پاکستان میں عرب شہزادوں کی عیاشیاں

خورشید کمال مرزا

5622e90248376

حسب معمول اس دفعہ بھی تلور کے شکار کا موسم شروع ہو چکا ہے۔عرب شہزادے پاکستان آچکے ہیں اور کچھ آرہے ہوں گے۔ان کے شکار کی اکا دکا خبریں ہمارے میڈیا میں آئی ہیں۔میڈیا کے چیختے چلاتے اینکر پرسن جو سویلین حکومت کے ہر اچھے اقدام کو بھی تنقید کا نشانہ بنانا اپنا فرض سمجھتے ہیں لیکن حکومت کے اس غلط اقدام پر گفتگو کرنے پر تیار نہیں۔ پاکستانی مُلا جن کا اسلام پاکستان کی سالمیت یا خودمختاری کی طرح ہر وقت خطرے سے دوچار رہتا ہے وہ بھی عرب شہزادوں کی عیاشیوں پر بات نہیں کرتے شاید اس لیے کہ ان کے مدرسے بھی انہی کے فنڈز کی مرہون منت ہیں۔

پاکستان میں ایک لمبے عرصے سے تلور کے شکار پرمکمل پابندی ہے کیونکہ مسلسل شکار سے اس کی نسل ناپید ہو رہی ہے مگر حکومت پاکستان ہر سال اس قانون میں نرمی پیدا کرکے عرب شہزادوں کو شکار کی خصوصی اجازت دیتی ہے۔ حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ اگر یہ اجازت نہ دی جائے تو ریاست کی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچتا ہے۔

اس دفعہ شکارکے لیے جو شہزادے آئے ہیں ان کو عرب شہزادوں کی بجائے طنزاً قطری شہزادے کہا جارہا ہے شاید اس لیے کہ وزیراعظم نواز شریف کے ان کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ شاید اسی لیے خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت نے خیبرپختونخواہ میں قطری شہزادوں کو شکار کی اجازت دینے سے انکار کر دیاہے ۔ بہرحال قطری شہزادے ضلع بھکر کے علاقے میں شکار کھیل رہے ہیں جس کے متعلق ایک خبر میڈیا میں تو آئی مگر میڈیا نے اسے اچھالنا مناسب نہیں سمجھا وہ یہ کہ بھکر میں تلور کا شکار کھیلنے والے عرب شہزادوں کے خلاف مقامی کسانوں کا احتجاج اور ان پر پولیس کا لاٹھی چارج۔

ڈان نیو ز کی خبر کے مطابق قطر کے شاہی خاندان کے افراد کی جانب سے تلور کے شکار کے دوران مبینہ طور پر چنے کی فصل کو نقصان پہنچانے پر احتجاج کے دوران کسانوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوگئی۔یہ جھڑپ پنجاب کے ضلع بھکر کی تحصیل مانکیرا کے علاقے ماہنی میں ہوئی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ عرب شکاری پورے سیزن کے دوران پیدا ہونے والی فصل کو تباہ کر رہے ہیں۔احتجاج کرنے والے ایک شخص نے بتایا کہ عرب شہزادوں کی جانب سے علاقے میں تلورکا شکار ایک دہائی سے زائد عرصے سے کیا جارہا ہے۔ 

علاقے کے شہریوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے شکاری ہماری فصلوں کو کم نقصان پہنچاتے تھے اور ان کی جانب سے متاثرہ کسانوں کو اچھا معاوضہ ادا کیا جاتا تھا جبکہ قطری شکاریوں کی جانب سے صرف چند کسانوں کو برائے نام معاوضہ ملتا ہے۔ احتجاج کرنے والے شخص نے کہا کہ گذشتہ سال بھی جب قطری شکاریوں کے خلاف احتجاج کیا گیا تو انہوں نے علاقے میں ہسپتال اور اسکول تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اس سلسلے میں ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔

عرب شہزادوں کے شکار سے متعلق انعام ملک کا ایک مضمون ایک آن لائن میگزین ابلاغ میں شائع ہو ا ہے جس میں انہوں نے ایک سابق فوجی میجر کے حوالے سے لکھا ہے کہ تلور کا شکار تو محض بہانہ ہے بلکہ یہ شہزادے تو عیاشی کرنے آتے ہیں۔ یہ دن کو شکار کھیلتے ہیں اور رات کو اپنے خیموں میں نماز مغرب اور عشاء ادا کرنے کے بعد لڑکیوں سے دل بہلاتے ہیں ۔انہوں نے لکھا ہے کہ حکومت پاکستان، مقامی انتظامیہ اور لوگوں کے تعاون سے ان شہزادوں کی نفسانی ہوس پوری کرنے کے لیے کم عمر مقامی لڑکیوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ 

ان معلومات کے راوی پاک فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر ہیں جو ان شہزادوں کی سیکیورٹی پر معمور تھے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے یہ کہانی سنائی ہے کہ ان کا ضمیر اس بات پر مطمئن نہیں تھااس لیے انہوں نے نوکری چھوڑ دی۔یہ علم نہیں ہو سکا کہ ان کی ریٹائرمنٹ ایک معمول کی کاروائی تھی یا واقعی غیر ت میں آ کر استعفیٰ دیا تھا۔ ویسے ہمارے فوجی یا بیوروکریٹ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی بہادری یا اصولوں پر قائم رہنے کے قصے عوام کو ضرور سناتے ہیں۔

 انعام ملک صاحب بخوبی جانتے ہوں گے کہ پاکستان میں بھی  وڈیرے اور  وہ پراپرٹی ڈیلر جن کے پاس کچھ زیادہ پیسہ آگیا ہے وہ بھی اپنے فارم ہاوسز میں مجرے کرواتے ہیں۔ لہذا انعام ملک صاحب کو عرب شہزادوں کی عیاشیوں پر زیادہ پریشان نہیں ہو نا چاہیے۔

مجھے تو بھکر کے کسانوں سے ہمدردی ہے جن کی تیارفصلیں قطری شہزادوں نے اپنی بڑی بڑی گاڑیوں سے روند ڈالی ہیں اور حکومت سے مطالبہ ہے کہ ان کی فصلوں کی قیمت انہیں ادا کی جائے۔بہرحال معاملہ کچھ بھی ہو۔ عرب شہزادوں کو ریاست کے قوانین سے بالاتر رکھ کر عیاشی کے مواقع فراہم کرنا ایک سوالیہ نشان ہے۔

پاکستان چونکہ اسلامی ملک ہے اس لیے ہمارے رویوں میں منافقت کوٹ کوٹ کر بھری پڑی ہے۔ اگر مغربی ممالک کا کوئی عہدیدار پاکستان میں آکر شراب پیے اور اپنے ساتھ کسی گرل فرینڈ کو لے آئے تو ان کی تہذیب ہمیں بری لگتی ہے لیکن عرب شہزادے یہی کام چھپ کر کریں اور شراب،شباب اورکباب سے دل بہلائیں تو یہ شاید عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔

ویسے تو عرب حکمران اور شہزادوں کی عیاشیاں تو پوری دنیا میں زبان زد عام ہیں۔ اسلامی تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں یہ شہزادے شکار کے بعدجنسی کھیل بھی کھیلتے ہیں چونکہ ان کا قیام شہر سے باہر جنگل میں ہوتا ہے اور ان کے قریب کسی کو جانے نہیں دیا جاتا لہذااس پر قیاس آرائیاں ہی ہو سکتی ہیں۔ ویسے تو ان شہزادوں نے شہروں میں بھی اپنی محل نما کوٹھیاں بنا رکھی ہیں جن میں پرندہ بھی پرنہیں مارسکتا۔

ہمارے وہ دوست جو خلیجی  ریاستوں میں محنت مزدوری کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ رمضان کے مہینے شہر سے باہر صحرا میں خیمے لگ جاتے ہیں اوروہاں افطاری کے بعد محفل موسیقی بھی ہوتی ہے اور پاک و ہند کی رقاصائیں رقص بھی پیش کرتی ہیں۔

مجھے یاد ہے میرے دور طالب علمی میں (کوئی تیس چالیس سال پہلے)جب عرب امارات کے امیر شیخ زاید بن سلطان النہیان پاکستان کے دورہ کرتے تو نہ جانے کیوں ہمارے دوست انہیں مولوی لہو لہان کے نام سے پکارتے تھے۔ بہرحال مولوی لہو لہان کی پاکستان کے پسماندہ معاشرے کے لیے کچھ ترقیاتی کام بھی سرانجام دیئے ہیں جن میں لاہور اور رحیم یار خان میں اعلیٰ معیار کے ہسپتال تعمیر کرائے ہیں اور شاید رحیم یار خان کا ائیر پورٹ بھی انہوں نے ہی بنوایا ہے۔

2 Comments