منیر سامیؔ: ٹورنٹو
گزشتہ ہفتہ تُرکی میں بغاوت کی خبر پھیلتے ہی دنیا بھر کے ترکوں کا سب سے پہل ردِّ عمل بیک زبان اس فوجی بغاوت کی مخالفت تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ترکی عوام نے بھی فوجی آمریتوں کا شکار ملکوں کی طرح فوجی آمروں کا ظلم برداشت کیا ہے۔ ان کے ایک وزیرِ اعظم کو تو بر سرِ عام پھانسی پر بھی لٹکایا گیا تھا۔
اس فوجی بغاوت کے بعد بہت چند گھنٹوں تک یہ تاثر ابھرا تھا کہ شاید یہ بغاوت وہاں کے سیکولر مزاج فوجیوں نے کی ہو، کیوں کہ صدر طیب اردوعان کی اسلامی جماعت کے غلبہ سے وہاں کے سیکولر مزاج عوام سخت خفا ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ مصطفیٰ کمال کے زمانے سے ترکی کا آئین ریاست اور مذہب کی مکمل علیحدگی پر قائم ہے، جو سیکولر نظام کی بنیادی تعریف ہے۔
لیکن بغاوت کے فرو ہوتے ہوتے تک خود ترکی کے صدر اردوعان نے الزام لگایا کہ جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت ، معروف ترکی امام اور اسلامی رہنما ’فتح اللہ گولِن ‘ کے حامیوں کی سازش تھی۔ جنہوں نے ترکی کے تقریباً سب اداروں میں ایک متوازی نظام قائم کر لیا ہے۔ ان اداروں میں، پارلیمان، فوج، پولس اور عدلیہ ، بھی شامل ہیں۔ پاکستان کی جماعتِ اسلامی کی طرح فتح اللہ گولن کے حامیوں کی پارٹی بھی ’جماعت ‘ ہی کہلاتی ہے۔ اس جماعت کے مدارس سارے ترکی میں پھیلے ہوئے ہوئے ہیں، اور ترکی کے قدامت پرست طبقات میں اس کا گہرا اثر ہے۔
یہاں یہ ذہن نشین رکھنا بھی ضروری ہے کہ صدر اردوعان کی اولین کامیابیوں میں فتح اللہ گولن اور ان کے حامیوں کا اہم کردار تھا۔ اردوعان جوخود بھی ایک قدامت پرست مسلمان ہیں ، بہت ہوشیاری کے ساتھ فتح اللہ گولن کی جماعت کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ اردوعان اور گولن کے حامیوں نے ترکی کی فوج کے سیاست میں عمل دخل کو ختم کرنے کے لیے مل کر کام کیے ۔ اور باوجودیکہ ترکی افواج ، جوایک بالائے آیئن نظام کے تحت سیاست میں دخل اندازی کا حق رکھتی ہیں،’ اردوعان۔گولن ‘ اتحاد کے نتیجہ میں پسپائی کا سامنا کرنے پر مجبور ہوئیں، یہاں تک کے بیسیوں فوجی جنرلوں کو مختلف الزامات کے تحت بڑی سزایئں بھگتنا پڑیں۔ اوروہ نظام جسے پاکستانی تجزیہ کار ’ترکی ماڈل ‘ یا Turkish Model کہتے نہیں تھکتے تھے اب ایک قصہ پارینہ ہونے کو ہے۔
گزشتہ چند سالوںمیں اردوعان گولن اتحاد میں دراڑ پڑی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ صدر اردوعان نے ایک آمرانہ طریقہ اپنانا شروع کر دیا تھا۔ گولن کی جماعت کے حامیوں نے ان پر سخت بدعنوانیوں کے الزامات لگائے ۔ وہی بدعنوانیاں جنہیں اب پاکستان میں کرپشن کہا جانے لگا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اردوعان پر یہ الزام لگے بلکہ ان کے کئی حمایتیوں کو سخت سزائیں بھی ہوئیں۔ ان بدعنوانیوں میں خود اردوعان کے اہلِ خاندان اور بیٹے کو بھی الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ساتھ ہی ساتھ اردوعان پر ایک نہایت قیمتی قصرِ صدارت تعمیر کرنے کا بھی الزام ہے، جس کے بعد سے گولِن کے حامی ان کے اور بھی زیادہ مخالف ہو گئے ہیں۔
تُرکی میں فوج کے ایک طبقہ کی ناکام بغاوت کے بعد پاکستان میں بھی طرح طرح کی چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ ان میں پہلا تبصرہ تو انہوں نے کیا جو ترکی ماڈل یعنی سیاست اور ریاست میں فوج کے عمل دخل کے حامی ہیں۔ ان میں عمران خان ، اور دیگر مبصرین نے یہ بیانات داغے کہ ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی پر خوش ہونے والے پاکستانیوں کو سمجھ لینا چاہیئے کہ اگر پاکستان میں جمہوریت پر کوئی فوجی حملہ ہوا تو عوام فوج کی مخالفت کے بجائے اسے خوش آمدید کہیں گے اور مٹھایئاں باٹیں گے وغیرہ ووغیرہ ۔
یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیئے ہم نے بادلِ ناخواستہ ’احمق تجزیہ کاروں‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی بھی نہ تو جمہوریت کے حامی رہے ہیں ، او ر نہ ہی انہیں جمہوریت کی بنیادوں کا کوئی علم ہے۔ یہ جمہوریت کو نواز شریف ، یا زرداری وغیرہ کا ہم معنی یا مترادف گردانتے ہیں۔
لیکن قصور ان احمقوں کا نہیں ہیں۔ یہ تو دراصل عوام کے ذہنوں پر قبضہ کرنے والے اس طریقہ کا شکار ہیں، جسے دنیا کے اہم دانشور ، نوآم چومسکی ؔ نے Manufacturing Consent کہا ہے۔ جسے عام اردو میں ’مصنوعی رضا مندی ‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس طریقہ کے تحت عوام کے ذہنوں پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے، عوام کو ابلاغِ عامہ کے تمام تر وسائل کے ذریعہ صرف ایک محدود بیانیہ میں الجھائے رکھتے ہیں۔اور اس محدود بیانیہ میں بھی اپنی مرضی کی بات اور جھوٹ کو اتنا عام کر دیتے ہیں کہ بھولے عوام اسے سچ سمجھ کر اس کے حق میں رضا مند ہو جاتے ہیں۔
چومسکی نے یہ بھی کہا ہے کہ اس طریقہ میں بسا اوقات مذہبی اور ثقافتی الجھاوے بھی شامل کر دیئے جاتے ہیں۔ ان الجھاووں میں پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ کا دردناک قتل بھی شامل ہے۔ ان الجھاووں کا مقصدیہ ہوتا ہے کہ عوام کی اور دیانت دار دانشوروں کی توجہہ ، فوجی آمریتوں کے خطرات اور بنیادی انسانی مسائل سے ہٹی رہے۔
پاکستان میں بار بار دہرائے جانا والا یہ محدود بیانیہ ’سیاسی کرپشن ‘ کا بیانیہ ہے۔ چومسکی نے یہ بھی کہا ہے کہ اس قسم کا کوئی بھی بیانیہ چند حدو ں کا پابند کیا جاتا ہے۔ یعنی پاکستان جیسے ملک میں آپ صرف سیاستدانوں کے کر پشن پرتو آزادی اظہار کے اصولوں پر عمل پیرا نظر آتے ہوئے چیخ پکار کر سکتے ہیں ، لیکن فوج یااس قسم کے کسی ادارے کے کرپشن پر کوئی بات نہیں کی جاسکتی ، اور اگر کی جائے تو آزادی اظہار کا کوئی بھی اصول کسی کی مدد نہیں کر سکتا۔
تُرکی کی فوجی بغاوت پر گفتگو کرتے ’مصنوعی رضا مندی ‘ کے شکار ہمارے احمق دانشوراردوعان کی بدعنوانیوں کو بھی بھول گئے ، اور یہ بھی کہ اب Turkish Model کوئی قابلِ تقلید مثال نہیں رہا ہے۔ اُن کو یہ بھی نظر نہیں آیا کہ ترکی کی بغاوت خود اردوعان کے سابق حامیوں ہی کی بغاوت تھی۔ انہیں تو حسبِ عادت پاکستانی جمہوریت کو کھوکھلا کرنا ہوتا ہے، اور اپنے ان آقاوں کو خوش رکھنا ہوتا ہے جو انہیں ’مصنوعی رضا مندی‘ کے آلہ کار کے طور پر استعمال بھی کرتے ہیں اور انہیں مختلف معاوضوں سے بھی نوازتے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ یہ مصنوعی تجزیہ کار کہیں سے چومسکی کی کتاب Manufacturing Consentحاصل کرکے پڑھیں تاکہ انہیں دیانت دار دانشوری کے کچھ اصول سیکھنے کا موقع ملے ، یا اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا۔ شاید انہیں یہ بھی سمجھ آسکے کہ ترکی کے عوام اردوعان کی بدعنوانیوں کے باوجود فوجی آمریت کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے، کیونکہ فوجی آمریت سے زیادہ ظالمانہ اور نقصان دہ کوئی نظام نہیں ہوتا۔
♠
One Comment