مائیکرو فنانس: غریبوں کے ساتھ دھوکہ

ڈاکٹر بھرت جھن جھن والا

حکومت ہند خواتین کی باہمی تعاون پر مبنی تنظیموں کے وسیلے سے حاجت مندوں کو چھوٹے چھوٹے قرضوں تک رسائی آسان بنانے کے جتن کررہی ہے۔ جس کا مقصد خواتین کو مالی طور پر خود کفیل بنانے کے ساتھ ساتھ اُن کے کنبوں کی معاشی حالت سدھارنا بتایا جاتا ہے۔

جبکہ ماہرین معاشیات کے مطابق، بہرطور، اس طرح کے مائکروفنانس غریبوں کی طرز زندگی میں کوئی خاص سدھار لانے سے قاصر ہیں۔ بنگلہ دیش کے ماہر معاشیات فاروق چودھری’دی نیشن‘ اخبار کے کالم میں رقمطراز ہیں کہ بنگلہ دیشی زرعی مزدوروں کی یومیہ اُجرت جو1984میں 20روپے تھی2003کے آتے آتے 28 روپے فی کس ہو گئی۔۔۔ گویا کہ فی سال2فیصد اضافہ درج کیا گیا۔ تاہم بنگلہ دیش کا شمار آج بھی دنیا کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ جبکہ ہندوستان میں عمومی حالت اپنے اس پڑوسی ملک سے قطعی مختلف نہیں۔

راقم الحروف کو ہندوستان کی کئی ریاستوں میں مائیکرو فنانس (چھوٹے قرضوں پر مشتمل اسکیموں) کے اثرات کا مشاہدہ کرنے کے مواقع میسر آئے اور ہم پر یہ بات آشکار ہوئی کہ چھوٹے پیمانے پر یوں قرض حاصل کرنے والے افراد کی معاشی حالت اُن غریبوں سے بدتر ہے جنہوں نے کوئی قرض لیا ہی نہیں ہے۔ کرناٹک کے گلبرگہ ضلع میں دوگاؤں کے لوگوں کی آمدنی کا جب موازنہ کیا گیا جن میں سے ایک گروہ نے اپنی مدد آپ کے تحت قرض لے رکھے تھے اور دوسرے نے نہیں، تو یہ انکشاف ہوا کہ بغیر کسی قرض کے گزربسر کرنے والوں کی معاشی حالت اوّل الذکر سے کافی بلند او ربہتر ہے۔

عقدہ یہ کھلا کہ مائیکروفنانس تحریک خاصی مشتبہ ہے، کیونکہ اس میں قرض خواہ کے ذریعے اُٹھائے جانے والے قرض پر منافع کی شرح کبھی زیر بحث نہیں آتی بلکہ یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ منافع کی شرح بہ نسبت شرح سود کے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن یہ قطعی خام خیالی ہے۔ اس کے برعکس یہ دیکھا گیا ہے کہ دیہی عوام تنکا تنکا کرکے جوڑی گئی رقوم بینکوں میں کمتر شرح سود یعنی5فیصد پر فکس ڈیپازٹ کرادیتے ہیں۔ حالانکہ اسی رقم سے اگر وہ کوئی دوکان کھولیں یا چھوٹی سی کوئی رائس مل ہی قائم کرلیں تو اس رقم پر انہیں30فیصد سے بھی زائد منافع ہوسکتا ہے۔

لہٰذا یہ انکشاف ہوتا ہے کہ مال کی گرتی ہوئی قیمت اور منافع کی شرح میں کمی کے سبب مائیکرو فنانس بھی غربت کے خاتمے کے بجائے اس میں اضافے کا حربہ ہے جس کی زد میں غریب لوگ غریب تر ہوچلے ہیں، کیونکہ انہیں اپنی قلیل آمدنی کا زیادہ تر حصہ سود کے طور پر ان بینکوں کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ مسٹر محمد یونس اور ڈاکٹر من موہن سنگھ بھولے سے بھی اشیائے صرف کے لیے غریبوں کے ذریعے چکائی جانے والی شرحوں سے متعلق کوئی بتصرہ نہیں کرتے۔

علاوہ ازیں مائیکروفنانس کی خوبی یہ ہے کہ وہ زیادہ تکلیف دہ صورت میں مبتلا نہ کرتے ہوئے بھی غریبوں کا خون چوستا رہتا ہے۔ تاہم جس طرح لوگ باگ اپنے لیے وقتی طور پر تنگ دستی سے نجات عطا کرنے والے ساہوکار کے شکر گزار ہوتے ہیں، نیز جیسے کوئی شرابی ایک بوتل شراب خریدنے کے لیے قرض دینے والے کا مشکور ہوتا اسی طرح کسی امداد باہمی تنظیم کے ممبران بھی چھٹ پٹ قرض دینے والے مائکروفنانس اداروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ مگر وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ اسی دارے نے ان کی آمدنیوں میں سیندھ لگاکر انہیں اپنی یافت سے محروم کرنے کا بھی چکر چلا رکھا ہے۔

واضح رہے کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کی حکومتیں نیز غیر ملکی عطیہ دہندگان اس طرح کے مائکروفنانس کو اس لیے فروغ دیتے ہیں کہ متعلقہ تحریکیں بڑی کامیابی سے غریبوں کا کچومر نکالنے کے باوجود یہ بھرم قائم رکھتی ہیں کہ حکومت ان کی غربت کے ازالے کے لیے کچھ نہ کچھ کرتو رہی ہے۔ بہرکیف ساہوکاروں سے فی ماہ5فیصد شرح سود پر قرض لینے والے غریبوں کو جب وہی قرض زیادہ موثر طور پر مائکرو فنانس اداروں کے ذریعے فراہم کردیا جاتا ہے تو وہ نہال ہوجاتے ہیں۔

یاد رہے کہ بینکوں سے قرض حاصل کرنے کے لیے ان غریبوں کو کافی پریشانیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں، ساتھ ہی سرخ فیتہ شاہی کے تحت سرکاری بینکوں سے قرض کی خاطر متعلقہ دستاویزی کی تیاری کا خرچ وغیرہ کے علاوہ رشوت دے کر قرض حاصل کرنا بھی ممنوع ہے۔ جبکہ مائکروفنانس والے مطلوبہ قرض کی رقم بغیر کسی تگ ودو کے قرض خواہوں کو فراہم کردیتے ہیں۔ اس طریق کار میں، جو لوگ غربت کی قید سے فرار حاصل کرنے کے لیے ساہوکاروں یا بینکوں کی زبردست شرح سود کا بھی سامنا نہیں کرنا چاہتے وہ مائکروفنانس کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں۔ یوں یہ مائکروفنانس تحریک زیادہ موثر اور محفوظ طریقے سے قرض خواہوں کو بینکوں اور ساہوکاروں کے چنگل سے بچاکر اپنا مایا جال پھیلانے چلی ہے جس سے غربت میں روز افزوں اضافہ ہوچلا ہے۔

ایسے میں خیر خواہ سماجی کارکنوں کو، جو غریبوں کی حالت میں بہتری کو یقینی بنانا چاہتے ہیں، یہ چاہیے کہ وہ غریبوں کے خون پسینے سے پیدا ہونے والی زرعی اور دیگر پیداوار کو اونچی قیمتیں دلانے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔ اس طرح غریبوں کو کسی منافع بخش تجارت میں سرمایہ کار ی کے لیے پیسہ جمع کرنے میں مدد ملے گی اور رفتہ رفتہ وہ خود کفیل ہوجائیں گے۔یہی وہ دیانت دارانہ طریق کار ہے جس سے نہ صرف غربت کے خاتمے کے خواب کو تعبیر عطا کی جاسکتی ہے بلکہ غریبوں کو مائکرو فنانس کی دلدل والی مشتبہ راہوں سے بچا کرترقی کی راہوں پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔
(
بشکریہ ماہنامہ حیات، دہلی )

Comments are closed.