آصف جیلانی
یہ برطانیہ میں رہنے والے اہل اردو کی خوش نصیبی تھی کہ سحاب قزلباش جیسی ممتاز شاعرہ ان کے بیچ رہیں اور مجھ ایسے بہت سے لوگ یہ کہتے ہوئے بڑا فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے سحاب کو دیکھا ہے۔
سحاب سے ملاقات اور ان کے ساتھ روزنامہ جنگ لندن اور بی بی سی میں کام کرنے سے پہلے میں نے ان لوگوں سے سحاب کی تعریفیں سنی تھیں جنہوں نے سحاب کو آزادی سے پہلے دلی میں دیکھا تھا جب انہوں نے بہت کم سنی میں آل انڈیا ریڈیو سے براڈکاسٹنگ شروع کی تھی۔ یہیں انہیں میرا جی، نون میم راشد اور اس دور کے ممتاز شاعروں ادیبوں دانشوروں اور براڈکاسٹروں کی صحبتیں ملیں اور انہوں نے ان سے ادبی فیض حاصل کیا کیونکہ وہ نسل فیض بخش فراغ دل لوگوں کی تھی۔
سن ستر کے عشرہ کے اوائل میں لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے دفتر کے استقبالیہ میں کام کرتے ہوئے جب میں نے سحاب کو دیکھا تومجھے سخت افسوس ہوا، کہ ہماری ایک ممتاز شاعرہ کو ہم نے سر آنکھوں پر بٹھانے کے بجائے استقبالیہ کی میز پر بٹھا دیا ہے۔ بڑی منت سماجت سے میں سحاب کو روزنامہ جنگ لندن میں لے آیا اور انہیں ادبی صفحہ کی ادارت پربھی فائز کیا، لیکن انہوں نے اس کے ساتھ پروف ریڈنگ کو ترجیح دی اور وہ واقعی وہ اس شعبہ میں اس قدر شوق اور انہماک سے کام کرتی تھیں کہ جیسے ایک اہم مشن پر ہوں۔ جنگ لندن میں بیشتر کاتب حضرات پنجاب سے تعلق رکھتے تھے اور جہاں جہاں اسکول ، اسٹیشن ، اسٹول اور اسڈینڈنگ کمیٹی ایسے لفظ آتے تھے وہ الف حذف کردیتے تھے اور سحاب پروف ریڈنگ کے وقت الف لگاتے لگاتے تنگ آجاتی تھیں۔ غرض نہایت دلچسپ معرکہ رہتا تھا شعبہ کتابت میں۔
سحاب کو مزیدارچٹ پٹے کھانے کو شوق تھا اور اس سے زیادہ شوق انہیں اپنے ساتھیوں کو کھلانے کا تھااور اپنے ساتھیوں کی خاطر تواضع کر کے بہت خوش ہوتی تھیں۔ سحاب جیسے ہی وہ دفتر میں داخل ہوتی تھیں ان کے ساتھیوں کے چہرے کھل اٹھتے تھے اور سب کی نگاہیں ان کے تھیلے کا تعاقب کرتی تھیں ، اس تجسس میں کہ آج کیا نئی چٹ پٹی چیز ملے گی۔
سحاب کے گلے میں بلا کا رس تھا جس میں دکھ کی آمیزش بھی نمایاں تھی۔ اخبار کی آخری کاپی پریس میں جانے کے بعد ساتھیوں کی فرمایش پر وہ اپنا تازہ کلا م ایسے پیارے ترنم سے سناتی تھیں کہ ہم سب جھوم جھوم اٹھتے تھے اور سارے دن کی تھکن دور ہوجاتی تھی۔
لندن میں سحاب کا بہترین زمانہ وہ تھا جب وہ بی بی سی اردو سروس سے وابستہ تھیں اور بچوں کے پروگرام شاہیں کلب میں حصہ لیتی تھیں ، سحاب ،سلطانہ باجی کا رول ادا کرتی تھیں اور محمد علی شاہ سدھو بھائی بنتے تھے اور سچ میں یہی دونوں شاہین کلب کی جان تھے ۔ اتنے سال گذرنے کے بعد بھی بہت سے لوگوں کو سدھو بھائی اور سلطانہ باجی اپنے اہل خانہ کی طرح یاد ہیں۔ سحاب ،کچھ عرصہ بی بی سی کے آڈینس ریسرچ کے شعبے سے بھی منسلک رہیں۔
سحاب نے دلی کے معروف ادب نواز، علمی اور ادب پرور خانوادہ میں پرورش پائی۔ سحاب کے والد آغا شاعر قزلباش دلی کے ممتاز شاعر تھے ان ہی کی صحبت اور تربیت نے سحاب کو خوب صورت زبان شستہ لہجہ اور خیالات کی ندرت بخشی اور اس کے بل پر انہوں نے شاعری میں اپنا منفرد انداز اور لہجہ اپنایا۔
تقسیم کے بعد سحاب پاکستان آگئیں اور کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان سے منسلک رہنے کے بعد وہ ایران کے زاہدان ریڈیو سے اردو کے پروگرام نشر کرتی رہیں۔ پھر کچھ عرصہ نائجیریا میں رہنے کے بعد لندن میں مستقل سکونت اختیار کی۔
جو لوگ سحاب کو قریب سے جانتے تھے انہیں یہ معلوم تھا کہ چہرے پر ہر لمحہ مسکان سجائے اور محبتوں اور ہمدردیوں سے بھر پور سحاب نے نو عمری ہی سے کتنے قلبی حادثے جھیلے تھے۔ان کی اذدواجی زندگی کتنی دل شکستہ رہی تھی اور پھر اس ملک میں روزگار کے میدان میں انہیں کتنی اذیتیں اور مصیبتیں اٹھانی پڑیں تھیں، لیکن انہوں نے ان سب مصائب، مشکلات پریشانیوں اور نا مساعد حالات اور بیماریوں کے محاصرے اور ان کے چو مکھی پتھراؤ کا نہایت جی داری اور حوصلہ مندی سے مقابلہ کیا۔ اور اپنا لوہا منوایا۔
اردو شاعری کے افق پر سحاب سن پچاس سے دلی کلاتھ مل کے انڈو پاک اور روزنامہ ڈان کے مشاعروں میں اپنی سحر انگیز آواز کے ساتھ نہایت خوبصورت غزلوں کی بدولت مقبول ہوئیں۔ دیکھتے دیکھتے ان کی شاعری کے طلسم نے پاکستان سے لے کر ہندوستان اور پھر انگلستان، امریکا اور کینڈا کو مسحور کر دیا۔
بنیادی طور پر سحاب غزل گو شاعرہ تھیں لیکن ایک طویل عرصہ تک برطانیہ میں رہنے کے بعد ایک حساس دل اور عمیق نظر نے انہیں اس معاشرہ کے تجربات اور احساسات کو نظموں کے پیرائے میں پیش کرنے پر اکسایا اور ان کی طویل نظم لینڈ لیڈی میرے خیال میں اس معاشرہ کے راز درون حیات کی کہانی ہے اور ایشیائی خواتین کی اتھاہ تنہائیوں کی آئنہ دار ہے۔
یہ ایک عجب بات ہے کہ سحاب نصف صدی سے شعر کہہ رہی تھیں لیکن انہوں نے ابھی حال تک اپنے کلام کا کوئی مجموعہ شائع نہیں کرایا پھر اچانک انتقال سے پہلے چند سالوں میں یکے بعد دیگرے چار کتابیں منظر عام پر آگئیں۔ِ
ِمیرا کوئی ماضی نہیں، ملکوں ملکوں شہروں شہروں، روشن چہرے اور لفظوں کے پیراہن۔
،،میرا کوئی ماضی نہیں،، کتاب میں ان کے ماضی کے حالات ہیں اور،، روشن روشن چہرے ،،میں چودہ اہم شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔،، ملکوں ملکوں شہروں شہروں ،،میں، مصر برطانیہ ایران نائجیریا اور فرانس کے سفر نامے ہیں۔
لفظوں کے پیرہن ان کے کلام کا مجموعہ ہے جو حقیقت میں ان کی زندگی کے تجربات احسا سات مصائب اور مشکلات کے ساتھ ان کی تہہ دار شخصیت کے رنگین پیرہن کا مجموعہ ہے۔ مجموعہ کی ترتیب بھی ان کی شخصیت اور ان پر ان کے مذہبی عقیدہ کی گہری چھاپ کی عکاس ہے۔
سحاب نے اپنی نظم سوکن میں کس سلیقہ اور پْراثر انداز سے برطانوی معاشرہ میں بے وفائی کے تجربہ کی عکاسی کی ہے۔
’جیسے وہ تمکا چاہت ہیں
ہمکا بھی چاہت تھے
نین جوت جلاوت تھے
نردوہی سے کیسے کہن ہم
اک دن ایسا آوے گا
تمرا دل بھی ترسے گا
جب آنکھ سے ساون برسے گا‘
سحاب کی پر حساس اور تجربات سے بھر پور نظمیں بلاشبہ لاجواب ہیں لیکن وہ اردو شاعری میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اپنی غزلوں کی بدولت۔ سحاب کے یہ اشعار جاوداں رہیں گے۔
غروب مہر پہ کس نے لہو چڑھایا ہے
یہ کس نے خون جلایا ہے روشنی کی لیے
حرم ہو دیر ہو ہر جا ہے آدمی ہی خدا
مجھے کہیں مرا پروردگار مل نہ سکا
تمام عمر ہی روتے گزر گئی ہے سحاب
ہمیں تو بھول کے بھی غم گسار مل نہ سکا
آدمی اک تضاد باہم ہے
کبھی جنت کبھی جہنم ہے
غم ہے اک نعمت خداوندی
جتنا برتو اسی قدر کم ہے
بجھ رہے ہیں چراغِ دیر و حرم
دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے
صرف یہ ایک شعر ہی سحاب کو اردو شاعری کے افق پر ہمیشہ درخشاں رکھے گا
سحاب کی آخری آرام گاہ لندن کے شمال میں اس فلم اسٹڈیو سے ملحق قبرستان میں ہے جہاں ہیری پوٹر کی فلمیں تیار ہوئی ہیں۔
♣
One Comment