بیرسٹر حمید باشانی۔ ٹورنٹو
آزاد کشمیر کے انتخابات کے نتائج حسب توقع نکلے، اور کچھ لوگوں کے لیے توقع سے بھی بڑھ کر۔آزاد کشمیر کی ساری تاریخ میں اقتدار ہمیشہ پاکستان کی مقتدر قوتوں کی مرضی کے مطابق منتقل ہوتا رہا۔چنانچہ یہ امر تسلیم شدہ تھا کہ اس انتخاب میں پلڑا مسلم لیگ کا ہی بھاری ہو گا۔ مگر اس کے ساتھ بہت لوگوں کا تجزیہ یہ بھی تھا کہ یہ ایک تقسیم شدہ منڈیٹ ہو گا اور مخلوط حکومت کے امکانات ہیں۔ان تجزیوں کے بر عکس مسلم لیگ کو بہت بھاری اور واضح میندیٹ مل گیا۔
بظاہر یہ عام قسم کے روایتی انتخابات تھے جو پر امن طریقے سے مکمل ہو گئے۔لیکن ان انتخابات میں بہت ساری باتیں نئی بھی تھیں۔ایک بات تو یہ تھی کہ ا س دفعہ مسئلہ کشمیر انتخابی منشوروں کا اہم نقطہ نہیں تھا۔اس کے بر عکس آزاد کشمیر کے اپنے مسائل اور وسائل عام طور پر زیر بحث رہے۔یہ بات آزاد کشمیر کے لوگوں کی سیاسی پختگی اور بڑھتے ہوئے شعور کی عکاس ہے۔مقامی لوگوں کو اس بات کا آہستہ آہستہ ادراک ہوتا جا رہا ہے کہ ٓازادی کا اصل مطلب معاشی اور سیاسی آزادی ہوتی ہے۔اپنے اپ پر خود حکومت کرنے کا اختیار ہو تا ہے۔اور آزادی کا مطلب سماجی اور معاشی انصاف ہوتا ہے۔
اور اگر ازاد کشمیر کے لوگوں کو خود اپنے اپ پر حق حکمرانی حاصل نہ ہو۔وہ اپنے وسائل کے خود مالک نہ ہوں۔انہیں اپنی ساڑھے چار ہزار مربع میل کی دھرتی پر سماجی اور معاشی انصاف میسر نہ ہو تو وہ اپنے اپ کو آزاد نہیں کہہ سکتے۔ اور اس حالت میں رہتے ہوئے وہ گلگت بلتستان یا جموں کشمیر کے عوام کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔عام طور پر الیکشن میں یہ سوچ غالب رہی ہے۔ اگرچہ اس کے لیے وہ الفاط استعمال نہیں کیے گئے جو میں نے استعمال کیے۔ گویا باتیں یہی کی گئیں مگر الفاظ اور اصطلاحات زیادہ تر روایتی ہی تھیں۔
مسلم لیگ نے اگر اتنا بھاری مینڈیٹ لیا تو اس کی واحد وجہ یہ نہیں ہے کہ پاکستان میں مسلم لیگ کی حکومت تھی، بلکہ اس کے ساتھ کچھ اور اہم فیکٹر بھی تھے جنہوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔اس میں ایک اہم فیکٹر مسلم لیگ آزاد کشمیر کے صدر راجہ فاروق حیدر بھی تھے۔اس شخص کی جگہ اگر کوئی بھی دوسرا آدمی مسلم لیگ کا لیڈر ہوتا تو نتائیج یقیناًمختلف ہوتے۔یہ آدمی ازاد کشمیر کے لوگوں کو یہ یقین دلانے میں کافی حد تک کامیا ب ہوگیا تھا کہ وہ آزاد کشمیر کے معاشی وسائل اور سیاسی اختیارات کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔ اور وہ اس موضوع پر پاکستانی قیادت سے دو ٹوک بات کرنے کی جرات اور صلاحیت رکھتا ہے۔اور اسے اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ اگر اس نے اپنے عوام کے حق حکمرانی کی بات کی تو اسے غدار یاملک دشمن تصور کیا جائے گا۔
دوسرا بڑا فیکٹر خود نواز شریف کی ذات ہے۔دائیں بازوں کی قدامت پرست سیاسی جماعت کا رہنما ہونے کے باوجود بعض معاملات میں نواز شریف کا موقف روشن خیالی پر مبنی ہے۔ان معاملات میں ملک کے اندر سیاسی قوتوں کی بالا دستی ،جنوبی ایشیا میں امن کا سوال، بھارت کے ساتھ دوستی و تجارت اورمسئلہ کشمیر ، دیگر مسائل پر بات چیت اور مکالمہ شامل ہے۔انتخابات میں اعلی قیادت نے آزادکشمیریوں کو آزادی کی لوری دینے اور کشمیر فتح کرنے کے خیالی تصورات میں مبتلا کرنے کے بجائے عملیت پسندانہ رویہ اختیار کیا جو بڑے پیمانے پر انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوا۔
اس کے بر عکس پیپلز پارٹی نے اپنے ماضی کے بائیں بازوں کے سوشلسٹ نظریات سے سے یکسر لا تعلق ہو کر کسی دائیں بازو کی جنگ باز قوت کا سا رویہ اختیار کیا۔ان کی ساری مہم بھارت دشمنی اور کشمیر فتح کرنے کے کھوکھلے اور بے بنیاد نعروں کے گرد گھومتی رہی۔بلاول بھٹو کے خطبات سے تو یہ لگتا تھا کہ گویامودی آزاد کشمیر کا وزیر اعظم ہے۔جو لوگ بلاول کے لیے تقریریں لکھتے رہے ایسے دانشوروں اور تقریر نویسوں کی موجود گی میں پیپلز پارٹی کے لیے کسی قابل ذکر کامیابی کے بھلا کیا امکانات ہو سکتے تھے۔
رہا سوال ان لوگوں کاجو اپنے آپ کو کشمیری نہیں بلکہ پاکستانی سمجھتے ہیں اور خود کو پاکستانیوں سے بھی بڑا پاکستانی کہتے ہیں ، یہ لوگ نفی کی نفی کے قانون کا شکار ہوگئے۔یہ لوگ ایک ہی سانس میں اپنی ذات اور وجود کی نفی بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو ریاستی پارٹی یا ریاستی لیڈر بھی بنا کر پیش کرتے ہیں۔یہ لوگ بلاخر ان ہی غیر ریاستی بیساکھیوں کا سہارا لے کر بڑی مشکل سے بس اپنی ذات کو اسمبلی تک پہنچا سکے اور اس پر پھولے نہیں سما رہے۔
یہ لوگ جن نظریاتی تضادات اور گہرے کنفیوزن کا شکار ہیں وہ اب آہستہ آہستہ عوام کی سمجھ میں آ رہا ہے۔بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ اب یہ نو منتخب لوگ اپنے وعدوں کے مطابق آزاد کشمیر لے لوگوں کو ان کا حق حکمرانی دلاتے ہیں۔آزاد کشمیر کے وسائل کی حق ملکیت کے بارے میں اقدامات اٹھاتے ہیں۔یا پھر اپنے پیشرووں کی طرح آئندہ الیکشن میں ذلت آمیز شکست کا ساماں کرتے ہیں۔
♠