريکيں چل رہی ہیں؟

مڈل کلاس پاکستانيوں ميں ايدهی صاحب کی مقبوليت اور ان کيلئے پائی جانی والی عقيدت کی ايک وجہ شايد يہ بهی ہے کہ وه پاور پاليٹکس کرنے والے سياستدانوں کی طرح اپنے ذاتی مفاد کيلئے نہيں جيے ليکن اس کے باوجود اگر آپ ان مڈل کلاس پاکستانيوں سے ان کی  زندگی کے مقصد پر بحث کريں تو وه خود کبهی بهی ذاتی مفاد اور پاور کے دائرے سے باہرکچھ لمحوں کيلئے سوچنے کيلئے تيار نہيں ہونگے۔ وه ذاتی مفاد کيلئے جينا اور مرنا ايک فطری اصول سمجهتے ہيں۔ 

اگر سياه وسفيد ميں چیزوں کو نہيں ليا جائے تو رياست اور سياست کے دائروں سے ہٹ کر تاريخ کيا کچھ نئے دائروں کی تشکيل نہیں کرتی؟  کيا انسان کچھ اپنے معاشرتی جمالیاتکے تحت زندگی گزرنے پہ سوچنے سے بالکل قاصر ہوتا ہے؟  کیا دنيا ميں سماجی تحریکوں کی ساری تاريخ يکساں طور پر استحصالی طبقات کے حق ميں تمام ہوتی ہے اور کيا دنيا ميں سول سوسائٹی کا ہر کہيں ايک جیسا کردار ہے؟

  کيا صوفی ازم، سپورٹ، ميوزک اور تفریح کے ذرائع کو  کليت ميں اس طرح ليا جاسکتا ہے کہ جو سياه سفيد کے معاملے کے طور پر نظر آئے؟ دنيا ميں جو بڑی تبديلياں آئی ہيں ان سے کچھ انتہائی پیچیدہ نوعيت کے تضادات معاشروں ميں ابهر آئے ہيں۔ ہميں ديکهنا يہ ہوگا کہ ہمارے سماج ميں ان تضادات کا مطالعہ کيسے اور کس نقطہ نظر کے تحت کيا جاتا ہے؟ ہماری سياست کس تضاد کو اپنے مفاد ميں استعمال کرسکتی ہے اور کس کے خلاف لڑنے کو کس پہ ترجيح ديتی ہے؟

ہماری سماجی سائنس کيا ہے؟ اس ميں کون کون سے زاويوں کو موضوع بحث بنايا جاتا ہے؟ ان سوالات کے اٹهانے کا مقصد يہ ہے کہ تاريخ اور سماج ميں عبدالستار ايدهی کا مقام متعين کرنے کيلئے دنيا اور ہمارے اس خطے ميں جو بڑی تبديلياں آئی ہيں ان کے خدوخال کو باريک بينی سے سمجهنا ہوگا۔ يہ اتنی پیچیدہ نوعيت کی تبديلياں ہيں کہ ايک وقت کے بڑے سياسی استاد اور دانشور بهی آج کنفيوژن کا شکار نظر آتے ہيں۔ ان کے کنفيوژن کو سودا بازی سے عبارت کرنا ايک مضحکہ خيز رويے کی شکل اختيار کرچکا ہے۔

يہ ايدهی صاحب کا قصور نہيں کہ  اين جی اوز والےاپنے لئے مزيد جواز فراہم کرنے کيلئے ان کو  ايک موثر علامت کے طور پر استعمال کرنا شروع کردينگے بلکہ يہ سياسی جماعتوں کی ناکامی ہوگی کہ وه اس علامت کی ايک ايسی تشريح نہيں کرپائيں گی جس سے موجوده نظام کی ناکامی عوام کے سامنے واضح ہوکرکے آئے۔

اس سے متعلقہ ايک اور سوال يہ کيا جاسکتا ہے کہ ملالہ يوسفزئی تو ظلم کے خلاف بات کرگئی اور اپنی اس بات کی سزا بهی پائی، اس کی اس قربانی سے ہماری سياست نے کتنا کام ليا؟  اگر تم نے خود ہی اس  علامت کو اين جی اوز والوں کے رحم و کرم پہ چهوڑ ديا ہے تو اس ميں پهر ملالہ کو قصور وار نہيں ٹھہرايا جاسکتا۔ رياست کی تزويراتی گہرائی کے خلاف ملالہ يوسفزئی کا کيس مقامی نوعيت کا ايک انتہائی موثر کيس تها  لیکن اس سے سياست بنانے کا کام اس کم عمر بچی کی بس کی بات نہيں تهی، يہ کام ترقی پسند اور قوم پرست جماعتوں کا تها جنہوں نے نہیں کیا۔

اگر ٹی وی سکرين کی مدد سے سماجی اور سياسی  مسائل کا تجزيہ کرنے والا کوئی فرد ہم پہ يہ مقبول فرمائش  لاگو کرے کہ تنقید تو بہت آسان ہے، ايدهی صاحب کی طرح کچھ عملی کام کرکے دکهاؤ! تو ہميں جب تاريخ اور سياست کی کوئی صحيح سمجھ نہ ہو  تو پهر اس فرمائش  کے سامنے اپنے آپ کو بے بس پائیں گے ليکن تاريخ اور سياست کا شعور رکهنے والے لوگ استحصالی طبقات اور رياست کے اوپر اپنی تنقيد ہی کو ايک عملی سرگرمی سمجھ کرکے اس کے ذريعے وسائل کا ازسرنو تقسيم کار کی طرف معاشرے کو آگے بڑهانے کو ہی نجات کا راستہ ثابت کرینگے۔

ميں پہلے بهی نيازمانہ ميں لکھ چکا ہوں کہ مڈل کلاس پاکستانيوں کی يہ ايک مقبول فرمائش ہوتی  آرہی ہے کہ ہم ہميشہ يہ کہتے ہيں  کہ پاکستان نے ہميں کیا ديا ہے ليکن يہ کبهی نہيں سوچا ہے کہ ہم نے پاکستان کو کیا ديا ہے؟  ان کے خيال ميں رياست لوگوں کی زمينيں، وسائل، پانی، گيس، بجلی، معدنيات اور سستی محنت کو اپنے قبضے ميں ليکر عوام سے مزيد کچھ لينے کا حق بهی رکھتی ہے۔یعنی عوام کے پاس اگر کوئی اور چيز بهی ہے تو وه بهی رياست کے حضور ميں نذرانہ کريں۔ ہمارے پاس کونسی اور چيز بچی ہے کہ ہم اسے ریاست کو صدقہ کریں؟ يہ سوال اگر کسی مارکس سے پوچها جائے تو وه فوراً جواب ديگا کہ ہمارے پاس صرف زنجيريں بچی ہيں۔

زنجيروں کو توڑنے کيلئے جدوجہد کرنی ہوتی ہے جو ہم نے نہيں کی، يا جس طرح سے کرنی چاہیے تهی اس طرح سے نہيں کی، يا جس طرح سے ہم جدوجہد کرنا چاہتے تهے اس کيلئے تاريخ کے اس دور ميں زياده گنجائش نہيں تهی۔اس آخری امکان پہ اتنا کہنا مناسب ہوگا کہ جو گنجائش موجود تهی اس کو ہم نے کتنا استعمال کیا اور مزيد گنجائش پيدا کرنے پہ کتنا ہم نے سوچا؟   سياست کيلئے موجود گنجائش کو استعمال کرنے اور سياست کيلئے مزيد گنجائش پيدا کرنے کی ضرورت پہ کيا سياسی حلقوں ميں  کوئی ايسے مباحثے چل رہے ہيں جن سے ان کی تاريخ اور سماج کی ايک منطقی سمجھ بوجھ رکهنے کا اندازه کسی موثر  پیمانے پہ ہوتا ہو؟

ايدهی صاحب پہ ایک تنقید يہ بهی ہوتی ہے کہ انہوں نے ایک آدھ بار فوج کی حکمرانی کے حق ميں بیا ن دیا۔ اس بيان کو کوئی جواز فراہم کرنے کی کوشش کرنا عبث ہے لیکن اس حوالے سے ميں ايک اہم نکتہ یہ اٹهانا چاہتا  ہوں کہ فوج کے ہاتهوں مسلسل ذلیل ہونے والی تقريباً ساری سياسی جماعتوں نے فوج کی حکمرانی  کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کا جو فیصلہ بغیر کسی اختلافی نوٹ کے قبول کيا اس کی تاريخی اہمیت کو ایدهی صاحب کے بیان سے کسی بهی صورت موازنہ نہيں کيا جاسکتا۔

پشتون قوم پرست دوست کل سے ايدهی صاحب کی باچاخان کے ساتھ عقيدت اور ان کو اپنا ہيرو ماننے کے  اعترافی کلمات کو سوشل ميڈيا پہ شئیر کررہے ہيں۔ ايدهی صاحب باچاخان کی جدوجہد کی سماجی پہلو سے متاثر تهے، وه  اے اين پی کے جلسوں ميں بهی شريک ہوئے تهے اور ان کو اے اين پی نے باچاخان  امن ایوارڈ بهی ديا تها۔

ميں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ باچاخان کی سماجی خدمت ان کی سياسی جدوجہد کا ايک حصہ تها جو کہ قومی تحريکوں ميں عموماً پايا جاتا ہے ليکن ايدهی صاحب کی سماجی خدمت کبهی بهی کسی تحريک کی شکل  اختيار نہيں کرگئی۔ سياسی تحريک ظلم و استحصال کے خلاف لوگوں ميں بیداری پيدا کرتی ہے، ظلم و استحصال کے اداروں کو کمزور بنا کرکے وسائل کے ازسرنو تقسيم کار کو اپنا منزل مقصود سمجھتی ہے. باچاخان تادم مرگ سامراج دشمن رہے۔ ایدهی صاحب کا اس حوالے سے کیا کردار تها اس پہ سوچنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے چند سوشلسٹدوستوں نے ايدهی صاحب کو بغير کسی جهجک کے کميونسٹ قرار ديا۔ دليل کے طور پر ان کو ملے ہوئے لينن امن ايوارڈ کا ذکر کيا۔ جہادی تنظيموں نے بهی ان کی خدمات کو سراہا۔ لبرل لوگوں  نے تو ان کے نام کے ساتھ انسانيتکا لفظ جتنا استعمال کيا شايد کبهی کسی کے ساتھ اتنا يہ لفظ استعمال ہوا ہو۔

خراج عقيدت کے ان تمام زاويوں سے ايک حقيقت بہت واضح سامنے آتی ہے کہ سياسی جماعتوں  نےايک ايسا خلاء معاشرے ميں چهوڑ رکها ہے جس کو پُر کرنا مستقبل قريب ميں ممکن نظر نہيں آتا۔ ايدهی صاحب سب کا ہيرو اس وجہ سے نہيں بنے کہ وه کچھ اتنا بڑا کام کرگئے تهے کہ جو سب کی نظر ميں غيرمتنازعہ تها بلکہ حقيقت ميں وه ايک ايسے دور ميں ايک فعال انسان کے طور پر رہے جس ميں پیچیده نوعيت کے ايک عوامی منظر نامے ميں سياسی جماعتيں نظرياتی لائنوں کو کچھ واضح کرنے ميں ناکام ہوگئيں اور ساری ايک ہی زبان ميں لبرل جمہوريت کے فضائل کو بيان کرتی رہيں۔

بالفاظ ديگر پاپولزم کے چکر ميں پڑے ہوئے  ليفٹ کےسياستدانوں نے شعوری اورلاشعوری طور پرمسلم ليگیلہجے ميں بات کرنا شروع کردی، مسلم لیگيوں نے حبيب جالب اور فيض احمد فيض کی نظمیں سنانا شروع کردیں، جماعت اسلامی نے معاشی استحصال کے خلاف ديواروں پہ نعرے لکهنا شروع کرديے اور لبرل حلقے جناح کے پاکستان کے چکر ميں پڑے رہے، تو اس سے ايک ايسا ماحول بنا جس ميں ايدهی صاحب ہی ايک بڑے انسان کا اعزاز حاصل کرنے ميں کامياب ہوسکتے تهے۔

 ميں ايدهی صاحب والے ماڈل کو کبهی بهی ايک منظم سياست کا متبادل تصور کرنے کيلئے تیار نہيں اور نہ ہی ميں خيراتی کاموں ميں انسانيت کی نجات ديکهتا ہوں لیکن ميرا مسئلہ يہ نہیں کہ ایدهی صاحب نے معاشرے کے ايک حصے کو خيراتوں کا عادی بنايا بلکہ ميرا مسئلہ يہ ہے کہ سياسی جماعتوں نے سماج کو سياسی بنانے کی بجائے اس کو خيراتی اداروں کے رحم و کرم پہ چهوڑ ديا ہے۔

کيا اس بحث سے يہ نتيجہ نکالا جا ئےکہ سياست ناکام ہوگئی ہے؟ ہر گز نہيں۔ کہنے کا مقصد صرف يہ تها کہ سياسی جماعتیں سماج ميں کچھ ان جگہوں کا ادراک  نہيں کرپائی ہيں جہاں پہ ان کی موجودگی بے حد ضروری ہے۔ کہنا صرف يہ ہے کہ ترقی پسند اور قوم پرست جماعتوں نے ايک عرصے سے ايک ايسی زبان بولنا شروع کردی ہے جس ميں  ريڈکل ورتھ کا فقدان ہے۔

ايدهی صاحب جن حساس جگہوںتک پہنچے، وہاں پہ جانے سے سياسی لوگ جب تک گهبراتے رہیں گے تو  يہ خلاء بڑهتا چلا جائے گا اور ضروری نہيں کہ کل اس  خلاء کو پُر کرنے کيلئے کوئی ايدهی صاحب جيسے بے ضررلوگ آئیں گے، کيا   وہا ں پہ موم بتی مافيا، سياست دشمن اين جی اوز اور  جہادی تنظیمیں پہلے سے نہيں پہنچی ہيں؟

Twitter: @khanzamankakar

10 Comments