محمداکمل سومرو
جب سے ایدھی کا اس فانی دُنیا سے رخصت ہونے کی خبر پڑھی عجب کیفیت طاری ہے، دل افسردہ ہے، ذہن کو جیسے گرہیں سی لگ گئی ہوں۔ یوں محسوس ہورہا ہے جیسے لاوارثوں کا وارث موت کی نیند سو گیا ہے، یوں لگتا ہے جیسے غریبوں ، مسکینوں، یتیموں پر سے شفقت کا سایہ اُٹھ گیا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے ایک عہد تمام ہوا وہ عہد جس میں مذیب سے بالاتر ہوکر انسانوں کے بنیادی حقوق کی پاسداری کی جاتی رہی۔
ایدھی جب حیات تھے تو اُن کے کمزور شریر میں بھی جوانوں جیسی طاقت تھی، عزم تھا، ہمت تھی، ایدھی کو تو انسانیت کی خدمت سے سکون ملتا تھا، یہ خدمت اُس کی بھوک مٹاتی تھی اور یہی خدمت اُس کی عبادت تھی۔ ایدھی کی موت کے بعد بھی ایدھی فاؤنڈیشن لاوارث لاشوں کو اُٹھا رہی ہے، ایدھی کی ایمبولینسوں کی سرخ بتیاں نہیں بجھیں۔ بس بجھ گئے ہیں تو ہمارے دل، اُداس ہیں تو ہماری آنکھیں۔ ہمیں تصویر کا دوسرا رخ بھی تو دیکھنا پڑے گا۔
ہمیں اسی خود پرستی میں مبتلا سماج کا تحلیل و تجزیہ بھی تو کرنا ہوگا یا پھر ہم ایدھی کو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنانے اور نشان امتیاز دینے کے بعد خاموش ہوجائیں گے۔ ویسے بھی ایدھی جب حیات تھے اُنہیں کبھی سرکار کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اب موت کے بعد سرکاری اعزاز دینے سے اُن کی روح کو کونسا سکون مل جائے گا؟ وہ تو خلق خدا کی خدمت کر کے ہی اپنی روح کو سکون دیتے رہے۔
ایدھی نے شب و روز، ماہ و سال اس مٹی پر گزارے، نہ کوئی جائیداداور نہ ہی کوئی عیش و عشرت کی زندگی۔ کیا ہمیں یا پھر ریاست کو اس سے سبق نہیں لینا چاہیے؟جو کام ریاست کا بنیادی فرض تھا وہ عمر بھر ایدھی سر انجام دیتا رہا۔ ریاست غریب کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ لگاتی رہی اور ایدھی غریبوں کی عملی سرپرستی کرتا رہا۔ پاکستان کی ریاست کا وجود تو اس فلسفے کی بنیاد پر رکھا گیا تھا کہ یہاں پر برابری کی بنیاد پر ہی شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا؟ لیکن پھر یہ کیسے ہوگیا کہ امیر و غریب کے درمیان لکیروں میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔
جب ریاست اپنا بنیادی فریضہ ہی سر انجام نہیں دے رہی تو ایسی ریاست کے وجود سے انسانیت کو فائدہ کیسے پہنچ سکتا ہے؟ ایدھی کا مذہب تو انسانیت تھی اور ریاست اسی انسانیت کی تذلیل کرتی ہے۔ عمر رسیدہ افراد کا سڑکوں پر لاوارثوں کی طرح سونا، ٹریفک کے اشاروں پر اپنی عزت نفس کو بیچ کر ہاتھ ایک وقت کی روٹی کے لیے ہاتھ پھیلانا، جھونپٹر بستیوں میں بسنے والے لاکھوں افراد سے منہ موڑنا، اُنہیں زندگی کی بنیادی ضروریات بہم پہنچانے سے غفلت کا مظاہرہ کرنا، کیا ریاست کے حکمران اس کے ذمہ دار نہیں ہیں؟
ایدھی نے تو امن پھیلایا، ایدھی نے تو بھائی چارہ دیا، ایدھی نے تو مذہب کی بنیاد پر نفرتوں کا خاتمہ کیا۔ ریاست کا یا پھر انفرادی طور پر ہمارے سماج کے رویے تو ایدھی سے بالکل متضاد ہیں۔ ہم تو مذہب کی بنیاد پر نفرتوں کا روبار کرتے ہیں، ہم تو مذہب کی بنیاد پر قتل و غارتگری سے دریغ نہیں کرتے، ہم تو اپنے ہمسائیوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش نہیں آتے، ہم تو بازاروں میں لوٹ مار کرتے ہیں، ہم تو خود غرضی میں مبتلا ہوکر دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے مصیبتیں لاتے ہیں۔ ہمارا کیا ہے ، ہم تو ایک ایسے سماج میں زندگی بسر کرتے ہیں جہاں انسانیت کا پامال ہوتا ہے۔
ہم کس کا ماتم کریں، کس پر اشکبار ہوں، ایدھی کی جدائی پر یا ریاست کے ظلم پر جو وہ ستر سالوں سے کرتی چلی آرہی ہے۔عوام اسے محض ایک عہد تمام ہوا سمجھ کر اپنے اپنے کاروبار زندگی میں مصروف ہو جائیں گے یا پھر ریاستی اداروں، حکمرانوں سے ایدھی جیسا کردار نبھانے کا کوئی مطالبہ بھی پیش کریں گے؟ کیا ہم بے حسی کا شکار رہیں گے یا پھر اپنے حکمرانوں کا محاسبہ کرنا بھی اپنا فرض سمجھیں گے؟ مورخ لکھے گا جس روز ایدھی کا جنازہ تھا عین اُسی روز ملک کا وزیر اعظم شاہانہ انداز میں اپنے شاہی خاندان کے ہمراہ سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے کے خرچے پر لندن سے وطن واپس آنے کے لیے محو پرواز تھا۔ اُسی ریاست کا وزیر اعظم اپنے ذاتی معالجے کے لیے دُنیا کے مہنگے ترین ہسپتال میں زیر علاج رہتا ہے اور اسی ریاست کا غریب ترین امیر شخص ایدھی وطن سے محبت میں بستر مرگ پر ہونے کے باوجود بیرون ملک علاج سے آمادہ نہیں ہوتا۔
ریاست کو اپنے تضادات سے باہر نکلنا ہوگا۔ عوام کی سرپرستی کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ایدھی نے ایک فرد سے ایک ادارہ بناکر عظیم الشان مثال قائم کی، ریاست کے پاس بے شمار ادارے ہونے کے باوجود ، قوت و طاقت ہونے کے باوجود ایدھی جیسا ادارہ بنانے کی ہمت نہیں۔ حکمران اور ان کے حواری ایدھی کی موت پر اتنے ہی دکھی ہیں تو پھر ایدھی کے فلسفے کو اپنا لیں۔ وہ فلسفہ جس کی بنیاد انسانیت کو توڑنے کی نہیں بلکہ جوڑنے کی ہے وہ فلسفہ جو غریب و یتیم کی کفالت کرتا ہے۔ وہ فلسفہ جس پر عمل پیرا ہوکر غریب پیدا کرنے کے اسباب کو ہی ختم کر دیا جائے وہ فلسفہ جس سے غربت اور امارت کے درمیان فرق کم ہوجائے۔ وہ فلسفہ جس میں ریاست خود سے کفالت کی ذمہ داری لے۔ کیا یہ سب کرنا مشکل ہے؟
اگر مشکل ہے تو پھر ایدھی کے جسد خاکی کو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنانے، پاک فوج کی سخت سیکورٹی فراہم کرنے، نشان امتیاز دینے اور غم میں مبتلا ہونے کا سارا منظر صرف تعزیت سے آگے کچھ نہیں ہوگا۔ سندھ حکومت یا پھر وفاقی حکومت کو ایدھی سے محبت ہے تو پھر ایدھی کا کام آگے بڑھاؤ، ایدھی کی ایمبولینس سروس کو وسعت دینے کے لیے مزید گاڑیاں سرکاری طور پر فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے ۔ ایدھی کے فلاحی اداروں میں موجود سہولیات کو مزید بہتر کرنے کے لیے رقوم فراہم کی جائیں۔ان یتیم خانوں میں موجود بچوں کو تعلیم دینے کے لیے ریاست کو بندوبست کرنا ہوگا، حکمرانوں کو غریب کے ووٹ کو اپنی طاقت بنانے کے فلسفہ کو ترک کرنا ہوگا۔ یہ طاقت حکمرانوں کو اس لیے نہیں دی جاتی کہ اس کے نشے میں انسانیت کو ہی بھلا دیا جائے یا پھر اپنی ہی عوام پر زندگی تنگ کر دی جائے۔
ایدھی ایک شخص نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے ۔ اس عہد کو زندہ رکھنے کے لیے ریاست کو اب یہ ذمہ داری لینا ہوگی، حکومت کو خود ایدھی بننا ہوگا۔ایدھی نے تو دُنیا سے رخصت ہونے کے بعد اپنی آنکھیں بھی عطیہ کر دیں جن آنکھوں سے وہ انسانیت کا درد دیکھ کر فکر مند ہوتے وہی آنکھیں دکھی انسانیت کو ہی دے گئے۔
♠