افغانستان میں امریکی دستے بدستورموجود رہیں گے

افغانستان میں طالبان اور داعش کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں کے باعث امریکی صدر براک اوبامہ نے فیصلہ کیا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے گزشتہ منصوبوں کے برعکس اب یہ واپسی کافی سست رفتاری سے عمل میں آئے گی اور اگلے برس بھی قریب ساڑھے آٹھ ہزار امریکی فوجی افغانستان میں تعینات رہیں گے۔

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی صدر نے اپنے اس فیصلے کی تفصیلات مقامی وقت کے مطابق بدھ کو قبل از دوپہر واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس میں بتائیں۔

باراک اوباما نے کہا کہ اگلے برس جب وہ اپنے عہدہ صدارت کی دوسری مدت پوری کر کے وائٹ ہاؤس سے رخصت ہو رہے ہوں گے، تو افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد آٹھ ہزار چار سو کے قریب ہو گی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ امریکی صدر کا یہ اعلان دراصل یہ تلخ اعتراف بھی ہے کہ امریکا ہندوکش کی اس ریاست میں جاری اس جنگ میں ابھی الجھا ہی رہے گا، جس کا جلد خاتمہ امریکی عسکری ترجیحات میں شامل ایک بڑی ترجیح رہا ہے۔

افغانستان میں، جہاں کابل حکومت کو قریب پندرہ برسوں سے طالبان عسکریت پسندوں کی مسلح جدوجہد اور خونریز حملوں کا سامنا ہے، امریکی فوجیوں کی موجودہ تعداد 9800 کے قریب ہے۔

ماضی میں باراک اوباما کا منصوبہ یہ تھا کہ ان فوجیوں کی تعداد اس سال کے آخر تک کم کر کے 5500 کر دی جائے گی۔ لیکن گزشتہ مہینوں کے دوران افغانستان کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے وائٹ ہاؤس اپنے ان گزشتہ منصوبوں پر نئے سرے سے غور کرنے پر مجبور ہو گیا تھا اور اسی لیے اب امریکی حکومت نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔

نئے فیصلے کے بعد اگلے برس یعنی 2017ء میں بھی افغانستان میں امریکی دستوں کی تعداد قریب 8400 تک رہے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تب تک وہاں موجود امریکی فوجیوں میں سے صرف قریب 1400 فوجی واپس بلائے جائیں گے اور اُس تعداد (5500) سے قریب تین ہزار زیادہ امریکی فوجی اگلے برس بھی افغانستان میں فرائض انجام دیتے رہیں گے، جس کا ارادہ وائٹ ہاؤس نے ماضی میں کیا تھا۔

مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق اگلے برس ہندو کش کی اس ریاست میں امریکا نے اپنے جتنے فوجی تعینات رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ دراصل

تعداد کے حوالے سے ایک مصالحتی حل ہے۔ یعنی یہ تعداد اوباما کے گزشتہ منصوبے میں ذکر کردہ تعداد سے کہیں زیادہ ہے اور فوجیوں کی اس تعداد سے کافی کم، جن کی آئندہ بھی افغانستان میں تعیناتی کا امریکی فوجی کمانڈروں کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ صدر باراک اوباما کو آج وائٹ ہاؤس میں اعلیٰ فوجی اہلکاروں کی موجودگی میں کہنا پڑا کہ انہوں نے افغانستان سے فوجی انخلا کے اپنے گزشتہ منصوبے کو زیادہ سست رفتاری سے تکمیل تک پہنچانے کا فیصلہ افغانستان کی داخلی صورت حال اور اس کے تقاضوں کے پیش نظر کیا ہے۔

صدر اوباما نے کہا، ’’یہ بات ہماری قومی سلامتی کے مفاد میں ہے کہ ہم نے افغانستان میں گزشتہ کئی برسوں میں جتنے مالی وسائل صرف کیے ہیں اور جتنی انسانی جانوں کی قربانی دی ہے، اس کے بعد ہمیں اپنے افغان ساتھیوں کو یہ پورا موقع بھی فراہم کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہو سکیں‘‘۔

نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ صدر اوباما نے مزید کہا، ’’ہم افغانستان میں اب کسی بڑی زمینی جنگ میں شامل نہیں ہیں۔‘‘ لیکن امریکی صدر کے اسی بیان کو اپوزیشن رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایوان نمائندگان کے اسپیکر پال راین مختلف انداز میں دیکھ رہے تھے۔

ہاؤس اسپیکر راین نے کہا، ’’صدر اوباما کا آج کا اعلان اس حقیقت کا تاخیر سے کیا جانے والا اعتراف ہے کہ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ ابھی تک جیتی نہیں جا سکی‘‘۔

تاہم اس بارے میں خود باراک اوباما کا کہنا تھا، ’’مجھے پختہ یقین ہے کہ میں آج جس فیصلے کا اعلان کر رہا ہوں، وہی وہ درست قدم ہے، جو ہمیںاٹھانا چاہیے‘‘۔

DW

Comments are closed.