جماعت احمدیہ پاکستان کے ہیڈ کوارٹرز پر پولیس کا چھاپہ

ahmadia

پنجاب حکومت کی انسداد دہشت گردی فورس نے پانچ دسمبر کو جماعت احمدیہ پاکستان کے صدر دفتر پر چھاپہ مار کر چار ارکان کو حراست میں لے لیا ہے۔ یاد رہے کہ اسی دن ہی وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے ڈاکٹر عبدالسلام جو کہ احمدی تھے کی ملکی اوربین الاقوامی سائنسی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ فزکس کوا ن کے نام معنون کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی پولیس تین گاڑیوں میں آئی اور زبردستی جماعت کے ہیڈکوارٹر میں داخل ہوئی اور گیٹ پر موجود گارڈ پر تشدد کیا۔

جماعت احمدیہ کے جرائد”الفضل” اور” تحریک جدید” سے متعلقہ چار افراد کو حراست میں لے لیااور دیگر پانچ افراد کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 298بی، 298 بی(اےاور 298 سی اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 11-9ڈبلیو کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق انسداد دہشت گردی کے حکام نے جماعت احمدیہ کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپہ مار ا اور ان جرائد کو شائع کرنے سے روک دیا جن پر پہلے سے پابندی عائد تھی۔

جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے کہا جن جرائد پر پابندی لگانے کا کہا جارہا ہے وہ غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ ان جرائد پر پابندی لگانے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ میں ایک پیٹشن دائر کی گئی تھی ۔جسٹس عائشہ ملک نے ان جرائد پر پابندی کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا تھا اور یہ معاملہ ابھی عدالت میں ہی ہے۔

سلیم الدین نے مزید کہا کہ جون 2015 سے یہ جرائد مسلسل شائع ہو رہے ہیں اور پولیس نے کاروائی کے لیے یہ دن اس لیے چنا جب حکومت پاکستان نے ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیااور یہ چھاپہ حکومت میں موجود مذہبی انتہا پسند عناصر کے ایما پر مارا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کی احمدیہ جماعت کے ہیڈکوارٹر پر پہلی دفعہ چھاپہ مارا گیا ہے جو کہ غیر قانونی اور توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ انہوں نے کہ ان کا پرنٹنگ پریس پندرہ دن کے لیے سیل کر دیا گیا ہے ۔” ہم صرف وہی مواد شائع کرتے ہیں جو صرف احمدی حضرات کے لیے ہے اس لیے یہ کیسے توہین آمیز ہو سکتا ہے”۔

جماعت احمدیہ کے پریس ریلیز کے مطابق “تحریک جدید” ایک ماہانہ رسالہ ہے جو صرف احمد ی احباب کی تعلیم و تربیت کے لیے جماعت احمدیہ کے دفتر تحریک جدید ربوہ سے شائع کیا جاتا ہے۔ اسی طرح روزنامہ الفضل بھی ربوہ سے شائع کیا جاتا ہے اور اس کی پیشانی پر واضح طور تحریر کیا جاتا ہے کہ یہ احمدی احباب کی تعلیم وتربیت کے لیے ہے۔ گذشتہ سال متحدہ علما بورڈ کی سفارش پر ہوم ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب نے ان جرائد پر بلا جواز پابندی عائد کر دی تھی جس کے خلاف رسالہ تحریک جدید اور الفضل کے ایڈیٹروں کی جانب سے فاضل جج جناب جسٹس اعجازالحسن نے دو جون 2015 کو حکم امتناعی جاری کیا تھا۔ ابھی یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ مین جسٹس عائشہ ملک کی عدالت میں زیر سماعت ہے اور۔ انسداد دہشت گردی پولیس نے عدالت عالیہ کے حکم کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ غیر قانونی کاروائی کی ہے۔

ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتےہوئے انسداد دہشت گردی کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل رائے محمد طاہر نے کہا کہ انہوں نے فیصل آباد میں موجود اپنی لیگل ٹیم سے مشورہ کرنے کے بعد جرائد کے خلاف کاروائی کی گئی ہے ۔ لیگل ٹیم کے مطابق عدالت نے کسی قسم کاکوئی حکم امتناعی جاری نہیں کیا۔

انہوں نے کہا انسداد دہشت گردی کی پوری ٹیم نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعدیہ فیصلہ کیا کہ جرائد کے خلاف چھاپہ مارنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔

۔” یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ یہ چھاپہ ڈاکٹر سلام کی خدمات کے اعتراف کے سلسلے میں کوئی انتقامی کاروائی ہے۔یہ صرف اور صرف مقامی انتظامی فیصلہ ہے اور چھاپہ مارنے کے لیے ہم پر مذہبی گروپوں کا اور نہ ہی اسلام آباد میں کسی وزیر کا کوئی دبا و ہے” ۔ انہوں نے کہا یہ چھاپہ کسی کی طرف سے شکایت درج کرانے پر مارا گیا ہے۔

دوسری طرف تحفظ ختم نبوت نے اپنی فیس بک پیج پر دعویٰ کیا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی پولیس نے یہ چھاپہ ہماری شکایت پر مارا ہے اور پولیس نے وہاں سے اسلحہ اور توہین آمیز مواد قبضے میں لیا ہے۔

یاد رہے کہ ایف آئی آر میں کسی توہین آمیز مواد یا اسلحہ قبضے میں لینے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

مذہبی رہنماوں کو وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا بھی ہضم نہیں ہو رہا۔ مختلف مذہبی رہنماوں نے وزیراعظم کے خلاف بیانات دیئے ہیں اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ قائداعظم یونیورسٹی کے نیشنل سنٹر برائے فزکس کو ڈاکٹر سلام کے نام معنون کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

ایکسپریس ٹریبیون۔ لاہور/نیوز ڈیسک

3 Comments