کیا پاکستان واقعی سفارتی تنہائی کا شکار ہے؟

35921346_401

برکس ممالک کے اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ بھارت کے ہمسائے میں ’’دہشت گردی کا گڑھ موجود ہے‘‘۔

تیزی سے ترقی کرنے والی پانچ معیشتوں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے رہنماؤں کے اس سربراہی اجلاس میں مودی نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ اس  تنظیم کو دنیا بھر میں دہشت گردوں سے رابطے رکھنے والے اس ملک کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے۔تاہم برکس کے مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

اس حوالے سے بھارتی صحافی اوما شنکر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’بھارت کو معلوم ہے کہ برکس ممالک کے الگ الگ مفادات ہیں لیکن بھارت نے اپنے حساب سے پاکستان پر تنقید کرنے کے لیے زور لگایا ہے۔‘‘ اوما شنکر کہتے ہیں کہ برکس بے شک ایک اقتصادی بلاک ہے لیکن بھارت نے اس سمٹ میں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ  اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ماحول دہشت گردی سے پاک ہو۔

خیال رہے کہ پچھلے چند ماہ میں بھارت، افغانستان اور ایران کے درمیان کئی بلین ڈالر کے معاہدے ہوئے ہیں جس میں سب سے اہم افغانستان اور بھارت کے ساتھ سٹریٹجک پارٹنر شپ کا معاہد ہ ہے۔اس معاہدے کی رو سے بھارت افغانستان کی فوج کی تربیت کے ساتھ ساتھ ہتھیار بھی فراہم کر ےگا۔اس کے علاوہ بھارت افغانستان میں بے شمار ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام کررہا ہے۔

تینوں ممالک کے درمیان ایک اور اہم معاہدہ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کی تعمیر اور وہاں سے افغانستان تک ریلوے لائن کی تعمیر ہے۔ اس بندرگاہ اور ریلوے لائن کی تعمیر کے بعد بھارت اور افغانستان اور پھر وسطی ایشیا تک کاروباری سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ متوقع ہے۔

لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان ان معاہدوں میں شامل نہیں ہے؟

بھارت کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت اور دوستی کے تعلقات قائم کرے ۔ بھارت کی شدید خواہش تھی کہ وہ واہگہ بارڈر کے ذریعے پاکستان ، افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک تک تجارت کر سکے ۔ اس مقصد کے لیے بھارت نے کئی سال پہلے پاکستان کو موسٹ فیور نیشن کا درجہ بھی دیا۔

پاکستان کی سیاسی حکومتوں نے بھی اس سلسلے میں مثبت پیش رفت کی اور جب بھی بھا رت کو موسٹ فیور نیشن کا درجہ دینے کی کوشش کی جاتی تو پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ ناکام بنا دیتی ہے ۔ کارگل پر حملہ ، بھارت کی پارلیمنٹ پر حملہ، ممبئی حملے تو کبھی پٹھان کوٹ پر حملہ یا پھر لائن آف کنٹرول پر بمباری کر کے دونوں ملکوں کے بہتر ہوتے تعلقات کو سبوتارژ کر دیا جاتا ہے۔

بقول پاکستان کے وہ ان حملوں میں ملوث نہیں بلکہ یہ نان سٹیٹ ایکٹرز کی کاروائی ہوتی ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چین کے علاوہ پاکستان کے تین ہمسائے افغانستان، ایران اور بھارت پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگا رہے ہیں۔ امریکہ جو کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا سب سے بڑا اتحادی تھا اب صرف اس لیے پاکستان کی فوجی امداد پر پابندی لگا چکا ہے پاکستان مسلسل دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کررہا ہے۔

لیکن پاکستان کی حکومت میں نے مانوں کی گردان جاری رکھے ہوئے ہے اور مسلسل دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ بھارتی قیادت کو بھی سمجھ آگئی کہ ان تلوں میں تیل نہیں ۔ لہذا بھارت نے دوسرے متبادل پر کام شروع کردیا اور ایران کے ساتھ مل کر چاہ بہار بندر گاہ کی تعمیر میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔

کیا واقعی پاکستان دہشت گردوں کی حمایت کر رہا ہے یا یہ پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہے؟

حال ہی میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دہشت گردی کے موضوع پر جو بحث ہوئی ہے اس میں بلاواسطہ طو ر پر یہ تسلیم کیا گیا کہ پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہا ہے اور ارکان پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا کہ ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ اگر یہ کاروائی نان اسٹیٹ ایکٹرز کی ہے تو پھر یہ پاکستان میں آزادی سے اپنی سرگرمیاں کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستان کے موقر انگریزی اخبار ڈان کے رپورٹر سرل المائڈہ کی جس رپورٹ نے پاکستان کے ایوان اقتدار میں ہلچل مچائی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں ۔ سیکرٹری خارجہ نے تسلیم کیا کہ دہشت گردوں کی حمایت کی وجہ سے پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے جو اندرون ملک اور سرحد پار آزادی سے اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نے اپنی بریفنگ میں واضح طور پر کہا کہ سفارتی تنہائی ختم کرنے کے لیے ہمیں لشکر طیبہ، جیش محمد ، حزب اسلامی اور ان جیسے تمام تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی لگانی ہوگی ۔

 پاکستان کی حکومت نے اس رپورٹ کے شائع  کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے اور اسے عالمی سطح پر  پاکستان کی جگ ہنسائی  قرار دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان واقعی ان تنظیموں کے خلاف کاروائی کرے گا ؟

DW/BBC/News Desk

Comments are closed.