منیر سامیؔ: ٹورنٹو
ایک عظیم ، فقیر، ولی، انسانِ کامل ، ستار ایدھی کے انتقال کے بعد ہمارے ذہن میں اُن کے جنازے کا وہ منظر ابھرا تھا جو بے مثل شاعر جون ؔایلیا نے بیان کیا تھا کہ، ’آگے اسپِ خونی چادر ، اور خونی پرچم نکلے۔۔جیسا نکلا اپنا جنازہ، ایسے جنازے کم نکلے۔‘ ہمارے ذہن میں خاک بر سر اور دست ا فشاں عوام کا ایک ہجومِ بیکراں تھا کہ جو ایدھی صاحب کی لاش کو کاندھے سے کاندھے منتقل کرتے ہوئے مست و رقصاں اُس بے نشان قبر کی طرف بڑھتا جاتا تھا جو ایدھی صاحب نے خود اپنے ہاتھ سے اپنے لیے بنائی تھی۔ اور اس ہجوم کا ایک ایک فرد اپنے پیارے کے جنازے کو پاکستانی اشرافیہ ، ولایتِ عسکری، اور مذہب فروشوں سے پرے پرے لے جارہا تھا۔ اس اشرافیہ سے اور اس ولایتِ عسکری سے کہ جس نے پاکستان کے عوام کو خیرات کے ٹکڑوں پر پلنے کے لیے ستار ایدھی کے حوالے کر دیا تھا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو مثالیے کے متلاشی جون صاحب کے خوابوں کی کوئی تعبیر سچی ہے ، نہ ہماری خوش خیالی کی کوئی بنیاد۔ ایک لمحے کو غمِ ایدھی سے فرصت ملی تو یہ خبر سنی کہ ’ستار ایدھی کو سرکاری اعزا ز کے ساتھ دفنایا جائے گا، اور انہیں بعد از مرگ نشانِ امتیاز بھی عطا کیا جائے گا‘۔نشانِ امتیاز کے اس اعلان نے ہمیں چکرا دیا کیوں کہ انہیں ایک نشانِ امتیاز تو مل ہی چکا تھا۔ ہم نے سوچا کہ شاید اور غلطیوں کی طرح سرکارِ عالیہ سے اس اعلان میں کوئی غلطی ہو گئی ہو، اور اب شاید انہیں ’نشانِ پاکستان ‘ دیا جار ہا ہو۔پاکستان کے سادہ لوح عوام کی طرح جو ہم خود بھی ہیں، ہمیں امید ہوئی کہ شاید ایدھی صاحب کے انتقال کے بعد ہم ان تہذیبی قدروں کی طرف جارہے ہوں جہاں بے مثال انسانوں کی بے مثال قدر ہوتی ہے۔
لیکن اور امیدوں کی طرح یہ توقع بھی غلط ثابت ہوئی، جب جنازے کی تصویریں اور خبریں شائع ہوئیں تو دیکھا کہ جنازے کو تو ایک با وردی اور بندوق بردار ہجوم نے گھیر رکھا ہے۔ عوام کا دست افشاں اور خاک بر سر ہجوم کہیں دور دور تک نہیں ہے۔ جنازے کی صف بندی اس طرح ہے کہ چند قطاریں شاید اشرافیہ کی ہیں ، اور سامنے کی صفوں سے دور شاید عوام کی صفیں ہیں ۔ نیشنل اسٹیڈیم کا پس منظر صاف بتا رہا ہے کہ شاید ہزاروں افراد کو نمازِ جنازہ کے وقت تک اندر آنے کی اجازت ہی نہ ملی ہو۔ ایسے جنازے میں کہ جو ریاستی جنازہ تھا ، ریاست کا سب سے اعلیٰ ذمہ دار صدرِ پاکستا ن ، نظر تو آرہا ہے لیکن ہر تصویر کی پوزیشن اس طرح ہے کہ افواجِ پاکستان کے سربراہ ہر تصویر میں نمایا ں ہیں۔ گویا یہ جنازہ عوامی جنازے سے ریاستی جنازہ ، اور ریاستی جنازے سے عسکری جنازہ بن گیا تھا۔
جب یہ تصویر دیکھی کہ ایدھی صاحب کا جنازہ ایک توپ پر کھینچا گیا ہے تو یوں لگا کہ جیسے ان کی لاش کو توپ پر باندھ کر اڑادیا گیا ہو۔ خیال آیا کہ شایدان کو اپنی زندگی میں ان کے ان اعمال کی سزا دی جارہی ہو جن میں وہ اکثر اشرافیہ اور عسکریہ کی ماننے سے انکار کر دیتے تھے۔ انہوں نے ایوب خان کے زمانے میں فاطمہ جناح کے خلاف جشنِ فتح کی مخالفت کی تھی، انہوں نے جنرل ضیا کا خطیر عطیہ لینے سے انکار کیا تھا۔ انہوں نے جنرل ضیا کی مجلسِ شوریٰ کی رکنیت ترک کی تھی، اور جنرل ضیا کو کراچی میں نسلی منافرت کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ انہوں نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گُل کے اس دباو کا بھی مقابلہ کیا تھا جو ان پر اشرافیہ اور ولایتِ عسکر ی کے اس وقت کے پسندیدہ عمران خان کی حمایت کرنے کے لیے ڈالا گیا تھا۔
ہمیں یہ خیال بھی آیا تھا کہ مردِ قلندر ستار ایدھی نے شاید کبھی یہ خواہش ظاہر کی ہو کہ ’گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں ، جاندادئہ ہوائے سرِ رہ گزار تھا۔ لیکن گلیوں گلیوں کشکول اٹھائے پھرنے والے ستار ایدھی نے کبھی بھی یہ خواہش نہ کی ہو گی کہ ان کی نعش کو توپوں پر کھینچا جائے، اور انکے جنازے کو ان عوام سے چھین کر کہ جن کی خدمت میں انہوں نے زندگی نچھاور کردی تھی، عوام سے دور تر کر دیا جائے۔ انہوں نے کبھی بھی نہ سوچا ہوگا کہ بوقتِ مرگ ان کے سارے عزیزوں کوان سے کہیں دور صف آزما کر دیا جائے گا۔
ستار ایدھی کے جنازے کے تماشہ کے بعد جس میں جنرل راحیل شریف کی تصویروں کو بہت اچھالا گیا تھا، یہ بھی خیال آتا ہے کہ یہ سب شاید ولایتِ عسکری کے تعلقات عامہ کے ماہرین کی ایک ترکیب ہو جس میں ان کا ایک نر م خو روپ عوام کے ذہنوں پر ثبت کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ نرم خو ایدھی کے جنازے سے زیاد ہ تصویر کشی کا موقع اور کیا ہو سکتا تھا ، کہ جب ساری سیاسی قیادت کو بھی دور کر دیا گیا ہو، عوام کی تو حیثیت ہی کیا ہے۔
یہ خیال یوں بھی وثوق پارہا ہے کہ کراچی کی گلیوں سے ایدھی کے جنازے کو توپ پر کھینچنے کے بعداب کراچی اور پاکستان کے ہر بڑے شہر میں جنرل راحیل شریف کی تصویروں کے پوسٹر قدم قدم پر آویزاں ہیں جس میں جنرل راحیل شریف سے درخواست کی جارہی ہے کہ وہ واپس آجایئں ۔ گویا اس طرح سے بین السطور میں عساکرِ پاکستان کو ایک بار پھر آئین شکنی کی دعوت دی جارہی ہے۔
اشتہار ی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی مہم میں کروڑہا کی رقم خرچ ہوتی ہے، اور یہ کہ اس کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی خفیہ ہاتھ ضرور ہوگا۔ اب یہ افواجِ پاکستان اور جنرل راحیل شریف پر منحصر ہے کہ وہ اس مہم کی کس طرح تردید کرتے ہیں۔ ہم تو اب ستار ایدھی کے جنازے کے تماشے کے بعد اہلِ کرم کے کسی اور تماشے کا انتظار کرتے ہیں۔
♠
One Comment