ذوالفقار علی زلفی
کل کھیل میں ہم ہوں نہ ہوں
گردش میں تارے رہیں گے سدا
ڈھونڈھو گے تم , ڈھونڈھیں گے ہم
پر ہم تمہارے رہیں گے سدا.
ہندی سینما کے اگر دس عظیم ترین ہدایت کاروں کی فہرست مرتب کی جائے تو یقینا ہرکسی کی فہرست مختلف ہوگی مگر یہ طے ہے کہ چند ناموں کو شاید ہی کوئی نظر انداز کرپائے….ان چند ناموں میں سے ایک ہیں ہندی سینما کے عظیم ترین شو مین , راج کپور۔
انہوں نے صرف فلمیں نہیں بنائیں ،ہندوستان کو دریافت کیا….اگر وہ صرف اداکاری کرتے تو راج کپور ہوتے مگر وہ خالق تھے ، ایک ذہین اور مستقبل بین خالق ، کیمرے کے فن سے آشنا….انہوں نے کیمرے کے ذریعے تمثیلی انداز میں سماجی و معاشی ناہمواریوں،صنفی و جنسی مسائل کا گہرا تجزیہ پیش کیا….نچلے طبقے کے دکھوں،درمیانے طبقے کی موقع پرستی اور بالائی طبقے کی خباثت کو انہوں نے ایک نئے ڈھنگ سے دکھایا جو صرف انہی کا خاصہ ہے…وہ مارکسی نہ تھے مگر ان کی فلم “آوارہ” کو کمیونسٹ چین اور سوویت یونین میں وسیع پیمانے پر دیکھا اور سراہا گیا بلکہ روس میں تو آج بھی اس کو قومی فلم کا درجہ حاصل ہے….ٹائم میگزین نے اس کو دنیا کی سو بہترین فلموں میں شمار کیا….انہوں نے چارلی چیپلن کو مشرقی انداز دیا جسے خود چارلی نے بھی “بہترین” کی سند بخشی۔
شو مین کا آبائی تعلق لائل پور (فیصل آباد) کے قصبے سمندری سے ہے مگر وہ 14 دسمبر 1924 کو رنبیر راج کپور کے نام سے پشاور میں پیدا ہوئے جہاں ان کا خستہ مکان آج بھی حکومت پاکستان کی آرٹ دشمن ذہنیت کی عکاس ہے….1929 کو ان کا خاندان ممبئی منتقل ہوگیا……والد سے متاثر ہوکر ان میں بھی اداکاری کا شوق پیدا ہوا اور یہ شوق انہیں انڈین نیشنل تھیٹر ممبئی پہنچانے کا سبب بنی…….. 1932 کو محض 8 سال کی عمر میں انہیں “کھلونا گاڑی” نام کے اسٹیج ڈرامے میں پرفارمنس دکھانے کا موقع ملا….جاندار اداکاری کے باعث وہ جلد ہی تھیٹر میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب رہے۔
ان کی اداکارانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوکر نیو تھیٹر کلکتہ نے 1933 کو انہیں اپنی فلم “انقلاب” میں چائلڈ آرٹسٹ کی حیثیت سے کاسٹ کرلیا….اس فلم کے ہیرو ان کے والد پرتھوی راج تھے…..اس کے بعد انہوں نے “گوری” ،“جیل یاترا“،“ہماری بات” اور دیگر فلموں میں چائلڈ اداکار کی حیثیت سے اداکاری کے جوہر دکھائے…فلموں سے لگاؤ نے جنون کی صورت اختیار کرلی جس کے منفی اثرات ان کی تعلیمی زندگی پر مرتب ہوئے اور وہ 1943 کو میٹرک کے امتحان میں فیل ہوگئے۔
زمانہ شناس والد نے بیٹے کو شرمندہ کرنا مناسب نہ سمجھا اور ان کے شوق کو منظم خطوط پر استوار کرنے کیلئے ہندی سینما کی خاتون اول دیویکا رانی سے درخواست کی کہ میرے بیٹے کو بمبئے ٹاکیز میں کام کرنے کا موقع دیں….دیویکا رانی نے انہیں فلمی سیٹس پر اٹینڈنٹ کی نوکری دیدی….1944 کو دلیپ کمار کی پہلی فلم “جوار بھاٹا” کی شوٹنگ کے دوران وہ ہدایت کار امیہ چکرورتی کے اسسٹنٹ تھے۔
ان کے شوق اور لگن کو دیکھ کر کیدار شرما نے 1946 کو انہیں اپنے ساتھ رکھ لیا….کیدار شرما نے کیمرے کے آگے اور پیچھے دونوں دنیاؤں کے اسرار ان پر منکشف کیے….اسی دوران ایک دن مسلسل بے دھیانی کے باعث وہ غلطیوں پر غلطیاں کیے جارہے تھے استاد کا پارہ چڑھ گیا اور انہوں نے سب کے سامنے شاگرد کو تھپڑ جڑدیا….اپنی کامیابی کے دنوں میں راج کپور نے اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ آج میں جہاں ہوں اس تھپڑ کی بدولت ہوں۔
کیدار شرما کو ان پر اندھا اعتماد تھا اسی لیے انہوں نے اورینٹ پکچر کے بینر تلے 1947 کو راج کپور اور مدھو بالا کو لے کر “نیل کمل” بنائی….یہ فلم ان دونوں فنکاروں کی پہلی فلم ہے….اداکاری اور ہدایت کاری کے لحاظ سے فلم میں کوئی خامی نہیں مگر اس زمانے کے نازک سیاسی حالات کے باعث “نیل کمل” فلم بینوں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی….ان کی دوسری فلم “چتوڑ وجے” کی ہیروئن بھی مدھو بالا ہیں اور نتیجہ بھی وہی نکلا،ناکام….ان پے در پے ناکامیوں کا ان پر چنداں اثر نہ ہوا وہ دوسروں کے اشارے پر اداکاری کرنے سے زیادہ اپنی سوچ کو دنیا کے سامنے لانے کے خواب دیکھ رہے تھے……خوابوں کی تعبیر پانے کیلئے 1948 کو محض 24 سال کی عمر میں انہوں نے “آر.کے فلمز” کے نام سے ایک فلم کمپنی کی داغ بیل ڈالی….نرگس کو لے کر انہوں نے “آگ” سے ہدایت کاری کا آغاز کیا….فن کی کسوٹی پر فلم کھری اتری مگر فلسفہ جمالیات کو سپاٹ انداز میں بیان کرنے کے باعث عوام نے اسے یکسر مسترد کردیا۔
اس عوامی فیصلے کا ان پر گہرا اثر ہوا….کافی غور و خوض کے بعد وہ کمرشل ازم اور فن کے پیچیدہ تعلق کی تہہ تک پہنچ گئے….سب سے پہلے انہوں نے اسٹوڈیو میں بنیادی تبدیلیاں کی پھر ایک ایسی ٹیم بنائی جس نے ھندی سینما کا رنگ ہی بدل دیا….موسیقار : شنکر اور جے کشن،کیمرہ مین : رادھو کرماکر، نغمہ نگار : شیلیندر اور حسرت جے پوری , ہیروئن : نرگس ،گلوکار : لتا اور مکیش،اسکرپٹ رائٹر : اندر راج آنند جبکہ بعد ازاں اسکرپٹ رائٹر کیلٰئے انہوں نے خواجہ احمد عباس کو بھی شامل کرلیا.۔
اس ٹیم نے اپنی پہلی فلم کے ساتھ ہی دھماکہ کردیا….”برسات” میں تک دِھنا دِھن….ہدایت کاری , موسیقی , اسکرین پلے , اداکاری , کیمرہ الغرض ہر شعبہ اپنی مثال آپ ہے……اسی فلم سے نہ صرف اداکارہ نِمّی نے اپنے کیریئر کا خوبصورت آغاز کیا بلکہ “نرگس راج” جوڑی کا سلسلہ بھی یہاں سے شروع ہوا……یہ فلم آج بھی پونا انسٹیٹیوٹ میں ہدایت کاری سیکھنے والے طلبا کے نصاب میں شامل ہے….فلم کا پوسٹر جس میں ہیرو نے ایک ہاتھ سے گٹار اور دوسرے سے ہیروئن کو تھاما ہوا ہے ہمیشہ کیلئے آر.کے فلمز کا لوگو بن گیا یعنی محبت اور موسیقی….
اسی سال محبوب خان نے ٹرائنگل لو اسٹوری “انداز” پیش کی۔ راج کپو،دلیپ کمار اور نرگس کی متاثر کن اداکاری سے آراستہ و پیراستہ اس فلم نے ہمیشہ کیلئے کلاسیک کا درجہ حاصل کرلیا۔
دو فلموں کی زبردست کامیابی نے ان کی پوزیشن مستحکم کردی….انہوں نے اسٹوڈیو کی زمین خرید کر اسے مزید بہتر بنایا…..1950 کو ان کی بحیثیتِ اداکار متعدد فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں صرف “سرگم” قابل ذکر ہے….1951 کو وہ ایک بار پھر “آوارہ” بن کر چھا گئے….معاشی ناانصافی اور اس کی کوکھ سے جنم لیتے سماجی ناہمواریوں کا انہوں نے اپنے انداز سے تجزیہ کیا…..خواجہ احمد عباس نے “آوارہ” کا اسکرپٹ محبوب خان کیلئے لکھا تھا مگر کرداروں کے انتخاب کے معاملے پر اختلافات پیدا ہوگئے ، راج کپور نے اس فلم کو ڈائریکٹ کرنے کی خواہش ظاہر کی جسے رائٹر نے قبول کرلیا۔“آوارہ” میں پہلی دفعہ ھندی سینما میں ڈریم سیکوینس کی تکنیک کو متعارف کیا گیا جو ان کی خلاقانہ صلاحیتوں کی دلیل ہے….۔اس فلم کی ہر دلعزیزی کا یہ عالم تھا کہ پنڈت نہرو , خروشچیف اور چیئرمین ماؤ جیسے رہنماؤں نے اس کو دیکھا اور سراہا۔
اگلے دو سالوں 1952-53 میں یوں تو اداکار کی حیثیت سے ان کی متعدد فلمیں آئیں مگر آر.کے بینر کی صرف ایک فلم “آہ” ریلیز ہوئی جس کی ہدایت راجہ نواٹھے نے دی….یہ فلم کسی حد تک پنڈت شرت چند چٹرجی کے ناول “دیوداس” سے متاثر ہے….اوائل میں کلائمکس بھی دیوداس طرز پر المیہ انداز میں فلمایا گیا جس میں نرگس سے وصل کی راحتیں پران کے حصے میں آتی ہیں جبکہ راج کپور ہجر و فراق کی صعوبتیں جھیلتا اور خون تھوکتا موت کی آغوش میں سوجاتا ہے ۔مگر پریمیئر شو کے بعد راج کپور نے کلائمکس کو پردرد قرار دے کر اسے بدلنے کی ہدایت دی ،“آہ” کے اختتام کو نمائشی “واہ” بنادیا گیا….مارکیٹ اکنامی کو آرٹ پر ترجیح دینے کے باعث فلم کا معیار گھٹ گیا…..۔
اس غلطی کا ازالہ انہوں نے 1954 میں “بوٹ پالش” کی صورت کیا…آر.کے بینر کی اس فلم کے ہدایت کار پرکاش اروڑہ ہیں….”بوٹ پالش” کہانی ہے دو غریب بچوں کی جنہیں بھیک مانگنے پر مجبور کیا جاتا ہے مگر وہ بوٹ پالش کا باعزت پیشہ اختیار کرنا چاہتے ہیں…کچی بستی ، ننگ دھڑنگ اور میلے کچیلے بچے ، بھوک و بے لباسی کے ستائے ہوئے معاشرے کی عکاسی نے کانز فلم فیسٹول کے ججز کو بھی متاثر کردیا۔
اس کے بعد “شری 420″ , “چوری چوری” اور “شردھا” جیسی فلموں کی ایک اور سیریز جاری کی گئی….ان میں سے “شری 420″ کی ہدایت کاری کا بیڑا انہوں نے خود اٹھایا جو کافی خوش کن ثابت ہوا…..یوں تو اس فلم کے تمام گیت کانوں میں رس گھولتے ہیں مگر ایک نغمے :
“میرا جوتا ہے جاپانی
یہ پتلون انگلستانی
سر پہ لال ٹوپی روسی
پھر بھی دل ہے ہندوستانی
نے بھارت ک ے ملی نغمے کا روپ دھار لیا…..اس فلم میں راج کپور نے کلی طور پر لیجنڈ اداکار چارلی چیپلن کا انداز اپنایا اور اس انداز کو ایک نئی تازگی بخشی اس انداز کو دور حاضر میں ان کے ہم نام پوتے رنبیر کپور نے بھی اپنی اداکاری کا حصہ بنایا ہوا ہے۔
میوزیکل لو اسٹوری “چوری چوری” نرگس راج جوڑی ، شنکر جے کشن میوزک اور لتا منا ڈے گلوکاری کے باعث ایک اور سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی….کئی سالوں بعد 1991 کو ہدایت کار مہیش بھٹ نے عامر خان اور پوجا بھٹ کو لے کر “دل ہے کہ مانتا نہیں” کے نام سے اس فلم کی ری میک بنائی….”دل ہے کہ مانتا نہیں” گوکہ “چوری چوری” کے ہم پلہ تو نہیں لیکن بہرکیف ایک دل ربا میوزیکل ڈرامہ ہے….
جہاں سینما کے پردے پر نرگس راج جوڑی حاکمانہ قبضہ تھا وہاں پردے کے پیچھے ان کی محبت کے جھوٹے سچے قصے بھی زبان خلق نقارہ خداوندی کی مانند کوچہ و بازاروں میں پھیلتے جارہے تھے…..راج کپور چونکہ شادی شدہ تھے اس لیے ان قصوں کے باعث ان دونوں کی ذاتی زندگی شدید دباؤ کا شکار ہوگئی….اس تناؤ نے ان کی پیشہ ورانہ زندگی پر بھی منفی اثر ڈالا “اب دلی دور نہیں” اور “جاگتے رہو” جیسی کمزور فلمیں اسی دور کی یادگار ہیں۔
سنہ1957 کو نرگس نے ابھرتے اداکار “سنیل دت” کے ساتھ شادی کرکے آر.کے فلمز کو خیرباد کہہ دیا….نرگس کی علیحدگی نے ان کی فلم کمپنی کو تقریباً ہلا کر رکھ دیا گوکہ 1957 کو رمیش سہگل کی ہدایت میں ان کی فلم “پھر صبح ہوگی” جو عظیم روسی ناول نگار دوستوفسکی کی شاھکار تصنیف “جرم و سزا” سے ماخوز ہے کافی بزنس کررہی تھی لیکن مصیبت ان کی اپنی فلم “جس دیش میں گنگا بہتی ہے” پر بن آئی تھی….فلم “پھر صبح ہوگی” کے ایک گیت کا تذکرہ شاید دلچسپی سے خالی نہ ہو….انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی کی شاعری اور خیام کی موسیقی سے مزین گیت :۔
چین و عرب ہمارا
ہندوستاں ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے
سارا جہاں ہمارا۔۔۔
بے گھر اور غریب ہندوستانیوں کے دل کی صدا بن کر مکیش کی آواز میں چہار سو پھیل گئی چونکہ گیت پنڈت نہرو کی سیاست پر گہرا طنز تھا اس لیے حکومت نے اس گیت پر پابندی لگادی جو بعد میں شدید عوامی احتجاج کے بعد اٹھادی گئی….بہر کیف یہ تو جملہ معترضہ تھا آتے ہیں نرگس کی علیحدگی سے پیدا ہونے والے بحران پر۔
ہدایت کار رشی کیش مکھرجی نے 1959 کو آر.کے فلمز کی ٹیم کو استعمال کرکے اپنی فلم “اناڑی” کیلئے اس کا حل “نوتن” کو لے کر نکالا ۔ فلم کامیاب رہی مگر راج کپور اپنی فلم “جس دیش میں گنگا بہتی ہے” میں ھندی سینما کی کسی ہیروئن کو کردار دینے کیلئے تیار نہ تھے بالآخر قرعہ فال ساؤتھ انڈین سینما کی پدمنی کے نام نکلا……بعد ازیں 1964 کو بھی انہوں نے اپنی ٹرائنگل لو اسٹوری “سنگم” کیلئے ساؤتھ انڈین وجینتی مالا کو کاسٹ کیا…راج کپور کی شدید خواہش تھی کہ وہ محبوب خان کے “انداز” کی طرز پر دوسرے ہیرو کیلئے دلیپ کمار کو کاسٹ کریں مگر دلیپ کمار نے ان کی پیشکش مسترد کردی۔
دراصل دلیپ کمار کو یہ خوف لاحق تھا کہ چونکہ ہدایت کار راج کپور ہیں اس لیے وہ ان کے کردار میں کمی بیشی کرسکتے ہیں ۔ انہوں نے شرط رکھی کہ فلم کی فائنل ایڈیٹنگ وہ خود کریں گے مگر کپور راضی نہ ہوئے….انہوں نے اپنے دوسرے قریبی دوست دیوآنند کو اس کردار کی پیشکش کی تقریباً انہی وجوہات کی بنا پر دیو آنند نے بھی معذرت کا راستہ اپنایا ۔ناچار گوپال کا کردار دلیپ کمار کی کاربن کاپی “راجندر کمار” کو دے دیا گیا….فلم نہ صرف سپر ہٹ ثابت ہوئی بلکہ اس کے اسکرپٹ سے متاثر فلمیں تاحال بن رہی ہیں۔
دلیپ کمار اور دیو آنند ان کے انتہائی قریبی دوست تھے ،سمجھا جارہا تھا شاید اس انکار کے بعد دوستی میں دراڑ آجائے گی لیکن یاروں کے یار راج کپور کے ماتھے پر شکن تک نہ آئی….ان کی یار باشی کی ایک مثال ان کے دوست شیلیندر کی فلم “تیسری قسم” ہے جس میں انہوں نے بلا معاوضہ کام کیا….”تیسری قسم” پھانیشور ناتھ رینو کے افسانے “مارے گئے گلفام” پر فلمائی گئی ، جس کے ہدایت کار باسو بھٹا چاریہ ہیں……یہ ایک نو حقیقت پسند فلم ہے جس میں لوک فنکاروں بالخصوص خواتین کا استحصال دکھایا گیا ہے……اس میں وحیدہ رحمان اور راج کپور کی متاثر کن اداکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے…..افسوس شیلیندر فلم کی کامیابی دیکھنے سے پہلے انتقال کرگئے….شیلیندر کی کہانی پھر سہی….دوبارہ “سنگم” کی جانب آتے ہیں۔
“سنگم” کے بعد انہوں نے “راج کپور” کی زندگی کو تمثیلی انداز میں بیان کرنے کا ارادہ باندھا….1970 آتے آتے وہ اپنا تمام سرمایہ اپنی بائیوگرافی “میرا نام جوکر” پر لگا چکے تھے…..فن اور مارکیٹ پر گہری نظر رکھنے والے کپور ایک بار پھر چوک گئے….”میرا نام جوکر” ھندی سینما کی تاریخ کی سب سے بڑی فلاپ فلم ثابت ہوئی ۔ اس فلم کی ناکامی نے ان کو عرش سے فرش پر پھٹک دیا….فلم بری نہیں ہے مگر شاید 1970 کا نوجوان ھندوستانی فلم بین اسے سمجھ نہ سکا….سگمنڈ فرائیڈ اور کارل مارکس کے نظریات کی آنچ پر پکی اس فلسفیانہ کھچڑی کو 80 کی دہائی میں سمجھا گیا اور آج اسے کلاسیک میں شمار کیا جاتا ہے مگر راج کپور کی زندگی میں یہ “بکواس” مانی گئی۔
۔”میرا نام جوکر” کی اہمیت یوں بھی ہے راج کپور نے پہلی دفعہ عورت (پدمنی) کی چھاتیوں کو ننگا دکھایا گوکہ قبل ازیں بھی وہ “جس دیش میں گنگا بہتی” ہے کہ ایک سیکوینس میں بھی پدمنی کے ساتھ ایسا کرچکے تھے مگر چونکہ وہ بلیک اینڈ وائٹ فلم تھی اسلیے نوٹس میں نہ آئی جبکہ “سنگم” میں بھی وہ وجینتی مالا کو سوئمنگ کاسٹیوم میں فلما چکے تھے اس پر بھی زیادہ لے دی نہیں ہوئی……”میرا نام جوکر” کے بعد ان کے حوصلے اس قدر بلند ہوئے کہ 1975 کی فلم “ستم شیوم سندرم” میں انہوں نے سفید لباس میں ملبوس زینت امان کو آبشار کے نیچے کھڑا کردیا جس سے ان کی چھاتیاں صاف طور پر نظر آئیں….معروف ادیب خوشونت سنگھ اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ اس فلم کے پریمیئر شو کے دوران مذکورہ سیکوینس پر راج کپور نے میرے کان میں کہا مجھے مخروطی اور اٹھی ہوئی چھاتیاں بہت پسند ہیں…..”ستم شیوم سندرم” میں انہوں نے ایک دفعہ پھر اپنے فلسفہ جمالیات کا اظہار کیا :۔
یشومتی میّا سے بولے نند لالا
رادھا کیوں گوری میں کیوں کالا
اس دفعہ عوام نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا…وہ مزید بے باک ہوگئے…1985 کی فلم “رام تیری گنگا میلی” میں انہوں یہی واردات منداکنی کے ساتھ دہرائی….منداکنی کو بھی چست اور سفید لباس میں جھرنے کے نیچے کھڑا کردیا گیا جبکہ ایک سیکوینس میں منداکنی چھاتی نکال کر بچے کو دودھ پلاتی ہے….اس فلم پر قدامت پسند حلقوں کی جانب سے راج کپور شدید تنقید کا نشانہ بنے ،سنسر بورڈ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا گیا تاہم انہوں نے اس کی کوئی پروا نہیں کی….فلم بلاک بسٹر ثابت ہوئی ۔
بعض افراد کا ماننا ہے کہ فلم کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ اس کے بولڈ مناظر ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے…اس فلم میں شرفا کی حویلیوں میں پلتے گناہ اور اعلی طبقے کی ذہنی پسماندگی کو کمال مہارت سے فلمایا گیا ہے..بچے کو دودھ پلاتی ماں کی چھاتی اور ندی میں نہاتی عورت میں ایک آنکھ جمالیات کا مشاہدہ کرتی ہے اور دوسری کو فحاشی نظر آتی ہے , اس کا انحصار دیکھنے والے کے شعور پر ہے…بعض افراد تو تخلیقی عمل سے گزرتی عورت میں بھی فحاشی یا لذت کشی کا سامان ڈھونڈھ لیتے ہیں۔
اعلی ٰطبقے کی شرافت اور پرشکوہ حویلیوں کے پیچھے چھپی خباثت کے حوالے سے ان کی ایک اور بلاک بسٹر فلم 1983 کی “پریم روگ” ہے جس میں انہوں نے پدمنی کولہاپوری کی چھاتیوں کی نمائش کیے بغیر شرفا کی قلعی کھول دی تھی…..راج کپور کی عظمت ہی یہی ہے کہ وہ کیمرے کے ذریعے دلوں میں اترنے اور اپنی بات پہنچانے کے فن میں طاق ہیں…….جیسے “جس دیش میں گنگا بہتی ہے” میں انہوں نے ڈاکوؤں کی تمثیل کے ذریعے سیاست اور سماج کا نقشہ کھینچا ۔ اس فلم کے ایک سیکوینس پر غور کیجئے…..نوجوان ڈاکو دوسرے بزرگ ڈاکو سے پوچھتا ہے ” دنیا میں انگریز راج آیا ،برہمن ، کھشتری ، ویش ، مغل سب نے راج کیا اب ڈاکو راج کب آئے گا؟ ” , بزرگ ڈاکو کا سوالیہ جواب دریا کو کوزے میں بند کردیتا ہے کہ “اس دنیا میں ڈاکو راج کب نہیں تھا؟“۔
چھاتیوں اور ڈاکوؤں کے ذکر نے ان کی ہدایت کاری کے ایک اور شاہکار 1973 کی “بوبی” کو پس پشت ڈال دیا…..”بوبی” میں پہلی دفعہ ٹین ایج لو اسٹوری کا آئیڈیا استعمال کیا گیا….اس فلم کے ہیرو ان کے ٹین ایج بیٹے “رشی کپور” اور ہیروئن کمسن “ڈمپل کپاڈیہ” ہیں…..یہ ان دونوں کی پہلی فلم ہے…..اس فلم نے “میرا نام جوکر” کی ناکامی سے شکست و ریخت کے شکار راج کپور کو ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہونے کا موقع دیا…..”بوبی” نے ھندی سینما میں ٹین ایج لو اسٹوری کی روایت پیدا کردی جس پر بعد ازاں سنی دیول اور امرتا سنگھ کی “بیتاب” ، سنجے دت اور ٹینا منیم کی “روکی” ،سلمان خان اور بھاگیہ شری کی “میں نے پیار کیا” عامرخان اور جوہی چاؤلہ کی “قیامت سے قیامت تک” سمیت متعدد سپرہٹ ٹین ایج لو اسٹوری فلمیں بنائی گئیں۔
وہ ایک آزاد خیال اور وسیع الذہن فنکار تھے مگر ان کی زندگی میں یہ تضاد بھی نمایاں رہا کہ جب تک وہ زندہ رہے کپور خاندان کی خواتین کا فلمی دنیا میں داخلہ ممنوع رہا….یہاں تک ببیتا اور نیتو سنگھ بھی کپور کی بہو بننے کے بعد سینما سے غائب ہوگئیں….ان کی موت کے بعد سب سے پہلے رندھیر کپور کی بیٹی کرشمہ کپور نے لکشمن ریکھا پار کرکے فلم نگری میں قدم رکھا اور آج کرینہ کپور دھوم مچارہی ہیں۔
ان کی آخری فلم “حنا” ثابت ہوئی تاہم وہ اسے بھی مکمل نہیں کرپائے….کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی اداکارہ زیبا بختیار اور رشی کپور کو لے کر وہ بھارتی نوجوان کی ایک پاکستانی خاتون سے محبت کی کہانی کو فلمارہے تھے کہ استھما کے مرض نے انہیں مزید مہلت نہیں دی۔
سنہ1988 کو انہیں ہندوستانی سینما کے سب سے بڑے اعزاز “دادا صاحب پھالکے ایوارڈ” سے نوازا گیا…..ایوارڈ تقریب میں جب ان کا نام پکارا گیا تو وہ نقاہت کے باعث اٹھ نہیں پائے اس وقت کے بھارتی صدر آر.وینکٹ رمن نے ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اٹھایا…..تقریب سے سیدھا ان کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں کچھ دنوں کی بیماری کے بعد 02 جون 1988 کو یہ عظیم فنکار دنیا سے رخصت ہوگئے…..۔
ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے رندھیر کپور نے ان کی ادھوری فلم “حنا” کو 1991 میں مکمل ،کرکے ریلیز کردیا…..فلم گوکہ کامیاب رہی مگر اس میں وہ بات نظر نہ آئی جو ھندی سینما کے عظیم شومین کا خاصہ تھا۔
“جوکر کا تماشہ ختم نہیں ہوا , میرا تماشہ ختم نہیں ہوا , جائیے گا نہیں“