لیاقت علی ایڈوکیٹ
برصغیر کی دو ریاستوں ۔بھارت اور پاکستان میں تقسیم اس انداز میں ہوئی تھی کہ دونوں ممالک میں مذہبی اقلیتوں کا وجود ناگزیر تھا ۔پاکستان میں شامل پنجاب سے ہندووں اور سکھوں کی بڑی تعداد نقل مکانی کرکے بھارت جب کہ مشرقی پنجاب ،یوپی اور بہار سے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد پاکستان آگئی ۔تقسیم کے بعد دونوں ممالک کی حکومتوں نے مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور دونوں ممالک میں موجود ان کی مذہبی اور ثقافتی مقامات کے تحفظ، نگہداشت اور مستقبل میں ان کے انتظام ا انصرام کے حوالے سے سلسلہ جنبانی شروع کیا ۔
چنانچہ اپریل1950دونوں ممالک نے چھ روز تک بھارت کے دارالحکومت دہلی میں اس حوالے سے مذاکرات کئے اور جو معاہدہ ہوا اس پر8۔اپریل 1950کوبھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے دستخط کئے تھے ۔ اس معاہدے کو ذرائع ابلاغ نے لیاقت نہرو معاہدے کا نام دیا تھا ۔
اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک میں رہ جانے والی مذہبی اقلیتوں کو مکمل انسانی حقوق دینے کا عہد کیا گیا تھا اور ہر طرح کے مذہبی تعصب اور امتیاز کو مسترد کیا گیا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی اقلیتوں کے مذہبی اور ثقافتی مقامات اور ان سے جڑی جائدادوں کے تحفظ اور انتظام و انصرام کے لئے ایک میکنزم بنانے پر اتفاق رائے ہو اتھا ۔
اس معاہدے کے تحت یہ طے ہوا تھا کہ اقلیتوں کے مذہبی مقامات کے تحفظ اور انتظام انصرام کے لئے دونوں ممالک ایسے ادارے بنائیں گے جس کا سربراہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والا فرد ہوگا ۔ بھارت میں یہ عہدہ کسی مسلمان کو جب کہ پاکستان میں کسی ہندو یا سکھ کو ملے گا ۔ بھارت نے اس معاہدے کی روشنی میں1964میں مسلم وقف بورڈ کے نام سے ایک ادارہ بنایا جس کے ذمے مسلمان اقلیت کے مقدس مقامات کا تحفظ اور ان کا انتظام و انصرا م تھا ۔
مسلم وقف بورڈ ایک وقت تو یونین حکومت کے زیر کنٹرول تھا لیکن بہت جلد اسے ریاستوں کے سپرد کر دیا گیا ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ بھارت کی 29ریاستوں میں تیس مسلم وقف بورڈز کام کر رہے ہیں ۔بہار میں دو بورڈز ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں مسلم وقف بورڈ کی آمدن کا پندرہ فی صد حصہ اہل تشیع سے جڑے مقامات سے حاصل ہوتا ہے وہاں اہل تشیع کے لئے علیحدہ بورڈ بن جاتا ہے ۔
پاکستان ایک طویل عرصہ تک اقلیتوں کے مذہبی مقامات اور ان کی جائدادوں کے انتظام کے لئے کوئی ادارہ بنانے میں لیت و لعل سے کام لیتا رہا ۔1970میں کہیں جاکر ایک ادارہ تشکیل دیا گیا جسے ہم متروکہ وقف املاک بورڈ کے نام سے جانتے ہیں ۔یہ ادارہ پہلے بھی مرکز کے پاس تھا اور اٹھارویں ترمیم کے باوجود بھی مرکز ہی کے پاس ہے ۔ صوبوں کو اس بورڈکے معاملات میں دخل دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔ اس بورڈ کو بنے46سال ہوچکے ہیں لیکن آج تک کسی غیر مسلم کو اس کا سر براہ نہیں بنایا گیا ۔
متروکہ وقف املاک بورڈ کی سالانہ آمدن اس کے چیئر مین کے مطابق 1.13بلین روپے اوراخراجات 1.1بلین روپے ہیں۔یہ بورڈ 15849ہندو اور سکھ جائدادوں کا انتظام کرتا ہے اور ہندو اور سکھ مذہبی مقامات کے ساتھ جو وقف زرعی اراضی ہے وہ ایک لاکھ ایکڑہے یہ بھی بورڈ ہی کے پاس ہے۔یہ بورڈ 1221ہندو مندروں اور 588سکھ گردواروں کے تحفظ اور انتظام و انصرام کا ذمہ دار ہے ۔
متروکہ وقف املاک بورڈ جن مقاصد کے حصول کی خاطر بنایا گیا تھا بورڈ ان مقاصد کو حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے ۔بورڈکی سربراہی کسی ہندو اور سکھ کو ملتی یہ تو آج تک نہیں ہوا بلکہ بر سر اقتدار حکومت بورڈ کی سربراہی کو سیاسی رشوت کے لئے استعمال کرتی ہے ۔موجود ہ چیئر مین صدیق الفاروق کا سیاسی پس منظر جماعت اسلامی کا ہے لیکن کچھ سالوں سے وہ ن لیگ کے وفاداروں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔
ماضی میں یہ عہدہ فوجی جرنیلوں کا خصوصی استحقاق سمجھا جاتا تھا ۔ ایک وقت تو اس کے سربراہ سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل جاوید ناصر کو بنایا گیا تھا ۔انھوں نے اس بورڈ کو انٹیلی جنس مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے کا آغاز کیا ۔ پاکستان آنے والے سکھ زائرین کو خالصتان کے حصول کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنا ، مسلمان سکھ دوستی اور ہندو وں کی’کینہ پروری ‘پر سیمنارز کا اہتمام اور بھارت مخالف جذبات کا فروغ بورڈ کا ایجنڈا قرار پایا ۔
بورڈ کی آمدن کو خرچ کرنے کا اختیار کیونکہ مرکزی حکومت کو حاصل ہے اس لئے چیئر مین صدیق الفاروق کے مطابق بورڈ کی آمدن سے دینی مدارس کی فنڈنگ بھی کی جاسکتی ہے ۔بورڈ اس وقت جانکی دیوی جمعیت سنگھ ہسپتال کے علاوہ ساتھ دوسرے ایسے ادارے چلا رہا ہے لیکن بورڈ بعض ایسے تعلیمی ادارے بھی چلارہاہے جو بورڈ کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہیں ۔
ان اداروں میں حضرت عائشہ صدیقہ ڈگری کالج ، ڈاکٹر متین فاطمہ ٹرسٹ ماڈل سکول اور ٹرسٹ ماڈل پبلک ہائی سکول وغیر ہ شامل ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے ٹرسٹ کی آمدن کو اقلیتوں کی تعلیم صحت اور روزگار کے ادارے بنانے کے لئے خرچ کی جائے نہ کہ اسے بھارت مخالف فورم کے طور پر استعمال کیا جائے ۔
♦
One Comment