آصف جاوید
گذشتہ ہفتے کے روز پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے پریس کو دئے گئے اپنے ایک بیان میں کہا ہےکہ “کشمیری حریت رہنما برہان وانی سمیت دیگر کشمیریوں کا ماورائے عدالت قتل قابل مذمّت ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام پر مظالم انسانی حقوق کی ِخلاف ورزی ہیں۔ اور یہ مظالم جموں و کشمیر کے عوام کو اُن کے حق خوداردایت کے مطالبے سے نہیں روک سکتے۔ دفتر ِ خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر میں حریت رہنماؤں کی گرفتاری سے پاکستان کو شدید تشویش ہے۔ پاکستان نے انڈین گورنمنٹ پر زور دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداروں کے مطابق انسانی حقوق کی پاسداری کرے اور اپنے وعدے پورے کرے“۔
اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ گزشتہ جمعہ انڈین آرمی کے کمانڈنٹ میجر جنرل اشوک نرولہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ راشٹریہ رائفلز، سنٹرل ریزور پولیس فورس اور جموں و کشمیر پولیس نے ایک اطلاع پر دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ آپریشن کرکے تین دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے ، جس میں سے ایک برہان وانی بھی تھا بائیس سالہ برہان مظفّر وانی ، جنوبی کشمیر کے گائوں دادسرا کا رہنے والا تھا ۔ سال 2010 میں برہان مظفّر وانی میٹرک کا امتحان دینے کے بعد اپنا گھر بار چھوڑ کر عسکری تنظیم حزب المجاہدین میں شامل ہوگیا تھا۔ ۔ وہ حزب المجاہدین کا ضلعی کمانڈر اور انتہائی مطلوب عسکریت پسندوں میں شامل تھا ۔ پچھلے مہینے برہان مظفّر وانی نے ایک ویڈیو پیغام ریلیز کیا تھا جس میں اس نے کشمیری پنڈت اور دوسرے ہندوؤں کی کالونیوں پر بم حملے کرنے کی دھمکیاں دی تھیں ۔ اپنے ویڈیو پیغام میں اس نے جموں وکشمیر پولیس پر بھی حملے کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جموں و کشمیر پولیس نے اس کی اطلاع دینے والے کو دس لاکھ روپے کا اعلان بھی کر رکھا تھا۔
گزشتہ جمعے کی شام علیحدگی پسند کمانڈر برہان مظفّر وانی کی ہلاکت کے بعد سے انڈین کشمیر میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔ ہفتہ نو جولائی کو انڈین کشمیر کے جنوبی حصوں میں بڑے پیمانے پر جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا ، جو ہنوز جاری ہے۔ بھارتی فورسز نے مظاہرین کے خلاف لاٹھی چارج، اسلحے اور آنسو گیس کا بھی استعمال کیا ہے۔ بھار تی کشمیر کے اہم شہر سری نگر اور وسطی اور شمالی حصوں کے کم از کم ایک درجن دیگر مقامات پر جھڑپیں جاری ہیں۔ تادمِ تحریر ان ہنگاموں میں اب تک 36 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ ریاستی حکام کا کہنا ہے کہ احتجاجی لہر کے دوران زخمی ہونے والوں کی تعداد 3100 ہے جن میں سے 1500 سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ انڈین حکومت نے پرتشدد واقعات پر قابو پانے کے لیے مزید فورسز تعینات کی ہیں۔ وادی کے دس اضلاع میں مکمّل کرفیو نافذ ہے ، موبائل اور انٹرنیٹ کی سروسز بند بھی کر دی گئی ہیں۔
دوسری طرف خود پاکستان میں امن و امان اور انسانی حقوق کی صورتحال بہت مخدوش ہے، بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن جاری ہے۔ بلوچستان اور کراچی میں نوجوانوں کی گھروں سے گرفتاریاں، جبری گمشدگیاں، زیرِ حراست بہیمانہ تشدّد، ماورائے عدالت قتل ، ویرانوں سے مسخ شدہ لاشوں کا ملنا اب روز مرّہ کا معمول بن گئے ہیں۔
اقوامِ متّحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کے موضوع پر خصوصی کانفرنس سے اپنے خطاب میں عسکریت پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کو“کشمیری رہنما کا ماورائے عدالت قتل” قرار دیا ہے۔جس کے جواب میں انڈین مندوب نے کہا کہ ایک ایسے ملک کو حقوقِ انسانی کی بات زیب نہیں دیتی جو خود اپنے یہاں “دہشت گردی کو ریاستی پالیسی” کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بہت نازک ہے، کراچی اور بلوچستان میں ریاست اپنی رٹ قائم کرنے کے چکّر میں انسانی حقوق کی پامالی کی تمام تر حدود پار کر چکی ہے۔
پاکستان میں رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں مشکے، آواران، خاران، دشت، کیچ، کوہلو اورڈیرہ بگٹی سمیت پورے صوبے میں ریاستی فورسز کا آپریشن جاری ہے۔ آپریشن کے نتیجے میں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنے گھروں اور آبائی علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ قوم پرست بلوچ تنظیموں نے ریاست پر الزام عائد کیا ہے کہ بلوچ نوجوان کو حراست میں لے کر جبری طور پر گمشدہ کردیا جاتا ہے، زیرِ حراست تشدّد کرکے مار دیا جاتا ہے اور مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ماورائے عدالت قتل بلوچ نوجوانوں کا مقدّر بن گئے ہیں۔
ادھر پاکستان کی ایک چوتھی بڑی سیاسی جماعت متّحدہ قومی موومنٹ نے بھی الزام لگایا ہے کہ کراچی میں گذشتہ پونے تین سال سے جاری آپریشن کے دوران ایم کیوایم کے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جو تا حال لاپتہ ہیں۔ گرفتار شدگان کو ابھی تک کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ اب تک ان گرفتار شدگان میں سے 61 کارکنوں کو زیرِ حراست تشدّد کرکے ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا ہے اور قتل کے بعد ان کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دی جاتی ہیں۔ چند دن قبل ریاض الحق نامی کارکن کی تشدّد زدہ لاش ملی ہے، جسے رینجرز نے گزشتہ سال 19 مئی کو اس کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا اور وہ ہنوز لاپتہ تھا ۔ ایم کیو ایم نے مقتدر ادروں کے سربراہان اور چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے ، کہ عدالت عظمی‘از خود نوٹس لے کر ماورائے عدالت قتل ہونے نوجوانوں کے قتل کی تحقیقات کروائے، اور زیرِ حراست ملزموں کو ماورائے عدالت قتل ہونے سے بچایا جائے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ ریاست کی ذمّہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کے جان و مال کا تحفّظ یقینی بنائے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ ملک کے آئین و قانون کی پابندی کریں۔ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی نہ کریں، زیرِ حراست ملزمان کو کو آئین میں دئے گئے بنیادی حقوق سے محروم نہ کریں، ملزمان کو حبسِ بیجا میں نہ رکھا جائے، ملزمان کو عدالتوں میں پیش کرکے ان کے خلاف مقدمات چلائے جائیں، جرم ثابت ہونے پر سزا دی جائے مگر ان کو جبری گمشدہ نہ کیا جائے، تشدّد گاہوں میں ان پر زیر حراست بہیمانہ تشدّد نہ کیا جائے، ملزمان کو ماورائے عدالت قتل کر کے ویرانوں میں ان کی مسخ شدہ لاشیں نہ پھینکی جائیں۔ آئین و قانون کی دھجّیاں نہ اڑائی جائیں۔ ریاستِ پاکستان انڈین کشمیر میں انڈین فوج کی کارروائیوں کو تو ریاستی دہشت گردی قرار دیتی ہے، مگر کراچی اور بلوچستان میں اپنی فوج کی کارروائیوں کو قانون کی عمل داری قرار دیتی ہے۔
کیا یہ دوہرا معیار نہیں ہے؟؟؟
ریاستی ادارے تو شک کی بنیاد پر بغیر کسی عدالتی کارروائی کے اپنے (مبیّنہ) مجر موں کو ان کے (مبیّنہ) جرائم کی سزا دے دیتے ہیں۔ مگر ریاستی اداروں کے جرائم کی سزا اِن اداروں کو کون دے گا؟؟؟
اگر انڈیا میں برہان وانی کا ماورائے عدالت قتل ، قابلِ مذمّت ہے ، تو پھر پاکستان میں بلوچ اور مہاجر نوجوانوں کا ماورائے عدالت قتل ، قابلِ تحسین کیوں ہے؟؟؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ ریاست پاکستان سے اس دوہرے معیار کا جواب ابھی تک کسی نے طلب نہیں کیا ہے۔
♠