یہ احمدی بڑے عجیب لوگ ہیں

asif-javaid4-252x300

آصف جاوید۔ٹورنٹو

ربیع الاوّل کا مہینہ مسلمانوں خاص کر پاکستانی مسلمانوں کے لئے بڑا متبرّک مہینہ ہوتا ہے۔ اس مبارک مہینے میں مسلمانوں کے پیغمبر جناب حضرت محمّد صلعم کی ولادت مبارکہ ہوئی تھی۔ بارہ ربیع الاوّل کا دِن نبی کریم کی پیدائش کے دن کے طور پر منا یا جاتا ہے۔ اس موقعہ پر عیدمیلاد النّبی کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ درودِ پاک اور محافلِ نعت منعقد ہوتی ہیں۔ جلوس نکالے جاتے ہیں، چراغاں کیا جاتا ہے۔ جشن منایا جاتا ہے۔

مگر اِس دفعہ پاکستان میں یہ جشن عجیب و غریب طریقے سے منایا گیا۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے ضلع چکوال کے گائوں، دوالمیال میں ایک احمدی مسجد کو نذرِ آتِش کرکے چراغاں کیا گیا، اور ربیع الاوّل کی خوشیاں منائی گئیں۔ چکوال کی یہ احمدی مسجد تقریباً سو سال پرانی مسجد ہے۔

یہ مسجد جِس گاوں میں آباد ہے اس میں احمدیوں کے تقریبا سو سے زائد خاندان آباد ہیں۔ میجر جنرل نذیر احمد ملک کا تعلّق بھی اس ہی گاوں سے اور احمدی فرقے سے تھا۔یہ مسجد ان ہی کے آباء نے قائم کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق مطابق گذشتہ روز ہزاروں افراد نے احمدی مسجد پر حملہ کرتے ہوئے مسجد اور اس کی املاک کو نذرِ آتش کردیا۔

حملے کے وقت مسجد کے اندر درجنوں افراد موجود تھے۔ مشتعل افراد نے ابتدا میں ڈنڈوں اور پتھروں سے اس مسجد پر حملہ کیا۔ اس کے بعد مسلح افراد نے مسجد میں موجود احمدیوں پر فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس خاموشی سے تماشا دیکھتی رہی۔ صورت حال اس قدر خراب تھی کہ مقامی حکام کو فوج اور نیم فوجی دستے طلب کرنا پڑے۔

مشتعل ہجوم کو منشر کرنے کے بعد مسجد کو سِیل کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ واقعے سے پہلے ہی علاقے کے مکینوں نے مسجد پر قبضہ کرنے کی مہم چلا رکھی تھی کیونکہ ان کا موقف ہے کہ 1974 کے بعد احمدی غیر مسلم قرار دیے گئے تھے اس لیے وہ اِس ’مسجد‘ کو چھوڑ دیں۔ حالانکہ 100سال پرانی مسجد احمدی فرقے نے ہی تعمیر کی تھی اور وہ ہی اس کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ چکوال کا یہ گاوں احمدی خاندانوں کا آبائی مسکن تھا۔ کثیر تعداد میں احمدی یہاں آباد تھے۔

کینیڈا میں مقیم میرے ایک احمدی دوست کے مطابق اس گاؤں کے مکین بڑے مہمان نواز تھے۔ ہر ایک کا بہت احترام کرتے تھے۔ جنرل نذیر صاحب کی آل اولاد جب تک دوالمیال گاوں رہی بہت محبت سے اور بڑے احترام سے پیش آتے تھے۔ مگر وقت بدل گیا وہ نیک لوگ مر کھپ گئے ۔ اکثر بیرونِ ملک اور اندرونِ ملک محفوظ مقامات کی جانب ہجرت کرگئے۔

تاریخ شاہد ہے کہ احمدی مسلمانوں نے قیامِ پاکستان کی تحریکوں میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ احمدی مسلمان بانیانِ پاکستان میں سے تھے۔ سر ظفر اللہّ خان احمدی تھے، جو پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ تھے۔ مگر اب پاکستان احمدیوں سے خالی ہوتا جارہا ہے۔ احمدیوں کی کثیر تعداد ہجرت کرکے مغربی ممالک میں آباد ہو رہی ہے ۔

جو احمدی پاکستان میں ہیں، وہ مجبور اور قسمت کے مارے ہوئے لوگ ہیں۔ یہ روزانہ انتہا پسند مسلمانوں کے ہاتھ کتّے اور بلّیوں کی طرح مارے جا تے ہیں، ریاست ان مارنے والوں کی پشت پناہی پر کھڑی رہتی ہے، مگر یہ احمدی ،خدا جانے کس مٹّی کے بنے ہیں کہ مُنھ سے اُف تک نہیں کرتے، خاموش رہتے ہیں اور برداشت کرتے ہیں، اور اپنے اسِ عمل کو امن پسندی قرار دیتے ہیں۔ مگر میری نظر میں یہ کوئی صلح جوئی اور امن پسندی نہیں ہے، بلک سراسر غلط فہمی اور بزدلی ہے ۔

کبھی ان احمدیوں کےمنہ سے پاکستان میں مذہبی منافرت اور مذہبی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لئے سیکولر اِزم کے حق میں ایک لفظ نہیں نکلا۔ میں نے آج تک کسی احمدی رہنما کو یہ کہتے نہیں سُنا کہ خدارا مذہب کو ریاست اور ریاست کو سیاست سے علیحدہ کردو۔ یہ احمدی خاموش تماشائیوں کی طرح رہتے ہیں۔ یہ احمدی کبھی بھی مسیحیوں اور ہندووں کے مارے جانے پر کچھ نہیں بولتے، اہلِ تشیع کی ٹارگِٹ کلنگ اور ہزارہ شیعہ کی ماس کلنگ ، ایک زمانے سے جاری ہے مگر آپ نے کسی احمدی کی زبان سے اِس قتل وغارت گری کے خلاف ایک لفظ نہیں سنا ہوگا۔

یہ احمدی اتنے بے حِس ہیں کہ کبھی ایک لفظ مہاجروں اور بلوچوں کے ساتھ کئے جانے والے ریاستی مظالم کی مذمّت پر نہیں نکالتے۔ مہاجروں اور بلوچوں کے ماورائے عدالت قتل اور ان کی ویرانوں سے ملنے والی مسخ شدہ لاشوں پر افسوس کے دو آنسو نہیں نکالتے۔ سِوِل سوسائٹی کے جو روشن خیال، معتدل مزاج لوگ ان کے حق کے لئے آواز اٹھا تے ہیں یہ اُن کا ساتھ بھی نہیں دیتے۔ سیکولر اور لبرل مزاج لوگ جو اصولی بنیادوں پر احمدیوں پر ہونے والے مظالم پر زور و شور سے آواز اٹھاتے ہیں یہ اُن کے ساتھ بھی کھڑے نہیں ہوتے۔

ہاں ایک کام جو یہ بڑی باقاعدگی سے کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ 14 اگست، اور 23 مارچ کو کالی شیروانیاں پہن کر اور سر پر کالی ٹوپیاں لگا کر یہ اپنے ہی قاتلوں کے ساتھ کھڑے ہو کر پاکستانی جھنڈوں کو سلامیاں ضرور د یتے ہیں۔ وہ ریاست جس نے ان کو کافر قرار دیا، وہ ریاست جس نے ان کے جان و مال کو کبھی تحفّظ فراہم نہیں کیا، یہ اُس ریاست کے سب سے بڑے وفادار ہیں۔ یہ کبھی اپنے قاتلوں کی مذمّت نہیں کر تے۔ یہ کبھی ریاستی اداروں کے کے ظلم و ستم کا ماتم نہیں کر تے۔

عجیب لوگ ہیں یہ ، بس بھاگ بھاگ کر دنیا کے ہر اس ملک میں پناہ لینے چلے جاتے ہیں جہاں سیکولر نظام حکومت ہے، مگر کبھی سیکولر پاکستان کا نعرہ بلند نہیں کرتے، کبھی پاکستان میں آئینی اور قانونی اصلاحات کا مطالبہ نہیں کرتے، کبھی نہیں کہتے کہ پاکستان میں ہر باشندے کو بلا امتیاز مذہب، عقیدہ ، فرقہ ، مسلک ، زبان اور لسّانیت برابری کی سطح پر آزادی حاصل ہو، ریاست کا کوئی مذہب نہ ہو۔

میں اب اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ احمدیوں اور اُن کے اکابرین سے ایسے کسی عمل کی توقّع رکھنا کہ وہ کبھی پاکستان میں مذہب کو ریاست سے علیحدہ کرنے کی بات کریں گے، بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی بانجھ عورت سے بچّہ پیدا ہونے کی امید رکھنا، میری باتوں کا احمدی اکابریں کو برا تو بہت لگے گا، مگر ایک احمدی مفکّر و دانشور اور قومی شاعر حکیم الامّت علّامہ ڈاکٹر محمّد اقبال کے مطابق مجھے بھی ہےحکمِ اذاں لا الہ الاللہّ۔

12 Comments