پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق سے متصادِم چند قوانین

asif-javaid4-252x300

آصف جاوید

آج اُن قوانین کے بارے میں گفتگو کی جائیگی جو کہ پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق سے براہِ راست متصادم ہیں۔ کالم کی گنجائش محدود ہونے کے سبب ہم یہاں پر صرف اُن تین قوانین پر ہی گفتگو کریں گے جو بنیادی انسانی حقوق کی براہِ راست پامالی کا سبب بن رہے ہیں اور پاکستان کے موجودہ حالات کے کافی حد تک ذمّہ دار ہیں۔

قانون توہینِ مذہب

پاکستان میں قانون توہینِ مذہب کوغیر مسلموں اور مسلمانوں کے دیگر فرقوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، قانون توہینِ مذہب کو ہتھیار بنا کر مذہبی انتہا پسندوں نے پاکستان میں دیگر مذاہب اور فرقوں کی زندگی حرام کی ہوئی ہے۔ فرقہ پرستوں اور مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے پاکستان میں قانون توہینِ مذہب کے ناجائز استعمال سےاحمدیوں، مسیحیوں اور ہندووں کو خاص طور پر تذلیل کا نشانہ بنایا جاتاہے۔

تاریخی حقائق کے مطابق توہینِ مذہب کا قانون 1880 میں برٹش انڈیا میں سیکشن 295 کے نام سے وجود میں آیا تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہندوستان میں رہنے والے کثیر المذاہب انسانی گروہوں کے مذہبی جذبات کو آپس کی چپقلش اور ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی جانب سے پہنچائے جانے والے آزار سے تحفّظ فراہم کیا جائے۔

اپنی پیدائش کے وقت قانون توہینِ مذہب ایک مکمّل غیر جانبدار قانون تھا اور کسی بھی مذہب کی جانب ریاستی جھکائو کا کوئی پہلو اس قانون میں شامل نہیں تھا ، 1927 کے مذہبی فسادات کے بعد اس قانون میں ترمیم کرکے سیکشن 295 اے وجود میں لایا گیا، جس کا مقصد تحریر اور تقریر کے ذریعے مذہبی جذبات کو بھڑکانے پر پابندی عائد کرنا تھا۔

قیامِ پاکستان کے بعد 1982 میں سیکشن 295 بی وجود میں آیا جس کا مقصد قرآن پاک کی بے حرمتی پر تعزیر فراہم کرنا تھا۔ 1986 میں اس قانون میں سیکشن 295 سی شامل کیا گیا۔ جس کا مقصد نبی کریم کی حرمت مبارکہ کو تحفّظ فراہم کرنا تھا۔ سیکشن 295 سی، بنیادی انسانی حقوق اور اصولِ انصاف سے متصادِم قانون ہے۔

اتنی ساری ترامیم کے بعد قانون توہینِ مذہب، اب صرف اکثریتی گروہ کے ماننے والوں کو ہی تحفّظ فراہم کرتا ہے۔ اِس قانون میں تین بنیادی سُقم ہیں ۔ (پہلاسُقم)سیکشن 295 سی کے تحت قائم مقدمے کی سماعت صرف ایک مسلمان جج ہی کرسکتا ہے۔ (دوسرا سُقم) یہ قانون ارادتاً اور غیر ارادتاً جرم میں تخصیص اور امتیاز برتنے سے قطعی معذور ہے ۔

لہذا یہ قانون اصول انصاف کی اصل روح سے متصادم ہے کیونکہ یہ جرم کی ماہیت اور چھان بین کے معاملےمیں نیت اور ارادے کو تعیٗن کرنے سے یکسر قاصر ہے۔ (تیسرا سُقم) اس قانون میں عمر قید کی سزا کا پرووِژن نکال کر براہَ راست ہائر ڈگری آف پنشمنٹ رکھا گیا ہے ۔ یعنی قصور ثابت ہونے پر سزاوار کو واجب القتل قرار دیا گیا ہے۔

انتہا پسند اور فرقہ پرست اس قانون کو غیر مسلموں کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اِس قانون کی منظوری کے بعد انتہا پسندوں نے باقاعدہ ایک نعرہ بھی گھڑ لیا ہے گستاخِ رسول کی سزا، سر تن سے جدا۔

تحفّظ پاکستان قانون 2104

یہ قانون واضح طور پر آئین پاکستان، اقوامِ متّحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹرڈ اور بین الاقوامی ضمانتی قانون برائے شہری اور سیاسی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی کررہا ہے یہ قانون ایک طرف تو سیکیورٹی ایجنسیوں کا لامحدود اختیار ات اور طاقت فراہم کرتا ہے ، تو دوسری طرف سیکیورٹی ایجنسیوں کو کسی بھی قسم کی جواب دہی سے مبرّا قرار دیتا ہے۔ اس قانون کا سب سے بڑا سقم یہ ہے کہ

Burden of proof has been shifted from state to the suspect.

خواتین و حضرات پوری دنیا کا مروّجہ اصولَ قانون یہ ہے کہ ہر وہ شخص جس پر کوئی الزام ہو ، اس وقت تک معصوم تصوّر کیا جاتا ہے جب تک کسی عدالتِ انصاف میں باقاعدہ مقدمہ چلا کر اور ملزم کو باقاعدہ صفائی کا موقع دے کر عدالت اس کو مجرم ثابت نہ کردے، مگر اس قانون میں اس اصول کو باقاعدہ طور پر الٹ دیا گیا ہے۔ اب کسی الزام میں گرفتار شدہ شخص جب تک اپنے آپ کو معصوم ثابت نہ کردے وہ مجرم ہی تصوّر ہوگا۔

پروٹیکشن آف سائبر کرائم بل 2015

نام تو اس قانون کا اصل میں سائبر کرائمز کنٹرول ہے۔ مگر در اصل یہ قانون سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کا راستہ روکنے اور مخالفین کی کی زبان بندی کے ارادے سے تشکیل دیا گیا ہے۔ اس قانون کی اصل روح اِ س میں جان بوجھ کر ڈالے جانے والے ابہام ہیں۔

اس قانون میں سائبر جرائم کی عام فہم اور جامع تعریف کے بجائے ، اِس میں ابہامات کی کثرت ہے ۔اِ س قانون میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جواز بنا کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیرمعمولی اختیارات دئے گئے ہیں۔ اس قانون کے تحت مجاز اتھارٹی یا اس کا کوئی افسر ، کسی بھی آئی ٹی سروس پرووائیڈر کو کسی بھی ویب سائٹ اور انٹرنیٹ پر کسی بھی سوشل میڈیا فورم یا پیج کو بلاک کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔

یہ قانون، ایک تیر سے دو شکار کرنے کا معاملہ ہے ۔ آپ اس قانون کو دو دھاری تلوار بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ سائبر جرائم کی روک تھام کے لئے استعمال ہوگا اور دوسری طرف یہ قانون سوشل میڈیا پر مخالفین کی زبان بندی کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ اس قانون کا اصل مقصد سوشل میڈیا پر ہونے والی سیاسی تنقید کا راستہ بند کرنا ہے۔

ماہرینِ قانون، اظہارِ رائے کے علمبرداروں، اور انسانی حقوق کے عمل پرستوں کے نزدیک اس قانون کے دو دھاری استعمال کا امکان ، بعید از قیاس نہیں ہے ۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ریاست کے غیر مرئی کنٹرول کے بعد سوشل میڈیا کو مکمّل طور پر اپنے کنٹرول میں لینے کیلئے اور اظہارِ رائے پر بالواسطہ کنٹرول حاصل کرنے کے لئے اور سوشل میڈیا پر حکومت یا ریاست سے متعلّق کوئی بھی مواد شائع کرنے پر مخالفین کی زبان بند کرنے کے لئے اس قانون کے ناجائز استعمال کے واضح امکانات موجود ہیں۔

اس قانون کے تحت سزاوں کا دورانیہ تین ماہ سے لے کر پانچ برس تک ہے ۔ اور جرمانے کی رقم ایک لاکھ سے پانچ کروڑ روپے تک ہے۔

قارئین اکرام ، حدود آرڈینینس بھی ایک متنازعہ قانون ہے، اس قانون میں موجود ابہامات اور اِس قانون کی ذیلی شقیں ، ماہرین قانون کی نظر میں اصولِ انصاف سے یکسر متصادم ہیں۔ پاکستان میں پولیس اور بااثر طبقات نے اس قانون کو ناجائز طریقے سے استعمال کرکے عوام کو اِس قانون سے متنفّر کیا ہوا ہے۔ خاص طور پر زنا بالجبر کی شکار خواتین کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے الٹا اُن خواتین پر زنا کا پرچہ درج کرکے ، قانون اور انصاف کا مذاق بنایا جاتا ہے۔

موقع ملا تو کبھی تفضیل سے اِس پر بھی گفتگو کریں گے۔ طوالت کے پیشِ نظر ہم اس کالم کو یہیں پر تمام کرتے ہیں اور باشعور قارئین ، اہلِ علم ، دانشوروں اور ماہرین قانون سے درخواست کرتے ہیں کہ حکومت و ریاست کو اِس بات کا احساس دلائیں کہ انسانی حقوق کی حرمت ، افضل ترین اور مقدّم ترین فریضہ ہے۔ ہماری سماجی ذمّہ داری ہے کہ اس قومی فریضے کو زمّہ داری سے اداکریں۔ اور حصول انصاف کو عام لوگوں کے لئے ممکن بنائیں۔

Comments are closed.