راولپنڈی کا سوامی نرائن مندر خطرے میں ہے

لیاقت علی ایڈووکیٹ

5613d32bd3fa3

متروکہ وقف املاک بورڈ اپنے چارٹر کی روشنی میں پاکستان کی غیر مسلم اقلیتوں (ہندو،سکھ) کی وقف جائدادوں کے تحفظ اور نگہداشت کا پابند ہے لیکن زمینی حقائق کی گواہی اس کے بالکل بر عکس ہے ۔ ان وقف جائدادوں کا تحفظ کرنے کی بجائے بورڈ کے اہلکاروں نے ان جائدادوں کو مال غنیمت سمجھتے ہوئے اس کی لوٹ سیل لگا رکھی ہے ۔

یہ لوٹ مار قیام پاکستان کے فوری بعد شروع ہوگئی تھی اور سات دہائیاں ہونے کو آئی ہیں یہ سلسلہ ہے ابھی تک پورے زور شور سے جاری ہے۔ پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافے کی بدولت ان جائدادوں پر قبضے اور ان غیر قانونی طور پر خرید وفروخت میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔

اقلیتوں کی ان وقف جائدادوں کو کس طرح ہڑپ کیا جارہا ہے اس کی ایک مثال راولپنڈی کا سوامی نرائن مندر ہے ۔ گوالمنڈی راولپنڈی کا مشہور رہائشی اور تجارتی علاقہ ہے ۔ یہاں تقسیم سے قبل کا ایک مندر واقع ہے ۔علاقے کی جامع مسجد کے سامنے اور عید گاہ کے نزدیک اور تجارتی سر گرمیوں کے مرکز میں واقع اس مندر پر لینڈ مافیا کی نظریں ہیں ۔ دس مرلے رقبے پر محیط اس مندرکو تین سڑکیں لگتی ہیں جس کی وجہ سے اس کی تجارتی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اگر اس مندر پر کسی طور قبضہ ہو جائے تو اسے بہت بڑے تجارتی پلازہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ یہی وہ لالچ ہے جس کی بنا پر مندر پر قبضے کے جتن کئے جارہے ہیں۔

مقامی ہندو کمیونٹی کے مطابق دو عشرے قبل تک یہ ایک فنکشنل مندر تھا جہاں ارد گرد کی آبادیو ں میں رہنے والے ہندو آکر عبادت کیا کرتے تھے ۔ بابو رام اور شکنتلا دیوی جو میاں بیوی ہیں اس مندر کے سیوک تھے ۔یکا یک ایک دن اعلان ہوا کہ مندر کے سیوک میاں بیوی نے اسلام قبول کر لیا ہے ۔ اس اعلان کے ساتھ یہ اعلان بھی ہو گیا کہ ان کے قبول اسلام کے بعد یہ مندر اپنی مذہبی حیثیت کھو بیٹھا ہے ۔متروکہ وقف املاک بورڈ کے اہل کاروں نے ’ثواب‘ کمانے کے لئے فوری طور پر مندر کو رہائشی پراپرٹی ڈکلیر کر دیا ۔ اس ڈیکلریشن کے پس پشت مقصد یہ تھا کہ مندر پر قبضے کو قانونی جواز فراہم کیا جاسکے ۔

آل پاکستان ہندو ، سکھ کونسل کے سر براہ جگ موہن اروڑ ہ کے مطابق رہائش پذیر میاں بیوی مقامی ہندو آبادی کی اجازت اور تعاو ن سے مندر کی دیکھ بھال اور خدمت پر مامور تھے ۔ اس خدمت کے صلے میں انھیں وہاں رہائش کی اجازت دی گئی تھی ۔ یہ کوئی رہائشی پراپرٹی نہیں تھی جسے انھوں نے مندر بنا رکھا ہو۔ 1992 میں اسلام قبول کرنے کے بعد میاں بیوی نے عدالت میں مندر پر قبضے کا دعوی دائرکر دیا اور جیسا کہ جائداد سے متعلق امور میں ہوتا ہے یہ دعویٰ ایک طویل عرصے تک چلتا رہا اور گذشتہ ماہ مدعیوں نے یکا یک اس دعویٰ کو بغیر فیصلہ واپس لے لیا ۔

اب متروکہ وقف املاک بورڈ کا شمالی زون اس منظر نامے میں داخل ہوتا ہے ۔ بورڈ کے مطابق وہ مندر کا معاہدہ کرایہ داری شکیلہ بی بی ( شکنتلا دیوی ) کے نام کر رہا ہے ۔ اور شکنتلا دیوی عرف شکیلہ بی بی مندر کے اس پلاٹ کو کسی دوسری پارٹی کو منتقل کر رہی ہے جو اس پر ملٹی سٹوری پلازہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔جگ موہن اروڑہ کا یہ کہنا ہے ۔قانون کے مطابق کسی ہندو عبادت گاہ کا سٹیٹس تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔

گوالمنڈی کا سوامی نرائن مندر کا پراپرٹی نمبر 4316 بورڈ کے ریکارڈ میں درج ہے۔ 1949 میں اس مندر کو مقامی انتظامیہ نے ہندووں کے حوالے کیا تھا ۔گذشتہ کئی سالوں تک ہندو مذہب کے سبھی تہوار اس مندر میں منائے جاتے تھے لیکن جو نہی بابو رام ( حال عبدالحمید ) اور اس کی بیوی نے اسلام قبول کیا بورڈ نے اس مندر کو سیل کردیا ۔

چاہیے تو یہ تھا کہ ان میاں بیوی کو مندر سے بے دخل کرکے اسے مقامی ہندو کمیونٹی کے حوالے کیا جاتا ہے لیکن بورڈ اہل کاروں نے نومسلم عبدالحمید کی حمایت کرنا شروع کر دی ۔ اس حمایت کا مقصد یہ تھا کہ پلاٹ کو لینڈ مافیا کے ہاتھ فروخت کیا جاسکے ۔ اس دوران ستمبر1996 میں وفاقی محتسب نے بھی سوامی نرائن مندر کو مقامی ہندو پنجائت کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا لیکن بورڈ نے محتسب کے اس حکم کو ہوا میں اڑا دیا ۔

جب مندر کے سیوک میاں بیوی نے اسلام قبول کرنے کے بعد مندر پر قبضے کر لیا تو مقامی ہندو کمیونٹی کے ایک وفد نے اس وقت وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے ملاقات کرکے مندر کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا ۔محترمہ نے اس معاملے کو وفاقی محتسب کے حوالے کرنے کا حکم دیا جس پر محتسب نے مذکورہ بالا حکم دیا تھا لیکن اس حکم پر آج تک عمل نہیں ہو سکا ۔ اس حکم پر عمل در آمد نہ ہو سکنے کی وجہ متروکہ وقف املاک بورڈ کے اہلکار ہیں جو اقلیتوں کی وقف جائدادوں کو مال غنیمت سمجھتے ہوئے اس کی لوٹ مار جائز خیال کرتے ہیں۔

Comments are closed.