اپنے دیس میں اجنبی

خالد تھتھال

13524318_10202048522970428_306379434991848019_n

اس کا نام کارِن ہے، وہ سویڈن کے دوسرے بڑے شہر گوتھن برگ کے ضلع بیرگشون کے ایک علاقے میں 1970 سے رہتی ہے۔ لیکن اب یہ علاقہ مکمل طور پر تبدیل ہو گیا ہے، مسلمان گروہ در گروہ اس علاقے میں آن بسے ہیں جس سے اس علاقے کی ہیئت تبدیل ہو گئی ہے۔ یہاں اب مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ کارِن ہر روز اپنے بالکونی میں کھڑے ہو کر برقعہ پوش مسلمان عورتوں کو گزرتا دیکھتی ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ وہ اس علاقہ میں واحد مقامی باشندہ رہ گئی ہے۔ اس کے بقول پہلے ہم یہاں باہر بنچوں پر بیٹھ کر کافی پیا کرتے تھے، اب یہ ممکن نہیں رہا۔ اب یہاں پر جرائم پیشہ جتھوں اور اسلام پسندوں نے ڈیرہ ڈال لیا ہے ۔ اب یہاں پر منشیات اور ہتھیاروں کی خرید و فروخت ہوتی نظر آتی ہے۔

اب یہاں مسلمان پولیس افسر لوگوں کو ہدایت دیتے ہے کہ لوگوں کو کیسے رہنا چاہیئے، کون سے کپڑے پہننے کی اجازت نہیں ہے اور موسیقی سننا ممنوع ہے۔

کارِن نے صومالیہ، شام اور عراق سے تعلق رکھنے والے اپنے پڑوسیوں کو مقامی معاشرت کے قواعد و ضوابط سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ کچھ بھی سننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ان کے بقول وہ مسلمان ہیں اور ان کے نزدیک مقامی معاشرے کو تبدیل ہونا چاہیئے۔

وہ سویڈن میں کسی چیز سے بھی خوش نہیں ہیں۔ وہ ناقابل یقین حد مقامی معاشرے کو نا پسند کرتے ہیں، انہیں یہاں کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ انہیں یہاں پیسے اور گھر دیئے جاتے ہیں، بچے کی پیدائش پر صومالی عورتوں کو نئی پرام دی جاتی ہے۔ یہاں پر ایسے سیاستدان ہیں جو ان کے مفادات کی نگرانی کرنے کے علاوہ ان کی حق میں آواز اٹھاتے ہیں،لیکن پھر بھی ہر وقت شاکی نظر آتے ہیں۔

اس علاقے میں مسلمان پولیس افسر متعین ہیں۔ لیکن وہ یہاں لوگوں کو اس طرح کی ہدایات دینے میں زیادہ دلچسپی دکھاتے ہیں کہ وہ کونسا لباس پہنیں تاکہ اسلامی اقدار مجروح نہ ہوں۔ یہ مسلمان پولیس افسران رمضان کے مہینے میں بہت متحرک ہوتے ہیں۔ انہوں نے کارِن کو بھی روک کر بتایا ہے، کہ وہ اپنا لباس تبدیل کرے کیونکہ اس کا مختصر لباس اسلام اقدار کے منافی ہے کیونکہ اس میں اس کی ٹانگیں نظر آتی ہیں۔

کارِن کو پہلے پہل شک ہوا کہ پولیس والا اس سے مذاق کر رہا ہے، لیکن پولیس افسر نے غصے سے اسے کہا کہ اگر میری بات پر عمل نہ کیا تو ہر قسم کے نتائج کی ذمہ دار تم خود ہو گی۔

کارِن کو اس بات کا تو علم نہیں کہ یہ گروہ کس قدر منظم انداز سے کام کر رہے ہیں، لیکن اس کے بقول بیس سال پہلے کوئی یہ سوچ بھی سکتا تھا کہ مسلمان اس انداز میں اپنے مطالبات پر عمل کروانا شروع کر دیں گے۔ کارن کے بقول یہ سویڈن کی امیگریشن پالیسی کی ناکامی ہے کہ سیاستدانوں نے مسلمانوں کو کھل کھیلنے کی اجازت دی جس کے نتیجے میں اس قدر طاقتور مذہبی گروپ سامنے آئے ہیں کہ وہ مقامی لوگوں کو بھی دہشت زدہ کر سکیں۔ گو ابھی تک تشدد کا کوئی واقعہ سامنے تو نہیں آیا لیکن ہم ہر وقت خوفزدہ اور سہمے ہوئے رہتے ہیں۔

کارِن اس برگشون کو یاد کرتی ہے جب سب ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ انداز میں بات کرتے تھے اور ایک دوسرے سے عزت سے پیش آتے تھے۔ لیکن اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے، کارن چاہتی ہے کہ سیاستدان آئیں اور دیکھیں کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔

علاقے میں مقیم مسلمانوں کے نزدیک اس علاقے کے مسائل کی وجہ یہ ہے کہ ان کی فلاح کی طرف کم توجہ دی جاتی ہیں اور مزید تارکین وطن کو ملک میں آنے سے روکنے کیلئے سخت رویہ اپنایا جاتا ہے، حالانکہ سچ یہ ہے کہ یہ لوگ مقامی معاشرے کا حصہ بننا ہی نہیں چاہتے، بلکہ انہوں نے وہاں پر متوازی معاشرہ قائم کیا ہوا ہے۔

کارِن کے نزدیک اس مسئلے سے نپٹنے کا ایک ہی راستہ بچا ہے کہ ان نئے آبادکاروں کو انتخاب کرنے کا کہا جائے کہ اگر کسی کو مقامی معاشرہ پسند نہیں ہے تو وہ کسی اور ملک چلا جائے۔ کارن کے بقول اس کی بات کو سخت سمجھا جائے گا لیکن اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ وگرنہ حالات اس قدر بگڑ جائیں گے کہ ان کو سدھارنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ ہمارے سیاستداوں نے غلطی کی اور متوازی معاشروں کو ابھرنے کی اجازت دی، جس کے نتیجے میں مذہبی انتہا پسندی پیدا ہوئی۔

کارن اس علاقے کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہے، کیونکہ اس کے بقول وہ ان انتہا پسند جتھوں سے ڈرنے والی نہیں ہے، مزید برآں اسے اس علاقے کی فضا اور مناظر پسند ہیں۔ لیکن جب سے مقامی سویڈ باشندے اس علاقے کو چھوڑ گئے تو اسے بہت تنہائی محسوس ہوتی ہے کیونکہ اب وہ اس علاقے میں آخری مقامی سویڈ ہے۔

Comments are closed.