ترکی پھر مغرب کے چنگل میں؟

asaf jilaniآصف جیلانی

گذشتہ مئی سے ترکی کی خارجہ پالیسی میں نمایاں طور پر بنیادی تبدیلی نظر آتی ہے ۔ اتحاد عالم اسلام کے نظریہ پر مبنی پالیسی جو پچھلے دس برس سے زیادہ عرصہ سے ترکی کی نئی آن اور روشن پہچان تھی وہ اب ایسا لگتا ہے ترک کر دی گی ہے۔ 

اسرائیل کے سفارتی اور تجارتی تعلقات جوگذشتہ چھ سال سے منقطع تھے اب بحال ہوگئے ہیں۔گذشتہ نومبر میں شام کی سرحد کے قریب ، روسی طیارہ کے مارگرائے جانے پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے روس کے صدر پوتین سے معافی مانگ لی ہے ۔مصر میں ،منتخب صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر جنرل السیسی کے قبضہ کے بعد بھڑکنے والی شدید کشیدگی کو نظر انداز کرکے صدر اردوان نے مصر کے فوجی آمر کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کا اقدام اٹھایا ہے ،ادھر کردوں کے مسئلہ اور شام کی خانہ جنگی کے بارے میں امریکا سے جو اختلافات تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنے ہوئے تھے ، صدر اردوان کی اب کوشش ہے تعلقات کی دڑاڑوں پر پردہ ڈال دیا جائے۔ 

یہ بات بے حد اہم ہے کہ ترکی کی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا آغاز اسرائیل کے ساتھ مصالحت اور سفارتی ، تجارتی اور فوجی تعلقات کی بحالی سے ہوا ہے۔ترکی اور اسرائیل کے تعلقات کی تاریخ خاصی پرانی ہے ۔ 1949میں ترکی ، پہلا مسلم اکثریتی ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ گو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے تحفظ اور اس کو فروغ دینے میں ترکی کی فوجی حکومتوں کا اہم رول رہا ہے لیکن صدر اردوان نے بھی اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کو فوقیت دی اور 2005 میں تجارتی اوردفاعی تعاون بڑھانے کے لئے صدر اردوان نے اسرائیل کا سرکاری دورہ کیا تھا۔

لیکن 2010میں غزہ کے محاصرہ توڑنے اور فلسطینیوں کو امدادفراہم کرنے کے لئے بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے جہازوں کا جو بیڑہ غزہ کے ساحل کی سمت روانہ ہوا تھا اس میں ترکی کے امدادی کارکنوں کا جہاز ماوی مرمارا بھی شام تھا۔ اسرائیل نے جب اس بیڑہ پر حملہ کیا توترکی کا جہاز بھی نشانہ بنا اور اس جہاز کے دس کارکن جاں بحق ہوگئے تھے۔ یہ سانحہ ترکی کے لئے ناقابل برداشت تھا جس کے بعد ترکی اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کی فصیل کھڑی ہوگئی اور سفارتی اور تمام تعلقات منقطع ہوگئے۔ جب امریکا نے دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کی ناکام کوشش کی تو اس وقت صدر اردوان نے مصالحت کے لئے تین شرائظ پیش کی تھیں ۔

اول اسرائیل حملہ پر معافی مانگے ، دوم ترکوں کے جانی نقصان پر معاوضہ ادا کرے ، سوم اسرائیل غزہ کا محاصرہ یکسر ختم کر دے۔ اس وقت اس بنیاد پر مصالحت نہیں ہو سکی۔ اب اس سلسلہ میں یورپی یونین نے اہم رول ادا کیا ہے۔ یورپی یونین نے ترکی سے کہا تھا کہ اگر ترکی چاہتا ہے کہ یورپی یونین میں شمولیت کے بارے میں اس کی درخواست پر پیش رفت ہو تو اس سے پہلے ترکی کے لئے اسرائیل سے تعلقات بحال کرنا لازمی ہے۔ اس سلسلہ میں اسرائیل نے جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو ۲ کڑوڑ ڈالر کی رقم اد ا کرنے کی پیشکش کی۔ 

صدر اردوان نے نہایت عجلت میں یورپی یونین کا یہ مشورہ تسلیم کر لیا اور معاوضہ کی رقم قبول کرکے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کر لیا۔ اسی کے ساتھ اسرائیل کی گیس ترکی کے راستہ یورپ کو سپلائی کرنے اور دفاعی تعاون بحال کرنے پربھی اتفاق کر لیا۔

ترکی میں بہت سے لوگوں کو اس بات پر سخت تعجب ہوا ہے کہ صدر اردوان نے اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کی تینوں شرائط پوری ہوئے بغیر اسرائیل سے تعلقات کی بحالی میں اتنی عجلت سے کام لیا ہے۔ اسرائیل نے ۲ کروڑ ڈالر کا معاوضہ تو ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن ترک جہاز پر حملہ پر معافی نہیں مانگی اور نہ غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بات صدر اردوان کے لئے باعث ہتک ہے۔

دوسری طرف صدراردوان نے روس کے صدر پوتین سے گذشتہ نومبر میں روسی طیارہ مار گرانے پر معافی مانگ لی ہے اور روس سے بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلہ میں صدر اردوان پر کسی ملک کا دباو نہیں تھا بلکہ اقتصادی مشکلات کا دباو تھا۔ کیونکہ روس نے طیارہ کی تباہی کے بعد ترکی کو گیس کی سپلائی بند کر دی تھی اور ترکی سے سبزیوں اور پھلوں کی درآمد روک دی تھی ، اسی کے ساتھ روس نے روسی سیاحوں کے ترکی جانے پر پابندی عائدکر دی تھی جس کی وجہ سے ترکی کو بہت زیادہ مالی خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا تھا۔ در ایں اثناء شام کی خانہ جنگی میں روس کی فوجی مداخلت کی وجہ سے ترکی سخت کشمکش میں گرفتار ہوگیا ہے۔ ترکی کو شبہ ہے کہ ترکی کے کردوں اور شام و عراق کے کردوں کو ترکی کے خلاف فوج کشی میں روس مدد دے رہا ہے۔ 

مبصرین اس بات کو بھی بہت اہمیت دیتے ہیں کہ ترکی نے حال میں امریکا سے بھی اختلافات ختم کرنے کے لئے پہل کی ہے ۔ صدر اوباما اور صدر اردوان کے درمیان،شام کی خانہ جنگی کی حکمت عملی کے بارے میں اختلافات رہے ہیں ۔کردوں کا مسئلہ بھی دونوں صدور کے درمیان تنازعہ کا باعث ہے۔ امریکا عراق اور شام کے کردوں کی حمایت کرتا ہے لیکن ترکی ان کردوں کے خلاف خاص طور پر شام کے کردوں کے خلاف فوجی کاروائی پر تلا ہوا ہے کیونکہ ترکی کا موقف ہے کہ یہ کرد ترکی کے کردوں کی مدد کے لئے ترکی میں حملے کر رہے ہیں اور ترکی میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہرحال ترکی ، اب امریکا سے قریبی تعلقات استوار کرنے کے لئے کوشاں ہے۔

اسی دوران صدر اردوان نے مصر کے فوجی آمر جنر ل السسی کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑٖھایا ہے ، جنہوں نے صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔ترکی ،اخوان المسلمین کی حمایت اور حماسکی مالی امدادکرتا رہا ہے ۔مصر کی تاریخ میں پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی برطرفی اور ان کی گرفتاری پر ترکی نے سخت احتجاج کیا تھا جس کی وجہ سے جنرل السسی اور ترکی کے درمیان اس قدر شدید کشیدگی بھڑک اٹھی تھی کہ دونوں ملکوں کے تعلقات عملی طور پر معطل ہوگئے تھے۔مصر کے فوجی آمر کے تئیں صدر اردوان کے رویہ میں اچانک اس تبدیلی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ۔ 

یہ محض اتفاق نہیں بلکہ مبصرین کے نزدیک یہ حقیقت ہے کہ ترکی کی خارجہ پالیسی میں یہ بنیادی تبدیلیاں ، گذشتہ مئی میں صدر اردوان کے ساتھ ا ختلافات کی بناء پر وزیر اعظم احمد داودولو کے وزارت اعظمی سے استعفی اور حکمران جماعت ، عدالت و کل کناماپارٹی (اے کے پی )کی صدارت سے علیحد گی کے بعد سے رونما ہوئی ہیں۔ پچھلے دس سال سے زیادہ عرصہ تک ترکی کی خارجہ پالیسی پر احمد داودولو کی گہری چھاپ رہی ہے۔ احمد داودولو 2014سے اس سال مئی تک وزیر اعظم تھے۔ اس سے پہلے 2009سے 2014تک وزیر خارجہ رہے ہیں اور اس سے پہلے 2003سے2009تک صدر اردوان کے مشیر رہ چکے ہیں۔

یہ بات بے حد اہم ہے کہ نہ صرف احمد داودولو بلکہ خود رجب طیب اردوان ، رفاہ پارٹی کے سربراہ نجم الدین اربکان کے قریب اور ان کے نظریہ سے متاثر رہے ہیں۔ اربکان نے جو 1996اور 1997میں وزیر اعظم تھے ، ترکی کی سیکولر پالیسی کو جو کمال اتا ترک کے دور سے چلی آرہی تھی ، ترک کر کے اتحاد عالم اسلام کی بنیاد پر پالیسی اختیار کی تھی۔ انہوں نے ترکی میں اسلامی اقدار کو فروغ دینے اور مغربی دنیاکے ان کے بقول منفی اثرات کے خاتمہ کی جدوجہد کی تھی اور مسلم ممالک کے اتحاد کے لئے کوشاں تھے۔ اسی مقصد کے لئے نجم الدین اربکان نے ترقی پذیر ملکوں کاڈی ۸کا اتحاد قائم کیا تھا،جس میں پاکستان ، ایران، بنگلہ دیش، ملایشیا، انڈونیشیا، مصر اور نایجیریا شامل تھے ۔دراصل ان کی اتحاد عالم اسلام کی اساس پر پالیسیوں کی وجہ سے سیکولرزم کی علم بردار فوج نے ان سے اقتدار چھین لیا اور آیئنی عدالت نے انہیں سیاست میں حصہ لینے کا نااہل قرار دے دیا۔ 

احمد داودولو نے دراصل اربکان کی تقلید کرتے ہوئے اپنے دور میں اسلامی اتحاد کی بنیاد پر خارجہ پالیسی وضع کی تھی جس میں زور بین الاقوامی نظام میں ترکی کے اہم درجہ حاصل کرنے پر تھا۔ احمد داودولو کی رائے ہے کہ ترکی جو کبھی کسی استعمار کی نوآبادی نہیں رہا اور جس کی خاص جغرافیائی حیثیت ہے بین الاقوامی امور میں عظیم تر رول ادا کرسکتا ہے۔ان کے اپنے پڑوسیوں سے زیرومسائل کی پالیسی تھی اور خاص طور پر ان ملکوں سے قربت پر زور دیا گیا تھا جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے ۔اسی لئے ان پر مغرب میں یہ تنقید کی جاتی تھی کہ وہ سلطنت عثمانیہ کا دور لانا چاہتے ہیں۔ان ہی پالیسیوں کی بنیاد پر ترکی مشرق وسطی میں ایک مضبوط معیشت کا حامل ملک بن کر ابھرا ۔ 

رجب طیب اردوان ، ترکی کے سیاسی اسلام کے نظریہ پر یقین رکھتے ہوئے احمد داودولو کی خارجہ پالیسی کے زبردست حامی تھے لیکن صرف گذشتہ مئی تک جب تک ان کے احمد داودولو سے اختلافات اس حد تک نہیں بڑھے تھے کہ احمد داودولو کو وزارت اعظمی اور حکمران اے کے پارٹی کے سربراہ کے عہدہ سے استعفی دینا پڑا۔صدر اردوان نے اب بن علی یلدرم کو نیا وزیر اعظم مقرر کر کے خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں کی ہے جس کی بدولت ترکی پھر ایک بار مغرب کے چنگل میں پھنس گیا ہے۔

♠ 

3 Comments