آصف جاوید
مکرّمی و محترمی، جناب عبدالستّار ایدھی صاحب
السلام علیکم
بعد سلام عرض ہے کہ میں یہاں خیریت سے ہوں، اور عالم بالا کے خداوند سے آپ کی خیریت نیک مطلوب چاہتا ہوں۔ ایدھی صاحب امید ہے کہ ساری زندگی انسانیت کی خدمت اور فلاحی کام کرنے کے بعد ہونے والی تھکن اور عملی زندگی کی مشکلات سے ملنے والی تکالیف سے مکتی ملنے کے بعد آپ چین و سکون سے ابدی ننید سورہے ہونگے۔
مرنے سے پہلے بیماری کی اذیت نے آپ کو نحیف و نزار کرکے رکھ دیا دیا تھا ، اسکے باوجود آپ نے خدمت خلق بھی جاری رکھی اور بیماری سے بھی لڑتے رہے۔ یہ آپ ہی کا حوصلہ ہے۔ ہم آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ طبعی موت ہی مرے ، ورنہ آپ کے کرتوتوں کی فہرست تو اتنی طویل ہے کہ آپ کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جانا چاہئے تھا جو ریاست اس سے پہلے حکیم سعید اور ان جیسے دوسرے محبّ وطن لوگوں کے ساتھ کر چکی ہے ۔
حکیم سعید چونکہ بیوقوف اور ضدّی آدمی تھے، ڈٹ گئے، اڑ گئے، اور مارے گئے ۔ آپ کی طرح سمجھدار اور صلح جو نہیں تھے، ورنہ شاید بچ جاتے۔ حالانکہ ریاستی مقتدرہ کے ادارے یعنی غیر مرئی مخلوق کے سربراہ نے اپنے زیرِ سایہ پرورش پانے والے نوآموز سیاستداں کو لانچ کرنے کے وقت آپ سے بھی اپنی شرائط پر دست تعاون مانگا تھا۔ مگر آپ بہت چالاک نکلے آپ نے بڑی کامیابی کے ساتھ سانپ بھی مار دیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹنے دی۔ انٹرویو میں راز بھی افشاںکردیا ، اور نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بننے سے بھی بچ گئے۔ آپ واقعی مہان آدمی ہیں۔
ایدھی صاحب، آپ کے مرنے کے بعد بہت ہلچل مچی ہوئی ہے، پورا ملک سوگوار ہے۔ وفاقی حکومت نے ایک روزہ سوگ اور حکومت سندھ نے تین دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے۔ اور اس موقع پر قومی پرچم بھی سرنگوں رکھا جائے گا۔ آپ کی تدفین بھی سرکاری طور پر کی جائے گی اور آپ کو بعد از مرگ نشانِ امتیاز بھی دیا جائے گا۔
ایدھی صاحب آپ کو میرے ابّا تو یاد ہونگے، وہی گرج دار آواز اور لمبا چغہ پہننے والے مفتی صاحب ، جنہوں نے آپ کو پہلی دفعہ ببانگِ دہل اس وقت کافر قرار دیا تھا ، جب آپ نے ایدھی ہوم میں اُن ،معصوم نوزائیدہ بچّوں کے لئے جھولا ڈالا تھا، جو ماں باپ کے ناجائز تعلّقات (میرے ابّا کے مطابق زِنا) کے نتیجے میں وجود میں آتے تھےاور ان کو کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا تھا۔ مگر آپ کی ہمّت اور حوصلے کو داد ہے کہ آپ نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود ناجائز بچّوں کو نہ صرف پالا بلکہ ان کو اپنی ولدیت بھی دی۔
ایدھی صاحب آپ کو یاد ہے جب میں پہلی دفعہ آپ کے سینٹر میں بطور رضا کار خدمات انجام دینے آیا تو ابّا نے کس قدر شور ڈالا تھا، میں ایدھی سنٹر کی لئے قربانی کی کھالیں جمع کر رہا تھا اور ابّا اپنے مدرسے کے لئے کھالیں جمع کروانا چاہتے تھے۔ مگر آپ نے مجھے باپ کی نافرمانی سے منع کرکے واپس بھیج دیا۔ وہ تو شکر ہے کہ کچھ خراب لڑکوں کی صحبت ( یہ میرا نہیں بلکہ میرے ابّا کا خیال ہے) کی وجہ سے آپ سے ملاقاتیں بڑھتی ہی چلی گئیں، اور آپ نے ہمیں بلا تفریق ِ مذہب و عقیدہ، زبان اور لسّانیت پوری انسانیت سے پیار کرنا سکھایا، ہمیں انسانوں کی خدمت کرنا سکھایا۔
اور آپ کی وجہ سے مجھے ابّا کے دئے گئے مذہب سے زیادہ انسانیت سے پیار ہوگیا، ورنہ ابّا نے تو مجھے سوائے نمازیں پڑھنے، قرآن
پڑھنے، روزے رکھنے، نعتیں پڑھنے اور تبلیغ کے لئے تین روزہ اور چالیس روزہ چلّے کاٹنے کے کچھ نہیں سکھایا تھا۔ اگر عالم بالا میں آپ کی میرے ابّا سے ملاقات ہوجائے تو ان کو یہ پیغام ضرور دیجئے گا کہ ان کے ممدوح کے فلسفے ” جدا ہو دیں سیاست سے تو بن جاتی ہے چنگیزی” نے ان کے ملک میں اس قدر فساد مچایا ہے، کہ اب دین سیاست میں شامل ہوکر دینِ الہی کی جگہ دینِ چنگیزی بن گیا ہے۔
ایدھی صاحب مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آتی، آپ تو انسانیت خدمت گزار تھے، انسانی خدمت کا رول ماڈل تھے، بلا امتیاز سب کی
خدمت کرتے تھے، جب ریاستی مقتدرہ کے ادارے یعنی غیر مرئی مخلوق کے سربراہ بمع اپنے لے پالک نوزائیدہ سیاست داں، آپ کے پاس اپنا ایجنڈا لے کر ملاقات (ڈرانے دھمکانے) کے لئے تشریف لائے تھے، تو آپ نے ان پر واضح کیوں نہیں کیا کہ آپ تو صرف ایک رول ماڈل ہیں، اور اصل کام تو ریاست کا ہے کہ وہ پوری انسانیت کے لئے بلا تفریق فلاحی خدمات انجام دے۔
ریاست کی جغرافیائی حدود میں بسنے والے تمام باشندوں کو بلا امتیاز مذہب و عقیدہ، رنگ و نسل، زبان و لسّانیت برابری کی بنیاد پر یکساں حقوق حاصل ہوں۔ ریاست غیر جانبدار ہو کر بلا امتیاز مذہب، عقیدہ، رنگ ونسل اور زبان ، اپنے سارے شہریوں کے ساتھ یکساں برتاو کرے ۔ ریاست کے انتظامی اور قانونی ڈھانچے میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہو، مزہب ہر فرد کا زاتی معاملہ ہوتا ہے۔ ریاست کا ہر باشندہ یکساں حقوق کا حامل ہوتا ہے،اور نہ ہی ایک مزہب اور عقیدے کے لوگوں کو کھلی آزادی اور دوسرے مزاہب اور عقیدوں کو لوگوں کو بندشوں میں جکڑا جا سکتا ہے ۔اور نہ ہی ایک مذہب اور عقیدے کو لوگوں کو کھلی آزادی اور دوسرے عقیدے کو لوگوں پر بیجا پابندیوں اور بندشوں میں جکڑا ہو اہو۔ ۔ مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہو، اکثریتی گروہ کا مذہب اور عقیدہ پورے ملک کا مذہب اور عقیدہ نہ ہو۔
معاشرے کے ہر شعبہ میں میرٹ کا بول بالا ہو، رشوت اور سفارش، حقداروں کی حق تلفی کا خاتمہ ہو۔ طبقاتی نظامِ شہریت کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہو، موثر اور سستا ترین ایک سطحی نظام عدل قائم ہو، جمہوری نظامِ حکومت کو اس کی اصل روح کے ساتھ قائم کیا جائے ، بنیادی جمہوریت اور یونین کونسل کی سطح پر بلدیاتی نظام حکومت قائم کرکے اقتدار کو نچلی سطح پر عوام کو منتقل کیا جائے، شہری حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جائے، کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔ ٹیکسیشن اور محصولات کے نظام کو جدید طرز پر استوار کیا جائے ، مواصلات اور انفراسٹرکچر کے پھیلاو کو جدید سائنسی اصولوں کے مطابق استوار کیا جائے، قومی پیداوار میں اضافہ اور برآمدات کے فروغ کے لئے اقدامات کئے جائیں۔
آپ نے ریاست کے نمائندے کو یہ کیوں نہیں سمجھایا کہ اگر ریاست واقعی ایدھی کے فلسفے اور کام کو خراجِ تحسین پیش کرنے میں سنجیدہ ہے تو ریاست طبقاتی معاشرہ تشکیل دینے کی بجائے، یکساں فلاحی ریاست کی تشکیل پر توجّہ دے۔ آپ کو مقتدرہ کو بتانا چاہئے تھا کہ ریاست دراصل بنیادی انسانی ضروریات کی باوقار تکمیل کے لئے ہی تشکیل دی جاتی ہے۔ ریاست دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے لئے نہیں بلکہ ایک ہاتھ سے دینے اور دوسرے سے لینے کا نام ہے۔
مگر آپ بھی ون مین شو نکلے، اپنا پارٹ کرکے ، آپ نےکھیل ہی ختم کردیا۔ افسوس ، صد افسوس، یہ افسوس آپ کے مرنے پر نہیں۔ آپ کے دور اندیش نہ ہونے پر ہے۔
خیر اندیش رضا کار ایدھی ٹرسٹ
4 Comments