بیرسٹر حمید باشانی-ٹورنٹو
ہمارے ہاں عام طور پر سیاست کو اچھا کام نہیں سمجھا جاتا ۔اگرچہ حالیہ عشرے کے دوران اس خیال میں تھوڑی بہت تبدیلی آئی ہے۔ پھر بھی سیاست کے بارے میں عمومی طور پر موجود منفی تاثر برقرار ہے۔اس کا اظہار اکثر ہما ری روزمرہ کی زبان اور محاوروں سے ہوتا ہے۔
اگر کسی جھوٹے، چالاک یا مکار شخص کو با الفاظ دیگر بیان کرنا ہوتو کہا جاتا ہے کہ یہ بڑا سیاسی ہے، اس سیذرا بچ کے رہنا۔اس طرح اگر کوئی باکردار اور سچا آدمی سیاست میں آنے کی کوشش کرے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بے چارہ شریف آدمی ہے، سیاست اس کے بس کی بات نہیں۔سیاست کے بارے میں عوامی سطح پر پائی جانے والی اس غلط فہمی کا ایک باقاعدہ پس منظر ہے، اور کئی ٹھوس وجوہات ہیں۔
ان وجوہات میں پہلی بڑی وجہ وہ تاریخی کشمکش ہے جو قیام پاکستان کے فورا بعد سیاست دانوں اور ہیت مقتدرہ یعنی اسٹبلشمنت کے درمیان شروع ہو گئی تھی۔اس کشمکش کا سب سے پہلا شکار خود حضرت قائد اعظم محمد علی جناح بنے۔پاکستان کے قیام کے فورا بعد جو لوگ سول اور ملٹری بیوروکریسی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے انہیں قائد اعظم کی شخصیت اور ان کے نظریات سے اختلاف تھا۔ان میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد تھی جو قیام پاکستان سے پہلے انڈین سول یا فوجی سروسز میں تھے۔
ان میں سے کئی ایک کو اپنی ملازمتوں کے دوران ہندواوں کے ساتھ معاملات میں کچھ ذاتی تجربات ہوئے تھے جن کی وجہ سے وہ سخت قسم کے تعصبات کا شکار تھے۔ان کے نزدیک قیام پاکستان کا مطلب ایسا وطن تھا جہاں ملازمتوں کے دوران انہیں ہندو نامی کسی چیز سے واسطہ نہیں پڑے گا۔ان میں سے کچھ کا خیال تھا کہ ہندوؤں سے پاک اس وطن میں کاروبار ریاست اور حکومت اسلامی قوانین کے تحت ہی ہو گا۔
قیام پاکستان کے فورا بعد قائد اعظم کے کچھ بیانات، اعلانات اور اقدامات ان لوگوں کے لیے حیران کن اور نا قابل قبول تھے۔ان میں قائد اعظم کی گیارہ اگست والی تقریر سر فہرست تھی۔اس تقریر سے سر کاری طور پر باقاعدہ اختلاف کیا گیا۔اور موقف یہ اختیار کیا گیا کہ اگر پاکستان میں ہندو اور مسلمان برابر اور مل جل کر رہیں گے تو پھر پاکستان بنانے کا مقصد کیا رہ جاتا ہے۔ان کے خیال میں قائد اعظم جن خیالات کا اظہار کر رہے تھے وہ دو قومی نظریے کی نفی تھی۔
چنانچہ ان لوگوں نے اپنے آپ کو پاکستانی ریاست کا اصل محافظ قرار دیتے ہوئے تمام معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کو قائد اعظم کے ایسے خیالات پیش کرنے سے منع کر دیا گیا جو ان لوگوں کے خیال میں دو قومی نظرئیے کے بارے میں کنفیوزن پھیلا سکتے تھے۔ڈان اخبار، جس کے بانی خود قائد اعظم تھے، کے اس وقت کے ایڈیٹر الطاف حسین اس وقت ششدر رہ گئے جب انہیں وزارت اطلاعات کی طرف سے یہ ہدایات موصول ہوئیں کہ وہ قائد اعظم کے ایسے بیانات چھاپنے سے گریز کریں۔
یہ سیاست دانوں اور ان کی دانش پر نوکر شاہی کا پہلا بڑا حملہ تھا۔ اس زور آزمائی کاآغاز جس سیاست دان سے ہوا وہ اس ملک کا بانی،پہلاگورنر جنرل، تحریک پاکستان کا غیر متنازعہ لیڈر اور عوام میں بے پناہ مقبولیت رکھتا تھا۔چنانچہ یہ محض آزادی اظہار رائے کا سیدھا سادہ مسئلہ نہیں تھا۔یہ سیاست دانوں کے خلاف ایک باقاعدہ لڑائی کا آغاز تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک خوفناک جنگ کی شکل اختیار کر گئی۔
قائد اعظم کی تقاریر کی طرح ان کے بعض عملی اقدامات بھی ان لوگوں کے لیے نا قابل برادشت تھے۔قائد اعظم کی طرف سے اپنی پہلی کابینہ کا اعلان ان لوگوں کے لیے ایک شدید صدمہ تھا جس کی وجہ سے ان کے ہاں صف ماتم بچھ گئی۔ان لوگوں کے لیے یہ بات نا قابل برداشت تھی کہ جو ملک اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے اس میں اسلامی قانون سازی کے بجائے جوگندر ناتھ مینڈل جیسا شخص وزیر قانون ہو۔جسٹس کارنیلسن جیسا عیسائی چیف جسٹس ہو یا پھر سر ظفراللہ جیسا احمدی وزیر خارجہ ہو۔
چنانچہ قائد اعظم کے خلاف اسٹبلشمنٹ نے محاذ بنا کر ایک غیر اعلانیہ مارشل لا اور پریس سنسر عائد کر دیا۔بیماری اور دوسرے حیلوں بہانوں سے ان کو ریاستی معاملات سے الگ تھلگ کر دیا گیا۔سیاست دانوں کے خلاف اس کامیابی سے پھولے نہ سماتے ہوئے ان لوگوں نے محاذ آرائی اور کردار کشی کا سلسلہ جاری رکھا۔قائد اعظم کی وفات کے بعد ان لوگوں کا کام اور بھی آسان ہو گیا۔
لیاقت علی کے قتل کے بعد صرف چھ سالوں میں سات وزرائے اعظم کو پے در پے نشانہ بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی، کہ سیاست دان نکمے، ناکام، چلاک مکار نا اہل ہیں۔ اور اس طرح ملک پر فوجی حکومت کی ضررورت کا نظریہ گھڑا گیا جو کسی نہ کسی شکل میں آج تک چل رہاہے۔
اگر سیاست اور سیاست دانوں کے بارے میں یہ منفی تاثر نہ پیدا کیا جاتا تو ملک میں طویل آمریتوں کے دور نہیں چل سکتے تھے۔چنانچہ آج بھی کئی کئی جب یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ سیاست دان کرپٹ یا نا اہل ہیں تو اس کے ساتھ ہی فوجی حکومت کی بات بھی ہوتی ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
♣