کیا تاریخی آسیب کی جھاڑ پھونک ممکن ہے

سبط حسن

timthumb

1

مصر کے ایک ادیب کی کہانی ’’کرسی بردار‘‘ کچھ سال پہلے ’’آج‘‘ کراچی میں چھپی تھی۔ یہ ایک تمثیلی کہانی ہے۔ کہانی کی ابتداء میں ایک کرسی بردار ہجوم میں نظر آتا ہے۔ وہ بوڑھا، حددرجہ مضمحل اور اس کے بدن پر مسلسل پسینہ بہنے سے دراڑیں پڑچکی ہیں۔ کہانی کا پس منظر آج کا دور ہے مگر کرسی بردار فرعون کے بارے میں پوچھتا پھر رہا ہے۔ مصنف کرسی بردار سے اس طرح کرسی کا بوجھ اٹھائے ادھر اُدھر بھٹکنے کا سبب پوچھتا ہے۔ کرسی بردار جواب دیتا ہے کہ اسے فرعون کے دور سے حکم ملا تھا کہ وہ کرسی اٹھا لے اور اس وقت سے وہ اس بوجھ کو اٹھائے پھر رہا ہے۔

مصنف اسے صلاح دیتا ہے کہ فرعون کا خاتمہ ہوئے ہزاروں برس گزر گئے ہیں اوراب کرسی بردار کو یہ بوجھ اتار پھینکنا چاہئے۔ وہ کرسی پر لکھے حروف بھی پڑھ کرسناتا ہے کہ اب انسانوں کو اپنی زندگیوں کا فیصلہ خود کرنا ہوگا۔ کرسی بردار مصنف کی صلاح نہیں مانتا بلکہ اس سے دریافت کرتا ہے کہ کیا ایسا کہنے کی اس کے پاس سند ہے۔ کیا اس کا تعلق فرعون یا اس کے مجاز اہلکاران سے ہے۔ نفی میں جواب ملنے پر کرسی بردار، بدستور کرسی کے بوجھ تلے کراہتا ہوا، آگے بڑھ جاتا ہے۔

2

عصمت چغتائی نے کہیں لکھا ہے کہ عورت جب پیدا ہوتی ہے تو وہ کسی کی بیٹی کہلاتی ہے۔ جب بڑی ہوجائے تو کسی کی بہن، شادی کے بعد کسی کی بیوی اور لڑکا یا لڑکی کی پیدائش کے بعد کسی کی ماں کہلاتی ہے۔ پوری زندگی اس کی اپنی شناخت بحیثیت ایک فرد یا انسان کے کوئی نہیں ہوتی۔ یعنی یہ کہ کسی کی بیٹی، بہن، بیوی یا ماں ہونا اس کی وجودی انفرادیت کا حصہ نہیں بلکہ وہ فرائض ہیں جو رشتوں کی وساطت سے معاشرہ یا کلچر اس سے سرانجام کرواتا ہے۔ اس سماجی، فرض، کی انجام دہی میں عورت کو ایک آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ عورت ان رشتوں، جو یقینی طور پر اس کو سماجی اسیری میں جھونکتے ہیں کونہ صرف حقیقی مانتی ہے بلکہ ان کی انجام دہی کو اپنی زندگی کا فرض عین سمجھتی ہے۔

اس طرح سماجی جبر کا گھن چکر ایک آسیب کی طرح عورت کو اپنے نرغے میں لیتا ہے اوراپنی خوف پیدا کرنے کی صلاحیت کی بنیاد پر عورت سے اس کی انفرادیت پانے کی معمولی سی استطاعت بھی چھین لیتا ہے۔ اس طرح ایک اجتماعی محاکمہ(کلچر)، روایت کے جبری ہتھکنڈے سے افراد کو استعمال کرکے اپنا مقصد پورا کرلیتا ہے۔ چونکہ ہماری تاریخ میں اجتماعی محاکمے کی بنیاد بادشاہوں کے تحکم پر تھی اس لئے اس کے تحت پیدا ہونے والی روایات اور کلچر بھی ان بادشاہوں/حکمرانوں کی طرح جابرانہ تھا اور اب بھی جاری ہے۔

3

کوئی شخص خواب میں کالی بھینسوں کو اپنے پیچھے بھاگتا ہوئے دیکھے اور وہ اس کی تعبیر یہ کرے کہ عنقریب اس پر مصیبت آنے والی ہے تو ایسے شخص سے پوچھنا چاہئے کہ اس نے مصیبت آنے کا نتیجہ کیونکر نکالا۔ اس کے جواب میں وہ خواب کی تعبیر کی جنتری کا حوالہ دے گا۔ وہ یہ بھی کہے گا کہ خواب، کسی بھی خرد کی انجانی سطح پر رہنمائی کرتے ہیں۔ ایسا شخص اصلی مصیبت کے آنے سے پہلے، ذہنی طور پر اپنے آپ کو گرفتہ اوربے قرار کرلے گا۔ ایسی ذہنی بے قراری کے دوران اس کی کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوگی۔ تعبیری مصیبت آئے یا نہ آئے، وہ خواب کے واہمے پر یقین کے باعث اپنے آپ کو صحیح معنوں میں مصیبت میں جھونک دے گا۔ یہ سب معاملہ اس لئے ہوجائے گا کیونکہ وہ شخص خواب کے واہمے کو حقیقی مانتا ہے۔

انفرادی سطح پر خوابوں کی دنیا انفرادی واہموں کی حیثیت رکھتی ہے۔ اجتماعی سطح پر جو واہمے حقیقی مان لئے جاتے ہیں انہیں اساطیری حیثیت مل جاتی ہے۔ انہی انفرادی واہموں اور اجتماعی اساطیر کو علم کا مأخذ سمجھ لیا جاتا ہے۔ انفرادی سطح پر خواب، خواب میں کسی بزرگ کی بشارت یا حکم اور اجتماعی سطح پر ماورائی نظام سے منسلک روایات کو زندگی کی رہنمائی کرنے والے علم کا سرچشمہ قرار دے دیا گیا۔ کوئی بھی شخص اپنے آپ کو بادشاہ یا برگزیدہ منوانے کے لئے جواز انہی ماورائی حوالوں سے دیتا ہے۔

چونکہ اجتماعی مزاج میں کھلے سوال کرنے کی استطاعت کی گنجائش نہ تھی، اس لئے محض حوالے کو ہی حتمی سند کے طور پر مان لیا جاتا تھا۔ اسی طرح طاقت سے متعلق واہموں کو لوک داستانوں اورروایات کے ذریعے لوگوں میں جاگزیں کروادیا جاتا تھا اورلوگ دارالسلطنت سے ہزاروں میل دور اپنی جھونپڑی میں بھی بادشاہ سے لرز جاتے تھے۔ یہی نہیں، انہی اجتماعی واہموں اور اساطیر کی بنیاد پر کروڑوں انسانوں کو قتل کردیا گیا۔ قومیتی معاشی، جنسی، لسانی، مذہبی، قبائلی، نظریاتی اورعلاقائی واہموں کی بنیاد پر غارت گری ہوتی رہی اورا فراد کو اس اجتماعی حماقت پسندی کے فروغ کے لئے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔

مذکورہ گفتگو سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تاریخی طور پر افراد مختلف واہموں کے انفرادی اوراجتماعی آسیب کے زیر اثر ہی زندگی گزارتے رہے۔ آسیب کی اس تاریخ میں زندگی اور زندگی سے متعلق علم کی بنیاد واہموں کے بغیر پرسش تقلید پر تھی۔ انفرادی زندگی اورکسی انسان کی انسانی حیثیت اور حسیّات کی اوّل تو الگ شناخت ہی نہ تھی۔ فرد کی انفرادی حیثیت یہ کہ کوئی بھی فرد اجتماعی محاکموں سے قطع نظر انفرادی حسیّات رکھتا ہے اوران کی آزادانہ روش، فرد کا فطری حق ہے اس شعوری احساس کی کہانی ابھی ابھی شروع ہوئی ہے۔ فرد کی اس آزادی کا سفر ساٹھ ستر سال سے پرانا نہیں۔ اس سفر کے شروع ہوتے ہی اجتماعی حاکمیت یعنی کلچر کے خلاف تحریکات نے جنم لینا شروع کردیا جو فرد کا دشمن تھا اور اب بھی ہے۔

اجتماعی آسیب کی کارگزاری کے لئے مؤثر نظامات میں مذہبی نظام، ریاستی ڈھانچہ اورکنبہ شامل ہے۔ ریاستی ڈھانچہ قانون اورحکمرانی کے ذریعے افرادی قوت کی ترجیحات کو طے کرتا ہے۔ جبکہ مذہبی نظام فکری طور پر افراد کو قابو میں رکھنے کے لئے کمک فراہم کرتا ہے۔ کنبہ ان دونوں کے آسیب کی تربیت گاہ ہوتا ہے۔ مذہبی اورریاستی اتحاد کے تحت کسی بھی علاقے کی اجتماعی ترجیحات طے ہوتی ہیں۔ یہ ترجیحات دراصل ان دونوں نظاموں سے منسلک مفاد پرست لوگوں کی ترجیحات ہوتی ہیں۔

یہ ترجیحات ٹھوس صورت میں جنگی، مالیاتی اورنظریاتی حکمت عملیوں کی صورت میں اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان حکمت عملیوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے قوانین وآئین سازی ہوتی ہے اورریاستی حاکمیت طے کی جاتی ہے۔ کنبے کی سطح پر انہی حکمت عملیوں کی نتیجہ خیزی کے لئے ضروری انفرادی خصوصیات اور قابلیتوں پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور ایسے انسان ڈھالے جاتے ہیں جو ان سانچوں میں سما سکیں۔

4

اگر مڑکر دیکھیں تو یہی لگتا ہے کہ تاریخی طور پر فرد، آسیب کے نظاموں میں ہی الجھا رہا اور اس تناظر میں وہ آزردہ اور قیدی ہی رہا۔ مگر یہ بات بھی طے ہے کہ فرد اپنی صلاحیتیوں کے اعتبار سے اس مجموعی تاریخی تجربے سے زیادہ بڑا ہے۔ اگر اس میں آسیب کو سہنے اور اس کے زیر اثر زندہ رہنے کی صلاحیت تھی تو وہ اس کے اثر سے نکل کر صریحاً وجود کی آزادی اورخود مختاری بھی حاصل کرسکتا ہے۔

اس کے لئے ضروری صلاحیت اورتوانائی فرد میں موجود سوال اٹھانے کی حِسّ ہے۔ یہ نہیں کہ اجتماعی آسیب کے دور میں فرد سوال نہیں اٹھاتا تھا۔ وہ سوال اٹھاتا تو ضرور تھا مگر جوابات ، آسیب کے زیر اثر پیدا ہونے والے علوم سے دیے جاتے تھے۔یہ سلسلہ مسلسل ایک دائرے میں گھومتا رہتا تھا۔ آسیبی کلچر میں نیا علم تو ضرور پیدا ہوتا رہتا تھا مگر اس کے سر چشمے بدستور اجتماعی اساطیر میں سے پھوٹتے تھے۔ ایسے میں نقطۂ نظر تو تبدیل ہوجاتے تھے مگر وہ بدستور آسیبی دائرے میں محبوس رہتے تھے۔ مثال کے طور پر مذہبی مکاتب فکر کی پیدائشیں اورمخصوص نظریاتی نظامات کی تشکیل اسی زمرے میں آتی ہے۔

فرد کا وجود تاریخی تو ہے مگر یہ نہیں کہ اسے تاریخ کا ایندھن بنادیا جائے۔ اس تناظر میں ضروری ہے کہ فرد آسیب کی اپنی تاریخ کو سمجھے مگر وہ اپنے آپ کو اس کا سزاوارنہ بنابیٹھے۔ وہ اس اجتماعی حماقت آمیزی کا ذمے دار نہیں۔ فرد کی وجودی حیثیت کی اوّل وآخر حقیقت اس کا حال ہے۔ اسی حال میں اس کے ہونے کے مظاہر سامنے آتے ہیں۔ اجتماعی آسیب کے دور میں فرد کے حال سے تعلق کو بے معنی بنانے کے لئے یہ واہمہ دیا گیا کہ اس کی زندگی کے حال سے وابستہ مظاہر دراصل دھوکہ ہیں اور اس کی حقیقی زندگی مرنے کے بعد شروع ہوگی۔ اسی دھوکہ دہی کا لامحالہ نتیجہ یہ نکلا کہ فرد کو اس کے حال سے الگ کردیا گیا جبکہ اس کی حال کی کارگزاریوں اورمشقتوں کو حکمران طبقے نے بخوبی استعمال کرلیا۔

صارفانہ نظام اگرچہ آسیب کی ہی ایک اور مشکل ہے مگر اس میں انفرادیت اور انفرادی سٹائل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ انہی پر مبنی خوشنما واہموں کی بنیادپر زیادہ سے زیادہ لکیری ہوتی ہے، اور لوگ اپنی وجودی انفرادیت کا ہلکا ساہیولہ دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں۔ اس ہیولے کا قرب انا پسندی یا خود نمائی سے زیادہ اورحقیقی انکشافِ ذات سے کم ہے۔

فرد کے حقیقی وجود کا انکشاف اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آسیب کی تاریخ کی مکمل جھاڑ پھونک نہ ہوجائے۔ اس سے ایسے فرد کی دریافت ہوگی جو کسی بھی واہمے یا اساطیر کے اثر سے مکمل طور پر محفوظ زندگی کے ہر لمحے کا لطف اٹھانے کا اہل ہوگا۔ ایسے فرد میں ساز باز اورغیر حقیقی زندگی کے واہموں کی بجائے وارفتگی ہوگی۔

Comments are closed.