ایمل خٹک
گاوں کی اپنی زندگی اور اپنے اپنے نرالے کردارہوتےہیں۔ اور وہ مختلف کردار مل کر گاوں کو رونق بخشتے ہیں۔ ھمارے مقبول چاچا بھی ایک ایسے کردار ہے جو ہر غمی اور خوشی کی موقع پر گاوں والوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں ۔ اخبار بینی کی عادت اس کو بچپن سے ہے۔ وہ بچپن میں اخبار میں بچوں کا صفحہ اور کارٹون شوق سے پڑھتاتھا۔ اپنی اس عادت کی وجہ سے وہ دنیا جہاں کی معلومات رکھتا ہے۔ دو چیزوں میں اس کا جواب نہیں ایک تو اس کو تقریباً تمام سیاسی شخصیات کا شجرہ نسب معلوم ہے کہ کون کون ہے کس کا بیٹا ہے شادی اس نے کس خاندان میں کی اور کس سیاستدان یا جاگیردار یا صنعتکار یا جرنیل سے اس کی رشتہ داری ہے۔ دوسرا اہم سیاسی واقعات کی تاریخیں اس کو یاد رہتی ہے۔
مگر مقبول چاچا کو ایک بیماری ہے وہ تو خود اس کو بیماری نہیں کہتا مگر میرے جیسے کئی ایک ناقص العقل اس کو ایک سنگین معاشرتی بیماری سمجھتےہیں اور وہ ہے سپر نیشنل ازم کی بیماری۔ سپر نیشنل ازم کی بیماری میں مبتلا افراد ملک میں قومی اداروں کی ہر خامی اور کمزوری کو بیان کرنے سے ہچکچاتے ہیں کہ مبادا اس سے اداروں کی بے توقیری ہوگی اور ملک کی رسوائی یا بدنامی ہوگی۔
اس بیماری میں مبتلا افراد قومی اداروں پر تنقید کو یا ان کی خامیاں اور نقائص بیان کرنے کو قومی مفاد کے خلاف سمجھتی ہے اور وہ اکثر ان کی حب آلوطنی کی تعریف پر پورا نہ اترنے والوں کو غداری کا سرٹیفیکٹ دینے یا بیرونی اداروں کی ایماء پر قومی مفاد کے خلاف کام کرنے کا الزام لگانے میں دیر نہیں لگاتے۔ اور اگر ایک دفعہ کسی پر یہ ٹھپہ لگا تو پھر عمر بھر کیلئے وہ بندہ غدار ہی رہتا ہے۔
بعض قومی ادارے ان لوگوں کیلئے مقدس گائے کی حیثت رکھتےہیں ۔ اور وہ ادارے ہر قسم کی غلطیوں اور خامیوں سے پاک ہوتے ہیں اور کبھی کوئی غلطی یا خامی مقبول عام ہوجائے تو اس کو مان تو لیتے ہیں مگر اگر مگر یعنی بہت سارے تاویلات کے ساتھ ۔ ایسے افراد حب علی اور بغض علی میں بھی انتہا کو پہنچے ہوئےہوتے ہیں ۔ ایسے افراد کے نزدیک وہ اور ان کا ملک ہر قسم کی غلطیوں اور نقائص سے پاک جبکہ دشمن ملک یا قوم دنیا بھر کی گندگی سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔
اپنی قوم اور ملک کی ہر بات اچھی ہوتی ہے اور دشمن ملک کوئی اچھا کام کر ہی نہیں سکتا وہاں کا سب کچھ غلط اور نفرت کے قابل ہوتا ہے۔ سازشی تھیوریاں گڑھنا ، ھر بات کو قومی مفاد کے پیمانے پر تولنا ، وقت بے وقت معمولی سے بات پر غداری کا ٹھپہ لگانا اور بعض قومی اداروں پر تنقید کرنے والوں کی حب الوطنی کو چیلنج کرنا وغیرہ اس بیماری کے اہم علامت ہے۔
مقبول چاچا کی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس میں یہ تمام علامات نظر آتی ہیں۔ جنرل ضیاء کے دور میں وہ ان کا آئیڈیل تھا مجال ہے کہ ان کے خلاف کوئی بات برداشت کریں۔ ان کے جانے کے کچھ عرصہ بعد خاص کر جب ان کی غلط پالیسیوں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا تو وہ ان کا سخت ناقد بن گیا۔ یہی حال جنرل مشرف کا بھی ہوا۔ ہر نئے سربراہ کو وہ پیشہ ور اور دوسرے سے بہتر قرار دینے کی روایت پر وہ تاحال قائم ہے۔
دو سابق آرمی چیفس کے بنک اکاونٹس کے تفصیلات جاری ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہے شکر ہے کہ عام پاکستانی میڈیا آزاد نہیں ورنہ وہاں بھی دن رات اس ایشو پر ڈسکشن ملتی ۔ اور بوریت مزید بڑھتی۔ پھر سنسرشپ کی ماری میڈیا میں سیلف سنسر شپ کا رحجان بھی زیادہ ہے ۔ اس طرح میڈیا میں کہیں نہ کہیں ایک ریٹائرڈ فوجی بیٹھا رہتا ہے۔ اور اکثر حاضر سروس افسران کا بھی صحافیوں سے ملنا جلنا لگا رہتا ہے۔ کبھی پیار و محبت کبھی مذاق میں اور جب ضرورت پڑتی ہے۔ تو طاقت سے بات سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اچھا ہے کہ میڈیا کو سبق سکھانے کی ایک دو مثالیں بھی موجود ہے۔ دھمکی میں کچھ وزن بھی ہونا چا ہیے۔ پھر کسی کا حشر سامنے رکھنے کی دھمکی اثر بھی رکھتی ہے۔
تو بات ہو رہی تھی چاچا مقبول کی۔ پچھلے دنوں کسی نے اس کو چھیڑنے کیلئے پوچھا کہ یہ جنرل مشرف اور جنرل کیانی کے بیرون ملک اکاؤنٹس کا کیا مسئلہ ہے۔ چاچا مقبول نے زچ ہو کر کہا کہ یہ امریکہ کی سازش ہے کیونکہ دونوں نے امریکہ کی کئی باتیں ماننے سے انکار کیا تھا اس لئے ان کو بدنام کیا جارہا ہے۔ اب تو امریکہ بھارت کے ساتھ پینگیں بھی بڑھا رہا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنا اور پاک فوج کو کمزور اور بدنام کرنا ان کے ایجنڈے پر ہے۔
اگر چاچا مقبول کی منطق کو سامنے رکھا جائے تو امریکہ،برطانیہ ، اسرائیل یا ہمارے بعض پڑوسی ممالک کا ہر وقت ہمارے خلاف سازشیں سوچنے اور کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔
ویسے سابق جرنیلوں کے اکاؤنٹس میں ان کی جائز آمدنی سے لاکھوں گنا زیادہ اتنی بڑی بڑی رقومات کا پایا جانا بڑی انوکھی بات ہے۔ اپنی آمدنی سے زائد بنک بیلنس یا جائیداد رکھنے والوں یا بیرون ملک سرمایہ یا بزنس کرنے والوں کی فہرست صرف ان دو فوجی سربراہان تک محدود نہیں بلکہ بعض دیگر ریٹائرڈ اور حاضر سروس پردہ نشینوں کے نام ابھی سامنے نہیں آئے۔ اس سے پہلے بھی کئی جرنیلوں مثلا جنرل ضیاء دور کے حوالے سےکئی افسروں کے بنک بیلنس اور جائیدادوں کے بارے میں ایسی باتیں آتی رہی ہیں ۔ اور تو اور جنرل ایوب خان کے دور میں بھی اس کے کچھ قریبی لوگوں کی کرپشن کی حوالے سے کچھ افواہیں زیر گردش تھیں۔
جب بھی پاکستان امریکہ کی کسی سٹرٹیجک گیم کا حصہ بنتا ہے تو پاکستان کو اعلانیہ امداد کے علاوہ بیرون ملک سے خفیہ کاموں اور سرگرمیوں کیلئے بھی اچھی خاصی رقم ملتی ہے اور یہ وہ رقم ہوتی ھے جس کو اہم عہدوں پر فائز شخصیات بغیر ڈکار ہضم کرنے میں عار محسوس نہیں کرتیں۔
جنرل ضیاء سے پہلے خفیہ سرگرمیوں کیلئے فنڈز مغربی ممالک خاص کر امریکہ سے آتے تھے مگر جرنیل ضیاء الحق کے دور میں عرب ممالک سے بھی بے انتہا فنڈز آنا شروع ہوگئے۔ سب سے زیادہ پیسہ جنرل ضیاء کے دور میں آیا پھر جنرل مشرف اور جنرل کیانی کے دور میں۔ یہ فنڈز عموماً مختلف سطحوں پر پہنچتا رہتا ہے۔ لیکن زیادہ تر فنڈز انتہائی ا ہم اور ذمہ دار عہدوں پر فائز شخصیات کی دسترس میں ہوتا ہے۔ ابتدا میں تھوڑا بہت پردہ یا لحاظ تھا۔ چونکہ مال مفت تھا ایسے میں دل کا تو بے رحم ہونا تھا۔ بعد میں ڈکار لئے بغیر ہضم کرنے کا عمل اتنا عام اور نیچے ایک حد تک پہنچا کہ احتیاط کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹنے لگا۔ اس رقم کو محفوظ رکھنے کے کئی طریقے ہیں ۔ بنکوں کے علاوہ کچھ شخصیات کے ذاتی سیف بھی غیرملکی کرنسی سے بھرے ہوئے ہیں۔
چاچا مقبول کی وجہ سے بندہ بہت سی باتیں لکھ بھی نہیں سکتا کہ مبادا وہ خفا نہ ہو ۔ اور ان کی خفگی کا مطلب مفت میں غداری کے نت نئے تمغے وصول کرنا ہے۔ اب چاچا مقبول کو کون یہ سمجھائے کہ قومی اداروں میں شفافیت اور اصلاح کیلئے تنقید کتنی ضروری ہوتی ہے۔ اور اداروں کو مقدس گائے سمجھنے سے تنقید کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور بیرون ادارہ تنقید کی غیر موجودگی میں ان اداروں میں گند گی صاف ہونے کی بجائے مزید پھیلتی ہے۔ جائز ذرائع آمدن سے زائد اتنی بھاری رقوم کا کسی کے اکاونٹ میں پائے جانے کی ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی ناجائز طریقہ بروئے کار لایا گیا ہے۔ اب کسی ادارے کے سربراہ کا کرپشن میں ملوث ہونا اس ادارے کی نیک نامی کیلئے کتنا بڑا دھچکہ ہے۔
♠